یہ الیکشن جس میں ایک ایک
اُمیدوار کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری (investment) کرنے کے بعد اسمبلی میں
پہنچتا ہے وہ الیکشن ہی پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
یہ کبھی عوام کے دکھ اور مصائب حل کرنے میں کسی قسم کا relief دینے میں کام
یاب نہیں ہوسکا۔ پہلے پہل تو ظاہر داری کرتے ہوئے جماعتیں اپنا منشور عوام
کے سامنے پیش کردیتی تھیں لیکن اب تو جماعتوں کا منشور بھی ختم ہو چکا ہے۔
پبلک نے دھوکے کھا کھا کر اس روِش کو بھی قبول کر لیا ہے۔ اب نہ کوئی منشور
چھاپتا ہے اور نہ کوئی منشور پوچھتا ہے۔ اکثر اوقات یک نکاتی منشور چل پڑتا
ہے۔ بس ایک کہہ دے گا کہ کرپشن کا خاتمہ میرا منشور ہے، قوم کو کچھ پتہ
نہیں کہ یہ خاتمہ کس طرح ہوگا؟ اُس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اُس کی داخلہ
پالیسی کیا ہوگی؟ اِس ملک کو کیسے خسارے سے نکالا جائے گا؟ امپورٹ اور
ایکسپورٹ میں کیسے بہتری ہوگی؟ کتنا روزگار مہیا کیا جائے گا؟ ایجوکیشن پہ
کتنا خرچ کرے گا؟ ہیلتھ پر کیا خرچ ہوگا؟ Infrastructure پر کیا خرچ ہوگا؟
Regional relations کیا ہوں گے؟ بین الاقوامی پالیسی کیا ہوگی؟ کچھ معلوم
نہیں اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔
دوسرے نے کہہ دیا کہ سوئٹزر لینڈ کے اکاونٹس واپس لاؤں گا۔ بس کسی کو اس کے
علاوہ کوئی منشور پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک شخص کہہ دے گا کہ فلاں ملک
دشمن جماعت ہے اور وہ نظریہ پاکستان بحال کرے گا۔ قائداعظم کی فکر دے گا،
اُس کا پاکستان واپس دلائے گا۔ ایک نے کہا کہ جمہوریت دوں گا، کچھ نے کہہ
دیا ہم اسلام لائیں گے۔ کوئی کہہ دے گا کہ بی بی کے خون کا بدلہ لیں گے،
کوئی کہہ دے گا کہ لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کریں گے۔ یہ جملے آپ غور سے
سنیں، یہ سب یک لفظی منشور ہیں۔ کسی حقیقی منشور کی اس نظامِ اِنتخاب میں
ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب انتخابی جنگ جماعتوں سے ہٹ کر دھڑوں کے درمیان
شروع ہوگئی ہے۔ آج سے نہیں بلکہ 1989ء میں چلے جائیے وفاقی حکومتوں اور
صوبائی حکومتوں میں جنگ ہوتی تھی۔ کئی بار اسمبلیاں ٹوٹیں، سیاست دان آپس
کی جنگ اور باہمی منافرتوں کے ذریعے اور اپنی کرپشن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے
لیے میدان ہموار کرتے رہے۔ |