زندگی محض عیش عشرت ،اور موج
مستی کا نہیں بلکہ صبر استقامت ،خوداری اور عفو در گزر کا نام ہے ۔سہولیات
زندگی کے سہارے زندگی کے سفر کوطے کرنا کوئی کمال نہیں ،لیکن بغیر کسی
سہارے اور آسرے کے اس کھٹن سفر کو طے کرنا کارنامہ اور کمال ہے ۔برداشت کے
مادے سے ہر قسم کے بُرے حالات کا مقابلہ استقامت ،صبر ،ایمانداری اور
خودداری کرنے والے ہی معاشرے کے اصل ہیرو ہوتے ہیں ۔ہمارا معاشرہ ایسے
لاتعداد گمنام ہستیوں سے بھرا پڑا ہے ۔جو زندگی کے تلخیوں کا نہایت دلیری
سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن کبھی کسی سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔زمانے کی ستم
ظرفی کا صبراور عفو ودرگزر سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں ،لیکن کبھی کسی
سے شکوہ التجا نہیں کرتے ،کئی دن بھوکے سو جاتے ہیں لیکن کبھی دہائیا ں
نہیں دیتے۔ اور یوں اپنے سینوں میں ہزاروں زخموں کو چھپائے رکھے آخر ایک دن
موت کے اغوش میں چلے جاتے ہیں ۔اور پیچھے چھوڑ جا تے ہیں ہمارے لیے ایک سبق
آموز کہانی ۔سوات سے کراچی آتے ہوئے ایک سفر کے دوران ایسے ہی کردار کے
مالک ایک ضعیف العمر شخص سے میری ملاقات ہوئی تھی ،جو صبر ،استقامت اور
خوداری کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔دوران سفر جب کوچ ہوٹل پر رُکھی تو سب کی
طرح میں بھی کھانے کا آرڈر دے کر ایک چارپائی پر بیٹھ گیا ۔شہر سے دور
ویرانے میں اس چھپڑا ہوٹل میں اس وقت کافی گھما گھمی تھی۔چاروں طرف بیٹھے
مسافروں کا جایزہ لیتے ہوئے ایک مشہور کہاوت یاد آئی کہ، زندگی ایک سفرہے
یہاں سب کا کارواں ایک ہے لیکن منزلیں سب کی جُدا جُدا ہیں ۔اس کوچ کے سفر
کی طرح جس کے مسافروں کا سفر تو مشترکہ ہے لیکن منزلیں سب کی جُدا جُدا ہیں
۔اس کارواں میں کوئی کسی غم یا پھر کسی خوشی میں شرکت کے لیے سفر پر مجبور
ہے تو کوئی محض پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے محوسفر ہے توکوئی سیر و تفریح کے
غرض سے بحالت سفر ہے ۔ مسافروں کا طواف کرتے ہوئے میری نظر ایک ضیف العمر
شخص پر رکھ گئی ۔سفر کی تکان اور بڑھاپے سے نڈھال یہ شخص جس کی عمر تقریباً
ستر برس ہوگی کسی چارپائی پر بیٹھنے کے بجائے زمین پر ایک کونے میں دیوار
سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھاتھا ۔اس شخص کی مجبوری کو محسوس کرتے ہی میں
فوراًاُس کے پاس گیا اور کہا ،باباجی یہاں کیوں بیٹھے ہو ،آجائیں چارپائی
پر بیٹھ جائیں ،باباجی نے اُمید بھری نظروں سے دیکھ کر نہایت خفیف آواز
میںمسکرا کر کہا ،بیٹا میں یہاں ٹھیک ہوں اگر چارپائی پر بیٹھ گیا تو ہوٹل
والے کھانا لاکر سامنے رکھ دیں گے ،تو کیا آپ کھانا نہیں کھائیں گے ،نہیں
بیٹا میرے پاس پیسے نہیں ہیں ،میں تو ٹکٹ کے پیسے بڑی مشکل سے ادھار لے کر
کراچی جا رہا ہوں ،نہایت حیرت کے ساتھ میں نے زبردستی بابا کو اُٹھا یا اور
