اِس وقت پاکستانی قوم جن بڑی اور
مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے :
ہم ایک منتشر اور پارہ پارہ قوم بن چکے ہیں۔ ہمیں اِتحاد و یگانگت کی سخت
ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہماری scattered اور disintegrated قوم کو
unity مل جائے اور یہ دوبارہ وحدت کے رشتے میں پروئی جائے۔ مگر یہ کیسے
ممکن ہے؟ اس کے لیے تبدیلی (change) چاہیے۔
قوم مایوس ہوچکی ہے۔ میں اس قوم کو مایوسی سے نکال کر امید کی نعمت اور
یقین کے نور سے بہرہ مند دیکھنا چاہتا ہوں مگر یہ قوم مایوسی سے کیسے نکلے
اور امید اور یقین کا نور ان کے چہروں پر کیسے پلٹ کے آسکتا ہے؟ اس کے لیے
بھی ایک بنیادی تبدیلی (change) کی ضرور ت ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ قوم بدقسمتی سے بے مقصدیت کا شکار ہوگئی ہے۔ اس قوم
کے سامنے کوئی نصب العین نہیں رہا، جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر منتشر ہو جانے والے
جتھوں کو جوڑ کر ایک اکائی میں دوبارہ بحال کر سکے، جو قوم کے کروڑوں لوگوں
کو باعزت جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا سکے۔ ہم اس قوم کو دوبارہ مقصد کا
شعور اور آگہی دینا چاہتے ہیں۔ ہم گزشتہ 30 سالوں سے تحریک منہاج القرآن کے
ذریعے بیداریِ شعور کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ اس بے مقصد قوم کو اب مقصد اور
آگہی کا شعور کیسے ملے گا؟ اس کے لیے بھی ہماری غور و فکر کا نتیجہ یہی ہے
کہ اس کے لیے بھی بنیادی تبدیلی (change) کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ قوم بے سمت ہوگئی ہے۔ کراچی سے خیبرپختونخواہ تک اور کشمیر سے
چمن کی سرحدوں تک من حیث القوم اس کی کوئی سمت نہیں رہی۔ اس کی سوچیں،
وفاداریاں، بولیاں، مفادات، ترجیحات اور ایجنڈے سب متضاد ہیں۔ یہ ایک
directionless قوم بن چکی ہے۔ سترہ کروڑ بے ہنگم عوام کا ہجوم ایک قوم بن
کر، ایک وحدت اور اکائی بن کر، ایک مقصد کے ساتھ ایک سمت کی طرف چل پڑے،
لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے ایک ہمہ گیر change کی ضرورت ہے اور وہ
تبدیلی نظام میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔
اِنتخابات کا فریب پاکستان کے عوام اس بنیادی تبدیلی کے آرزو مند ہیں، لیکن
ہر چار پانچ سال کے بعد تبدیلی کے نام پر انہیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اس کرپٹ
سسٹم، نااَہل قیادتوں اور غیر شفاف نظام اور غیر مؤثر حکومتوں کے نتیجے میں
اس قوم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو
کر خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ جان و مال کی ہلاکت اور دہشت گردی، قتل وغارت
اور لوٹ مار اِن کا مقدر بن چکا ہے۔ لوگ بجلی، سوئی گیس اور پانی کی بنیادی
ضروریات سے محروم ہیں، بے روزگاری نئی نسل کو چور ڈاکو بننے کی ترغیب دے
رہی ہے۔ نسلی، علاقائی، لسانی تعصبات نے ملک کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ پانچ سال تک اِس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غیظ
و غضب کو پالتے رہتے ہیں اور اپنے دشمن کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
تاکہ آئندہ ان سے نجات حاصل کریں مگر بدقسمتی سے جوں ہی چار یا پانچ سال
پورے ہوتے ہیں، اُن کا وہی دشمن نئے انداز سے دوستی، وفاداری، ہم دردی اور
محبت کا لباس اوڑھ کر اور یہی رہزن ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کے
محافظ کا روپ دھار کر سامنے آجاتے ہیں۔ اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی
بے سمت، تباہ حال اور بدنصیب قوم پھر اُنہی رہزنوں کو دوست اور مسیحا سمجھ
کر اگلے پانچ سال کے لیے منتخب کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ تمام نفرت اور غیظ و
غصب جو ان کی گزشتہ پانچ سالوں کی لوٹ مار کے باعث لوگوں کے دلوں میں پیدا
ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کی آنکھوں سے پردے اٹھ رہے تھے اور وہ
حقائق سے آگاہ ہو رہے تھے - سب بے کار چلا جاتا ہے اور شعور کا چراغ پھر
بجھ جاتا ہے۔ |