ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے
طلباء کنونشن میں خطاب کرتے ہوۓ فرمایا
میں تبدیلی کی بات کر رہا ہوں، جو آج کے اس طلباء کنونشن کا عنوان ہے۔ اب
آپ کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ آخر تبدیلی کے راستے کیا ہیں؟ پہلے سے موجود
ان راستوں اور طریقوں کی بھی میں وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ تبدیلی بذریعہ فوج آسکتی ہے؟ اس پر میرا جواب no ہے۔ فوج کے ذریعے کئی
بار تبدیلی آئی لیکن فوجی آمریت ملکی مسائل کو نہ کبھی حل کر سکی نہ کبھی
کرے گی۔ اُلٹا اس کا نقصان یہ ہے کہ اس سے خود فوج کے ادارہ کی قوم کے دلوں
میں ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ چونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے اس میں
بھی کرپشن انتہا درجے کی ہوتی ہے ۔ بیرونی طاقتوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے
کیونکہ وہ فردِ واحد سے بات کر رہے ہوتے ہیں، پارلیمنٹ سے نہیں۔ اور فردِ
واحد سے بات کر کے فیصلہ کروانا ان کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے، خصوصاً
military dictatorship بیرونی طاقتوں کے لیے انتہائی سازگار ہوتی ہے جبکہ
ملک اور قوم کے لیے اتنی ہی تباہ کن ہے۔ لہٰذا بذریعہ فوج تبدیلی آمریت کا
راستہ ہے، یہ تبدیلی کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔
2۔ دوسرا طریقہ بعض انتہا پسند ذہنوں میں آتا ہے کہ تبدیلی بذریعہ طاقت یا
بذریعہ بندوق لائی جائے۔ یہ دہشت گردی کا راستہ ہے، اس پر بھی میرا جواب
absolutely no ہے۔ ہم لوگ اس ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جلتا دیکھ چکے ہیں
کہ اس کے کتنے نقصانات ہوئے، اس لیے ہم اس ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا
چاہتے ہیں۔ بندوق قوم کے جوانوں کے ہاتھ سے لے لینا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ
میں امن اور ترقی کی بندوق دینا چاہتے ہیں اور وہ علم ہے۔ انہیں شعور کا
اسلحہ اور اعلیٰ کردار کی طاقت دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا یہ دہشت گردوں کا
راستہ ہے، انتہاء پسندوں کا راستہ ہے، یہ militancy ہے۔ مسلم ملک میں
militancy نہ اسلام میں جائز ہے اور نہ پاکستان میں اس کا کوئی مستقبل ہے۔
پاکستان کو ایک moderate، پُراَمن ریاست ہونے کا تاثر دنیا کو پیش کرنا ہے
جو tolerance اور patience کی حامل ہو، جس کے اندر progress اور
development ہو، جہاں باہمی اِفہام و تفہیم اور گفت و شنید کے ذریعے مسائل
حل کیے جائیں، جس کے اندر شفافیت ہو۔ پھر اس کے اندر intra-faith dialogue
کی گنجائش ہو اور مسلمانوں کے فرقوں کے اندر بھی ہم آہنگی ہو۔ وہ ایک دوسرے
کا گلہ نہ کاٹیں، مسلمانوں کے مختلف قسم کے فرقے ایک دوسرے کو کافر ہونے کا
فتوی نہ دیں، بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیاد پر مسلمان ایک گروہ اور
ایک فرقہ کے طور پر رہیں۔
اسی طرح interfaith harmony کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی بھی اہم ہے۔ یہ
ملک فتح نہیں کیا گیا کہ فتح کرنے کے بعد اقلیتوں کو اَمان اور ذِمّی کا
status دیں۔ بلکہ تمام غیر مسلم اقلیتیں پاکستان کے مسلمانوں کی طرح برابر
درجے کی شہری ہیں۔ اُنہوں نے بھی قیامِ پاکستان میں اسی طرح حصہ لیا تھا جس
طرح یہاں کی مسلم اکثریت نے حصہ لیا تھا۔ مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت
نے مل کر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی جنگ لڑی تھی۔ وہ برابر درجے کے
شہری ہیں، ہر ایک کو اپنی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے جب ریاستِ مدینہ قائم کی تو آپ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
یہود اور ان کے تمام clients کے ساتھ ایک political alliance قائم کیا تھا
اور میثاقِ مدینہ کی صورت میں پہلا آئین اور دستور دیا تھا جس میں مسلمانوں
اور یہود کو مل کر ایک single nation قرار دیا تھا۔ (حوالہ جات کے لیے
ملاحظہ ہوں : سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، کتاب الاموال لابی عبید قاسم
بن سلام، کتاب الاموال لابن زنجویہ اور دیگر کتبِ سیر و تاریخ۔)
میثاقِ مدینہ کے آرٹیکل 28 میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ يَهُودَ بَنِی عَوْفٍ أُمّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ، لِلْيَهُودِ
دِينُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِين دِينُهُمْ، مَوَالِيهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ.