قریبی چارپائی پر بیٹھاکر اُن کے لیے کھانے کا آرڈر دے کر کہا ،باباجی اب
آپ اس سفر میں کھانا ،ناشتہ میرے ساتھ ہی کریں گے ،ٹھیک ۔باباجی شفقت بھری
نظروں سے دیکھتے رہے اور دعائیں دیتے رہے اُس وقت مجھے جس خوشی کا احساس ہو
رہا تھا اُسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ،دوران سفر میں نے باباجی سے
پوچھا ،باباجی آپ کراچی کسی رشتہ دار کے گھر جا رہے ہیں ؟باباجی نے ایک
لمبی سانس لینے کے بعد کہا نہیں بیٹا کراچی میں نہ تومیرا کوئی رشتہ دار ہے
اور نہ ہی کوئی ذاتی رہا ئش ہے، تو پھر آپ کہاں جائیں گے،بیٹا لانڈھی میں
گل احمد مل کے قریب ایک مسجد ہے میں وہاں جاؤں گا ،کیا آپ مسجدمیں موذن ہیں
، نہیں بیٹا بات کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے
وہاں میں نے چند دن گزار ے تھے ،وہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں اُنہوں نے میری
بڑی خدمت کی تھی ،میرے لیے چندہ کر کے اُنہوں نے کافی رقم اکٹھا کی تھی ،اب
ایک بار پھر بحالت مجبوری وہاں جا رہا ہوں ،با باجی کیا گاؤُں میں آپ کا
گزر بسر ممکن نہیں ہے ۔ کیاآپ کی کوئی اولاد نہیں ہے جو آپ کے بڑھاپے کا
سہارابنے ،بحالت تجسس میں نے کئی سوالات ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالے ،باباجی
ایک سرد آہ بھر کر کہنے لگے ،اللہ کا شکر ہے میں ایک فرمانبردار جوان بیٹے
کا باپ ہوں ،ایک نہایت خدمتگار بہو کا سسر ہوں ، ہم تینوں افراد بر سوات
میں ایک جھونپڑے نما مکان میں ہنسی خوشی رہتے ہیں ،لیکن بیٹا گھر میں بہو
آنے کے بعد میرا گزارا مشکل ہوگیا تھا،کیوں باباجی بہو آپ کو تنگ کرتی ہے ،نہیں
بیٹا وہ تو بہت نیک اور ملنسار ہے ،لیکن مجھے کھانا دیتے وقت سالن میں بہت
زیادہ پانی ملا دیتی ہے اور میرے حصے کی روٹی بھی کم کر دیتی ہے ،واہ
باباجی ایک طرف آپ اپنی بہو کی تعریفیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب اُسکے
بُرے برتاؤ کی بات کرتے ہیں ،آپ اپنے بیٹے سے اُسکی شکایت کیوں نہیں کرتے ۔باباجی
یک دم جذباتی انداز میں کہنے لگے ،نا بیٹا میری بہو بہت اچھی ہے ،وہ میرے
ساتھ جو کچھ کررہی ہے وہ اُس کی مجبوری ہے ۔میں بھلا اپنے بیٹے سے شکایت
کیوں کروں ،وہ بے چارا کیا کر لے گا ،میرا بیٹا گاؤں کے ایک خان کے پاس جدی
پشتی ملازم ہے ،غربت کی وجہ سے کوئی اُس کم نصیب کو رشتہ بھی نہیں دے رہا
تھا ،مجبوراً اُس نے پاس کے گاؤں کی ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کرلی ۔
خان میرے بیٹے کو تنخواہ کے عوض صرف دو وقت ایک پلیٹ سالن اورپانچ روٹیاں
اور سال میں دو بار چند کپڑے دیتا ہے ،اب تم بتاؤ بہو بےچاری ایک پلیٹ سالن
کو تین افراد میں کیسے تقسیم کرے گی ،لہذا وہ مجبوراً میرے حصے میں تھوڑا
زیادہ پانی ملا دیتی ہے ،اس میں اُس بےچاری کا کیا قصور ہے ،جب گزر بسر میں
