آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ ہم اس
نظام کو کرپٹ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اِس نظام کو اِجارہ دارانہ کہنے اور کرپٹ
قرار دینے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ ان دلائل میں سے بعض کا تعلق تاریخی
شواہد کے ساتھ ہے اور بعض کا عملی کارکردگی کے ساتھ۔ آپ 1934ء کے زمانے کا
مطالعہ کریں جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا تو جو لوگ اس بمبئی کی حکومت کے وزیر
تھے، سندھ کی سیاست اس دن سے لے کر آج تک کم و بیش اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
انہی خاندانوں کی اجارہ داری میں رہی اور انہیں کو منتقل ہوئی۔ پارلیمنٹ کا
بہت بڑا حصہ آج تک انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی حال بہاول پور، بلوچستان اور
دیگر بیشتر حلقہ جات کا ہے۔ میں کسی شخص کا نام نہیں لوں گا، یہ میرا منصب
نہیں اور نہ میرا مقصود ہے۔ میں تو conceptual clarity دینا چاہتا ہوں اور
قوم کو ایک پیغام (message) دینا چاہتا ہوں۔ لوگ پہلے سے ان اجارہ دار
خاندانوں اور سیاست دانوں کو جانتے ہیں، بہاول پور میں جو لوگ 1906ء میں
وزیر اعلیٰ تھے اُنہی کے خاندان کے پاس آج تک سیاست و اِنتخابات کی اجارہ
داری ہے۔ تاجِ برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں جو بڑے بڑے
خانوادے آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسند اقتدار پر فائز تھے، جن کے پاس
1930ء کے اقتدار کی مسند تھی، آپ کو اُن ہی شخصیتوں کی نسلیں اقتدار پر
بیٹھی نظر آئیں گی۔ یعنی اِقتدار نسل در نسل اُنہی کو منتقل ہوتا نظر آئے
گا۔ اس دوران میں الیکشن ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، جمہوریت کے نام پر
اَدوار بدلتے رہے، کبھی فوجی آمریتیں آئیں اور کبھی سیاسی آمریتیں، مگر
اسمبلیاں اور اقتدار ان خانوادوں سے باہر کبھی نہیں گیا اور گیا تو بہت شاذ
گیا۔
اس کے بعد جب شہر آباد ہوگئے تو شہروں کی contribution بھی politics میں
شروع ہوگئی۔ چنانچہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور تاجر سیاست اور اقتدار میں
جاگیرداروں کے شیئر ہولڈرز بن گئے۔ وہ لاہور ہو یا فیصل آباد، سرگودھا ہو
یا گوجرانوالہ، سیال کوٹ ہو یا راول پنڈی، کوئٹہ ہو یا حیدر آباد یا پشاور
اور کراچی جہاں چلے جائیں آپ کو بیس بیس حلقوں تک مخصوص لوگ ہی براجمان نظر
آئیں گے، دیہی علاقوں میں جاگیردار ہیں اور شہری علاقوں میں سرمایہ دار۔
اس نظام انتخاب کو قائم رکھنے میں موجودہ الیکشن کمیشن بھی بڑا اہم کردار
ادا کر رہا ہے۔ وہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے حقیقتِ حال سے لاتعلق
ہو کر بیٹھا ہوا ہے۔ آج قومی اسمبلی کا الیکشن دس سے بیس کروڑ روپے سے کم
سرمائے سے نہیں لڑا جا سکتا جبکہ اس ملک کے نام نہاد الیکشن کمیشن نے پانچ
لاکھ سے دس لاکھ کی حد مقرر کی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں پچھلے
چالیس سال سے نابینا چلا آرہا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، انتخاب میں تین
لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی حد ہوتی تھی جب کہ تین کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے،
کبھی کوئی شخص نااَہل نہیں ہوا۔ پانچ لاکھ کی حد ہوتی تھی تو پانچ کروڑ خرچ
ہوتے تھے۔ آج اگر دس لاکھ کی حد ہے تو دس سے بیس کروڑ خرچ ہوتے ہیں، سب
دنیا جانتی ہے مگر کون disqualify ہوتا ہے؟ یہی لوگ براجمان ہیں اور پندرہ
پندرہ، بیس بیس سیٹیں ایک جیسے طبقے کے ہاتھ میں نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد جا
کر کوئی ایک آدھ ایسا سیاسی کارکن نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر اس طبقے میں
سے تو نہیں تھا مگر ایک کارکن اور حلقے میں کام کرنے کے ناطے اس نے اپنی
political stability کو develop کر لیا اور حکومتی عہدوں کے ذریعے معاشی
طور پر مستحکم ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ وہ وہاں کا نمائندہ ہوگیا۔ پورے ملک
میں کئی درجن سیٹوں کے بعد آپ کو ایک دو لوگ ایسے دکھائی دیں گے جو کارکن
سے لیڈر بنے ہیں۔ نتیجتاً شہر سرمایہ داروں اور مال داروں کے ہاتھ میں آگئے
اور دیہات جاگیرداروں کے پاس چلے گئے۔ |