(سيرت ابن هشام، 2 : 499. کتاب الأموال لابن زنجويه، 1 : 394. البداية
والنهايه، 3 : 225)
’بے شک یہودِ بنی عوف، مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی اُمت قرار دیے جاتے
ہیں مگر یہود کے لیے ان کا اپنا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا اپنا۔
اُمت ہونے میں وہ خود بھی شامل ہوں گے اور دونوں طبقات کے موالی بھی۔‘
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں ایک قوم اور ایک political entity بنا
دیا تھا اور فرمایا کہ ہر کوئی اپنے مذہب میں آزاد ہوگا۔ ہمارا ملک رواداری
کا ملک ہے، اسے برداشت اور رواداری کا ملک ہونا چاہیے، بین المذاہب اور بین
الفرقہ ہم آہنگی کا ملک ہونا چاہیے، ہم یہاں برداشت کے کلچر کو فروغ دینا
چاہتے ہیں۔ البتہ اقلیتوں کو اکثریت کے جذبات، احساسات، مذہبی نظریات اور
متفقہ آئین کی پابندی کرنا ہوگی ورنہ پُرامن بقاے باہمی ناممکن ہوگی۔ لہٰذا
تبدیلی کبھی طاقت، بندوق اور انتہا پسندی سے نہیں آئے گی۔ یہ راستہ اسلام
دشمن بھی ہے اور عوام دشمن و پاکستان دشمن بھی۔ ہمیں یہاں امن کے ساتھ
تبدیلی لانی ہے۔
3۔ اب اِس کے بعد تیسرا اور آخری راستہ بچ جاتا ہے جو ذہنوں میں آتا ہے، وہ
تبدیلی بذریعہ انتخاب ہے۔ اب یہ بات بڑی اہم ہے۔ ہر شخص آج اس انداز سے
سوچتا ہے، یہ ایک سوچ ہے جسے ٹیلی ویژن چینلز پر anchorpersons بھی بہت
discuss کر رہے ہیں، اخبارات و رسائل کے آرٹیکلز میں discuss ہورہا ہے۔
جیسے کہ پہلے بیان کر چکا ہوں الیکشن کے نتائج نے نہ اس ملک کو گرداب سے
نکالا ہے اور نہ اس کو صحیح قیادت عطا کی ہے، نہ اس ملک کو استحکام دیا ہے
اور نہ ہی اس کی معیشت کو مستحکم کیا ہے۔ لہٰذا آئندہ اگر اسی نظام کے تحت
یہ الیکشن ہوتے رہے تو اس طریقے سے سو بار الیکشن بھی ملک میں تبدیلی کی
ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ انتخابات معروف سیاسی و
جمہوری خصوصیات کے حامل ہی نہیں رہے۔ |