مشکلات بڑھنے لگی تومیں نے سوچا کہ کیوں نہ باقی ماندہ زندگی اُسی مسجد کی
خدمت میں گزار دوں ،باباجی اپنی بے بسی ،لاچاری،عفو اور حقیقت پسندی پر
مشتمل مختصر داستان سُنا کر چُپ ہوگئے ،اور میں تمام سفر سوچتا رہا کہ
ہمارے معاشرے میں نجانے ایسے کتنے کردار ہیں جو انتہائی کمپسری کی زندگی
گزارنے کے باوجودصبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے ،سامنے والے کے بُرے
برتاؤ کو حقیقت پسندی کے نظر سے دیکھتے ہوئے عفو ودرگزر سے کام لیتے ہیں ،اس
طرح کے انسان ہر حال میں خدا کا شکر بجا لاتے ہیں ،یہی ہمارے معاشرے اصل
ہیرو اور حقیقی وارث ہیں ۔کراچی پہنچ کر میں نے ٹیکسی کے پیسے بچا کر باقی
تمام رقم باباجی کو دے دی اور انہیں لانڈھی کی بس میں بٹھا کر رخصت کردیا ۔دل
میں عہد کیا کہ وقت نکال کر باباجی سے ملوں گا اور حسب توفیق اُنکی مدد
کروں گا ۔ کچھ عرصہ بعد کسی کام کے سلسلے میں لانڈھی جانا ہوا توباباجی سے
ملنے کا ارادہ کیا ،معلومات کرتے کرتے آخر اُس مسجد میں پہنچا ،لیکن باباجی
کہیں نظر نہ آئے ،پوچھنے پر مسجدکے خادم نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک
باباجی یہاں آئے تھے جو مسجد میں رہنے کا اسرار کررہے تھے لیکن کمیٹی والوں
نے اُسے مسجد میں رہنے نہیں دیا ،اُنہوں نے بہت منت سماجت کی کہ میں مسجد
کی دیکھ بھال کروں گا ،لیکن کمیٹی والے نہ مانے اور اُنہیں زبردستی باہر
نکال دیا ،اُسکے بعد کچھ دن تو انہیں مسجد کے باہر دیکھا گیا،لیکن پھر وہ
کہیں چلے گئے ،پھر دو ہفتے بعد پچھلے محلے کی ویران گلی سے اُن کی لاش ملی
،چونکہ وہ لاوارث تھے لہذا ایدھی والے اُن کی میت کولے گئے ، باباجی کے بے
آسرا اور افسوس ناک موت کا سن کر میں اپنے ضبط کو قائم نہ رکھ سکا اور بے
اختیار رو پڑا ،چند لوگ جو ہماری بات چیت سُننے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے ،آپس
میں کہنے لگے یہ شاید اُس بابا کا بیٹا ہے ،جو اب اُسے تلاش کرنے آیا ہے ،عجیب
اولاد ہے پہلے بوڑھے باپ کو گھر سے نکال کر در در کی ٹھوکروں پر مجبور کرتے
ہیں اور جب وہ بے آسرا موت مرجاتے ہیں تو مگر مچھ کے آنسو بہا تے ہیں ،یہ
سُن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں چیخ چیخ کر کہنے لگا ،ہاں میں
اُس کاایک بے حس بیٹا تھا ،تم بھی اُس کے بیٹے تھے ،لیکن کسی نے بھی اُس کی
مدد نہ کی ،وہ تو صبر ،استقامت ،عفو ودرگزر کا شاہکار تھے ،لیکن ہم جیسے بے
حس اُن کو نہ سمجھ سکے اور بے آسرا چھوڑ دیا بے رحم موت کے لیے ،وہ تو آپ
لوگوں کی تعریفیں کرتا تھا ،افسوس میں نے اُسے یہاں آنے کیوں دیا اور کچھ
نہیں تو کم ازکم کسی خیراتی ادارے میں ہی داخل کروادیتا ،جہاں وہ پیٹ کے
دوزخ سے بے پروا ہو کر سکون کی موت تو مر سکتا تھا ۔۔۔۔لیکن شاید قدرت نے
اُس کے مقدر میں یہی لکھاتھا ۔ |