اب آج کی موجودہ پارلیمنٹ سے
پوچھیں کہ جس کو چار سال ہونے کو ہیں، جس میں وفاقی اور صوبائی دونوں
حکومتیں شامل ہیں، اِنہوں نے اس قوم کو کیا دیا ہے؟ سترہ کروڑ عوام کو بجلی
نہیں مل رہی، پانی نہیں مل رہا، آٹا نہیں مل رہا، کھانا نہیں مل رہا،
روزگار نہیں مل رہا، لوگوں کی عزت و ناموس اور جان و مال محفوظ نہیں، ہر
وقت خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ عوام کو اس کی قانون سازی (legislation)
نے کیا دیا؟ اسمبلیوں میں ammendments اور قانونی موشگافیاں اپنے سیاسی
مفاد کے تحفظ کے لیے، اپنی کرپشن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسی لیے
حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ایک حکومت جاتی ہے تو اس سے منسوب تمام
منصوبے اور ادارے اٹھا کر سمندر میں غرق کر دیے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں
ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعت اور حکومت بدلنے سے ملک کی main
ڈائریکشن ہی تبدیل ہو جائے۔ جمہوری ممالک میں سیاسی حکومت بدلتی ہے لیکن
قومی ڈائریکشن وہی رہتی ہے۔ اہم کلیدی عہدوں پر سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، نہ
تقرری میں اور نہ برطرفی میں۔ قومی سلامتی کے اہم منصوبے بدستور جاری رہتے
ہیں مگر پاکستان میں قومی سطح کے کسی ادارے کی ایک بھی سیٹ ایسی نہیں ہے کہ
حکومت بدلتے ہی جس کے سربراہ بدل نہ جاتے ہوں۔ حکومت بدلے گی تو PIA کی
ساری اعلیٰ قیادت بدل جائے گی۔ یہی حال سٹیل ملز، واپڈا، اسٹیٹ بینک اور
ریلوے کا ہے، حتیٰ کہ فوجی اداروں کی اعلیٰ قیادت میں بھی اپنی مرضی سے ردّ
و بدل کیا جائے گا۔ نئی حکومت آئے گی تو پھر سارے heads بدل جائیں گے اور
اہم سیٹوں پر نئی تقرریاں ہوں گی، ماتحت بدل جائیں گے، سارے جاری منصوبے
تعطل کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ ہر چار سال کے بعد نیا پلان جاری ہوگا، جو
کام تین چار سال کے دوران مکمل ہو رہا ہوتا ہے دوبارہ نئے سے شروع ہو جاتا
ہے۔ یوں ہر تین چار سال کے بعد ملک zero پہ کھڑا ہوتا ہے۔ کنوئیں کے مینڈک
کی طرح قوم وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ کیا اس قوم نے کبھی محاسبہ کیا کہ
سیاسی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی اداروں اور قومی
منصوبوں کو تاخت و تاراج اور برباد کریں؟
مثلاً یہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہے؛ ہر جگہ ان کے leader آجائیں گے، مسلم لیگ
کے لگائے ہوئے سارے افراد برطرف ہو جائیں گے۔ نیچے تک نئی بھرتیاں ہو جائیں
گی، پچھلے لوگ بر طرف اور نوکریاں بھی ختم۔ پولیس میں اور تھانوں میں
تقرریاں اپنی مرضی سے ہوتی ہیں، اوپر IG، DC، سیکرٹری حتی کہ عدلیہ تک میں
تقرریاں کرنے میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح ان تمام اداروں کی آزادانہ اور
غیر جانب درانہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ غرضیکہ عدلیہ ہو یا انتظامیہ ہر جگہ
ہر سطح پر اپنے لوگوں کولائیں گے۔ پھر مسلم لیگ آجائے گی یا دوسری کوئی اور
جماعت آجائے گی تو نئے سرے سے تمام قومی اداروں کے سارے سربراہ تبدیل ہو
جائیں گے۔ ایسا تماشا مشرق سے مغرب تک، ترقی اور جمہوریت کا نام لینے والے
ملکوں میں کبھی نہیں ہوتا۔ وہاں قومی پالیسیاں برقرار رہتی ہیں۔ ان کے تاب
ناک روشن مستقبل کے لیے سالانہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ یہاں وہ بھی نہیں ہے۔
ہر سیاسی جماعت کے ہاں ایک پانچ سالہ منصوبہ بندی ہوتی ہے تاکہ الیکشن کے
ذریعے جب وہ پانچ سال کے لیے اقتدار میں آئے تو پانچ سال میں یہ deliver
کریں گے۔ لیکن یہاں نہ کوئی deliver کرنے والا ہے، نہ اس پر مؤاخذہ کرنے
والا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ جب کبھی قوم کے اندر پوچھنے کا شعور
بیدار ہوتا ہے تو اُن کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کے لیے بم بلاسٹ کرا
دیے جاتے ہیں۔ قتل و غارت گری کے دس پندرہ واقعات کرا دیے جاتے ہیں تاکہ
میڈیا اور قوم کی ساری توجہ اس طرف لگ جائے۔ |