بین الاقوامی ادارے اور ماہرین ایک concept
پر متفق ہیں کہ جمہوریت صرف انتخاب کا نام نہیں بلکہ پورے نظام کا نام ہے۔
1۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ الیکشن صحیح معنوں میں شفاف ہو۔ پاکستان میں
ووٹنگ کی credibility ہمیشہ مشکوک رہی ہے سابقہ الیکشن میں کاسٹ کیے گئے
ووٹوں میں سے پونے چار کروڑ ووٹوں کو الیکشن کمیشن نے جعلی declare کر دیا
ہے۔ اس ملک میں الیکشن کی شفافیت کہاں تلاش کی جا سکتی ہے جو کہ جمہوریت کی
پہلی شرط ہے۔
2۔ لوگوں کی participation یعنی شراکت بھی شفاف ہو اور grass root level سے
کر top level تک عوام کی شراکت کے تسلسل سے جمہوریت وجود میں آتی ہے۔ ترقی
پذیر جمہوری ممالک میں اس سے مراد یہ ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں پر عوام کو
مواخذے کا حق ہو اور پالیسی ساز جب بھی پالیسیاں بنائیں تو ان پالیسیوں کو
عوام چیلنج کر سکیں اور اگر ان کے مقاصد پورے نہ ہوں تو مؤاخذہ کر کے انہیں
withdraw کروا سکیں۔ چنانچہ جمہوری ترقی پذیر ممالک میں عوام کی گرفت اور
مؤثریت اتنی سخت ہوتی ہے کہ پارٹیز کو ایکشن لینا پڑ جاتا ہے۔ بسا اوقات
کورٹس کو بھی ایکشن لینا پڑ جاتا ہے؛ تو یہ جمہوریت کی حقیقی تعریف ہے۔
3۔ جمہوری نظام تب کامیاب ہوتا ہے جب اس میں جمہوری حکمرانی ہو۔ اگر یہ نہ
ہو تو وہ نظام جمہوری نہیں۔ جمہوری حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ جان و مال کے
تحفظ سمیت تمام human rights کی گارنٹی قوم کو حاصل ہو اور good governance
قوم کو ملے۔ بین الاقوامی طور پر یہ امر طے شدہ ہے کہ اگر انتخاب کے نتیجے
میں جمہوری حکمرانی وجود میں نہ آئے تو وہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت کا
معنی شراکت (participation) یعنی عوام کی شراکت ہے۔ اس لیے جمہوریت کا
economic democtaric ہونا ضروری ہے، social democracy ہونا ضروری ہے تب ہی
political democracy وجود میں آئے گی۔ ان تمام طبقات کی شراکت کو یقینی
بنانا جمہوریت کے لوازِم میں سے ہے۔
پاکستان کے نظامِ جمہوریت میں عوام کی شراکت کہاں ہے؟ پانچ سال کے اندر ایک
دفعہ ووٹ ڈالنے کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ عوام کی سیاسی نظام میں مکمل
(full fledge) شراکت چاہیے۔ جمہوری حکومت میں قانون کی حکمرانی چاہیے، جبکہ
اس ملک میں قانون صرف غریب کے لیے بنتا ہے۔ اُمرائ، اراکینِ اسمبلی اور
صاحبانِ اِقتدار قانون سے ماوراء ہیں۔ یہ اس لیے کہ طاقت ور حکمران طبقات
کے بالمقابل قانون کمزور ہے۔ ان کے پاس قانون کو by pass کرنے کے ہزار ہتھ
کنڈے ہیں۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ لاکھ بار فیصلہ دے، کمیٹیاں اور کمیشن
بنا دے۔ حکومت سالہا سال انہیں لٹکاتی چلی جائے گی۔ دس دس سال تک فیصلے
pending پڑے رہتے ہیں اس لیے کہ ملک میں قانون کمزور ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی
سبھی باتیں کرتے ہیں مگر ہمارے ملک کی سیاست صرف نعرے دیتی ہے۔
4۔ اگلی شرط شفافیت (transparaency) ہے جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں میڈیا
اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہر ایک کو ایک ایک چیز کی خبر ہوتی ہے کہ کیا
فیصلے ہوئے ہیں، کیا پالیسیز ہیں اور یہاں کیا حد بندیاں ہیں۔ پھر اس حد کو
کوئی کراس نہیں کرتا تا کہ کسی کے مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ نظام بھی شفاف
ہے اور سیاسی نمائندے بھی اسے پراگندہ کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔
اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں کی اَوّلیں کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقائق کسی طرح
بھی عوام تک نہ پہنچیں۔ ظاہر کچھ کرتے ہیں جبکہ پس پردہ حقیقت اس کے بالکل
برعکس ہوتی ہے۔ الیکشن ہوں یا اہم قومی معاملات حقائق ہمیشہ چھپائے جاتے
ہیں۔ یہاں کرکٹ میچ تک fixed ہوتے ہیں۔ قوم کو ان تمام حقائق سے بے خبر
رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی پر مبنی نظام چلتا رہے۔
جبکہ شفاقیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اِحتساب کا ایک مضبوط نظام قائم ہو
اور عدل و انصاف ہر جگہ نظر آئے تاکہ عوام حکومتوں کا احتساب کر سکے۔
5۔ جمہوری نظام کا ایک حصہ آزادیِ رائے بھی ہے۔ مغربی دنیا میں شوہر کو
معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی کس کو ووٹ دینے جا رہی ہے، شوہر کسی اور
پارٹی کو ووٹ دیتا ہے عورت کسی اور کو، والدین کسی کو دے رہے ہیں اور اولاد
کسی کو؛ یعنی اس حد تک اظہارِ رائے میں آزادی اور خودمختاری ہے۔ ایک شخص
دوسرے کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتا، نہ پولیس اثر انداز ہوتی، نہ میڈیا،
نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ طاقت ور لیڈرز اور نہ ان کے نمائندے۔ وہاں بندوق کے
زور پر ووٹ لینے کا کوئی تصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے بغیر
جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ لوگوں کو حقوق ملیں۔ طاقت
اداروں کے ہاتھوں میں ہو۔ عام لوگوں کو بنیادی سہولیات ملیں۔ بجلی، گیس،
ہیلتھ، تعلیم، روزگار، عدل و انصاف وغیرہ سب جمع ہوں تو پھر جمہوری حکومت
بنتی ہے۔ |