امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک ایک نہر کے کنارے رہتے
ہوئے آپس میں دوست بن گئے دونوں ایک مقرر ہ وقت پر ملا کرتے تھے دل کے بھید
ایک دوسرے سے کہتے اپنا اپنا بوجھ ہلکا کرتے ان کی ملاقات سے ان کے دلوں
میں خوشی اور کشادگی پیدا ہوتی دونوں کی دوستی اور تعلق بڑھا ۔ ملاقات کا
اشتیاق بڑھا تو دونوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کی ضرورت
محسوس کریں تو ان کے درمیان نامہ و پیغام کا کوئی وسیلہ ہونا چاہیے ۔یہ طے
پایا کہ ایک لمبی ڈور لیں جس کا ایک سرا چوہے کے پاﺅں کے ساتھ اور دوسرا
مینڈک کے پاﺅں میں بندھا ہوا ہو ۔ مینڈک نے یہ بات بڑی مشکل سے تسلیم کی اس
نے سمجھ لیا کہ چوہا اسے پھانس رہا ہے ۔ اگرچہ اسے یہ بات ناگوار گزری مگر
چوہے کے اصرار کے سامنے مان گیا ۔ دونوں نے ڈوری لیکر باندھ لی ۔ اچانک ایک
کوا آیا اس نے چوہے کو اچک لیا ۔ چوہے کوے کی چونچ میں اور مینڈک پاﺅں
بندھا ہوا ہوا میں معلق ۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کوے کی چالاکی دیکھو پانی کے
جانور کو شکار کر کے لیے جا رہا ہے مینڈک سے کسی نے دریافت کیا کہ تو کوے
کا شکار کیسے بنا ۔ اس نے کہایہ سزا ہے بے آبروﺅں کی طرح کمینے کا ساتھی
بننے کی ، یہ سزا ہے صحبت نا جنس کی ، فریاد ہے ناجنس دوست سے اور فریاد ہے
برے کے ساتھ سے ۔ ۔۔
قارئین ! پاکستان کے آج کے حالات کا تانہ بانہ قیام پاکستان کے فوراً بعد
ہمسایہ ملک روس کی طرف سے دوستی کے ہاتھ کو قبول نہ کر کے ہمارے حکمرانوں
نے بُنا ۔ روس نے پاکستان کے وزیراعظم کو دورے کی دعوت دی لیکن خارجہ
پالیسی بنانے والے ذہنی غلاموں نے نواب زادہ لیاقت علی خان کو قیام پاکستان
کی سالگرہ کا بہانہ بناکر روس جانے سے روک دیا اور وہ دن ہے اور آج کا دن
ہم اپنے ہمسائے کی دوستی سے محروم ہوگئے اور کئی سمند ر پار بسنے والے آج
کے دجال امریکہ کے غلام بن گئے ایسا بھی ہوا کہ ہمیں امداد کے نام پر گندم
کی بھیک دی گئی اور ہمارے حکمرانوں نے بے غیرتی کی اس امداد کو ناصرف قبول
کیا بلکہ پوری قوم کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ ہمارا خیر خواہ
ہے اور ہمیں امریکہ کے خلاف کسی بھی قسم کی سوچ ذہن میں نہیں رکھنی چاہیے ۔
ایبٹ آباد کے سانحہ یا ڈرامہ کو آپ کچھ بھی کہہ لیں یہ بات طے ہے کہ ”نیو
ورلڈ آرڈر“ اور ”تہذیبوں کے مابین جنگ“ کے ایجنڈاز کو ”دہشت گردی کے خلاف
جنگ“ کے پردے میں تکمیل کی طرف لے جایا جا رہا ہے ۔ عالمی منظر نامے پر
پاکستان اس وقت ذلت اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنا دیا گیا یہ فیصلہ کرنا
مقتدر قوتوں کا کام ہے کہ امریکہ نے پاکستانی حکمرانوں اور فوجی قیادت سے
ایبٹ آباد آپریشن کےلئے طے کیا کیا تھا اور یہ آپریشن کر لینے کے بعد جو
کچھ کیا وہ معاہدے کا حصہ تھا یا 1971ءکے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ساتویں
امریکی بیٹرے کی طفل تسلیوں کی ایک اور قسط تھی ۔
قارئین ! پوری دنیا میں آباد لاکھوں تارکین وطن پاکستانی اس وقت جس نازک
صورتحال سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ پاکستان میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا
