سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کا
وہ دشمن کون ہے جس نے دائماً اِنہیں پچھلے 64 برس سے تبدیلی اور خوش حالی
سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم ملک کے سترہ کروڑ عوام کو اس دشمن کی شناخت کروانا
چاہتے ہیں جس نے ان کو باعزت زندہ رہنے کے حق سے محروم کر رکھا ہے حتی کہ
اس قوم کو اپنی شناخت سے بھی محروم کر دیا ہے۔ وہ دشمن کون ہے؟ آج طلباء
اور طالبات کے اس عظیم اجتماع میں اسی دشمن کی پہچان کروانا مقصود ہے تاکہ
قوم کے بیٹے بیٹیاں، قوم کی آئندہ نسلیں اپنے مستقبل کو سنوارنے اور محفوظ
رکھنے کے لیے صحیح سمت پر جد و جہد جاری رکھ سکیں اور اس کے خلاف ایک
پُراَمن جنگ لڑنے کے لیے صف آرا ہو سکیں۔ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پیپلز
پارٹی تمہاری دشمن ہے، کوئی کہہ دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمہاری دشمن ہے،
اسی طرح بعض دوسری سیاسی پارٹیوں کا نام لے دیتے ہیں جس سے سیاسی گروہ یا
جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتی ہیں اور عوام اس جنگ
میں شریک ہو جاتے ہیں۔ میں categorically بتا دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز
پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، ق لیگ ہو یا ایم کیو ایم، اے این پی ہو یا کوئی
مذہبی جماعت یا بلوچستان اور دیگر صوبوں کی مقامی جماعتیں، یہ سب آپ کی
حقیقی دشمن نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی جماعت
یا قیادت بھی عوام کی حقیقی دشمن نہیں تو دشمن کون ہے؟ وہ کون ہے جس نے اِس
قوم کو کچل رکھا ہے؟ اِس قوم کو محرومی کی آگ میں جھونک رکھا ہے؟ کس نے اِس
قوم کو تباہی اور ہلاکت کی راہ پر گامزن کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو اس
کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو خود کشیوں کی
راہ پر ڈالا ہے؟ اُسی دشمن کی شناخت کروانے کے لیے ہم نے بیداریِ شعور کی
تحریک شروع کی ہے۔
یاد رکھیں! آپ کا دشمن یہ کرپٹ اور اِجارہ دارانہ نظامِ انتخاب ہے؛ وہ
نظامِ سیاست جو گزشتہ چھ دہائیوں سے مخصوص لوگوں کو اس ملک میں پال رہا ہے،
مخصوص اجارہ داریوں کے نیچے جس کی پرورش ہو رہی ہے، جس نے اس قوم کے ننانوے
فیصد عوام کو حقیقی جمہوریت سے محروم کر رکھا ہے اور جس نے ایک فی صد سے
بھی کم پر مشتمل مخصوص طبقے کو حکومت کا پیدائشی اور موروثی حق دے رکھا ہے۔
اگلے سال پھر انتخابات کا اِمکان ہے اور اس کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔
یہی وہ کرپٹ اِجارہ دارانہ نظامِ انتخاب (monopolistic electoral system)
ہے جس کے اردگرد ملک کی پوری سیاست گھومتی ہے اور جس monopolistic
electoral system کے نتیجے میں اس ملک میں ایک جعلی جمہوریت جنم لیتی ہے۔
موجودہ پاکستانی سیاست اِس فرسودہ اِجارہ دارانہ نظامِ اِنتخاب کے گرد
گھومتی ہے اور اس نام نہاد monopolistic electoral system کے نتیجے میں جو
حکومتیں وجود میں آتی ہیں بدقسمتی سے ان حکومتوں کا نام جمہوری حکومت
(democratic government) رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ سیاست میں بھی دھوکا ہے اور
اس نام نہاد جمہوریت میں بھی دھوکہ ہے۔ |