سکتا ۔ ملک سے محبت کرنے والے دل اس وقت شکستہ اور زخمی ہیں ۔ امریکہ ،
اسرائیل ، بھارت سے لیکر یورپ اور دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام اس وقت
پاکستانی حکومت ، افواج پاکستان ، سیکورٹی ایجنسیز اور ملک کے دفاع میں
ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والی ”آئی ایس آئی“کو تنقید کا نشانہ بنائے
ہوئے ہیں اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن کو افواج پاکستان کی
آشیرباد سے سیکورٹی ایجنسیز نے ایبٹ آباد میں چھپا رکھا تھا ۔ سب سے پہلے
سوچنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے خود کش دھماکے
کیا القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے گروہ نے کیے ۔۔۔؟ریمنڈ ڈیوس سے لیکر
پاکستان اور آزاد کشمیر بھر میں پھیلے امریکہ اور سی آئی اے کے ہزاروں جا
سوس کیا پاکستان میں امن کی فاختہ بن کر گھوم رہے ہیں ۔۔۔؟ پاکستان کے
مختلف ہوائی اڈے اور لاجسٹک سپورٹ کے نام پر جناب مشرف کی طرف سے دیے جانے
والے بلینک چیک کو امریکہ کس طریقہ سے استعمال کر رہا ہے ۔۔۔؟ بلوچستان ،
خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف جو قتل
عام کیا جا رہا ہے کیا اس کے بعد ہم ملک میں امن کی امید کر سکتے ہیں ۔۔۔؟
مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملنے والے
بارڈر پر امریکہ نے ایک بے معنی جنگ میں ملوث کر کے کون سے مقاصد کی تکمیل
کرنا چاہی ہے ۔۔۔؟
قارئین ! یہ تمام سوالات ملک سے محبت رکھنے والے پاکستانی و کشمیری اپنے
حکمرانوں سے پوچھتے ہیں ۔بقول اقبالؒ
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد ِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام ِپادشاہی
تری زندگی اسی سے ، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی ، نہ رہی تو رو سیاہی
نہ دیا نشان ِ منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہوتجھ سے ، تونہ رہ نشیں ، نہ راہی
مرے حلقہ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ ورسم کجکلا ہی
یہ معاملے ہیں نازک ، جوتری رضا ہو توکر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہماکا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان ِمرغ وماہی
تو عرب ہو یا عجم ہوترا لاالہ الا
لغت ِ غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
قارئین! 63سال قبل کی جانے والی غلطی کی اصلاح کی جا سکتی ہے اور اپنے
ہمسائے روس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر کے ہم صحبت نا جنس اور کمینے کی
دوستی کے نقصانات اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
لندن کی ایک بیکری کے سینڈوچ ملکہ کےلئے محل میں جاتے تھے دوستوں کے مشورے
پر بیکری والے نے دکان پر ایک بڑا سا بورڈ نصب کروایا ۔ جس پر تحریر تھا ۔
”ہمارے سینڈوچ ملکہ معظمہ بڑے ذوق و شوق سے نوش فرماتی ہیں ۔“
قریب کے دوسرے بیکری والے کو یہ بات کچھ زیادہ پسند نہ آئی اس نے اپنی دکان
پر اس مضمون کا بورڈ لگوایا۔
”اللہ ہماری ملکہ معظمہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے“
ہماری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ہمیں
دشمنوں سے زیادہ اپنے دوستوں سے خطرہ ہے ۔ |