ہند -چین رشتوں کی بنتی بگڑی صورت

جنوبی چین سمندر میں ہندوستان سمیت متعدد ممالک کی موجودگی سے ناراض ہوکر چین نے جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ چینی صدر ہو چنتاو نے چین کی بحریہ کو جنگ کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے جس پر امریکہ نے کہا ہے کہ چین کو اپنی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔جنوبی چین سمندر میں ہندوستان ، امریکہ سمیت کئی ممالک کی موجودگی سے خفا ہوکرچین چاہتا ہے کہ اس علاقے میں ہندوستان اور امریکہ کسی طرح کا دخل نہ دیں۔جنوبی چین سمندر کے سلسلے میں امریکہ اور چین کے درمیان کافی کشیدگی ہے۔ اس علاقے میں ویتنام کے ساتھ مل کر تیل تلاش کرنے کے مہم پر بھی چین ہندوستان کو خبردارکر چکا ہے۔معدنی وسائل سے بھرپور اس علاقے پر چین اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرتا رہا ہے جبکہ چین کے پڑوسی ویتنام ،فلپائن‘ تائیوان ، ملیشیا اور بئی اپنے آس پاس کے سمندری علاقے میں اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ فلپائن اور ویتنام اس علاقے میں چین کی ضرورت سے زیادہ مداخلت کی کئی بار مخالفت کر چکے ہیں۔

جنوبی چین میں واقع سمندر میں ویتنام کے ساتھ مل کر ہندوستان کے تیل اور گیس نکالنے کے منصوبہ کی چین نے شدید مخالفت ظاہر کی اور دھمکی دی کہ جنوبی چین سمندر میں بغیر اجازت کی گئی کسی بھی قسم کی تلاش کی سرگرمیوں کو اس کی خودمختاری پر حملہ تصور کیا جائے گادریں اثناءدلائی لامہ کے سلسلے میں چین کی طرف سے پیدا کئے گئے تازہ تنازع سے ہند- چین رشتوں میں تلخی بڑھنے کے خدشہ میں پھرسے اضافہ ہوا ہے۔ دلائی لامہ سے کوئی رابطہ نہ رکھنے کی چینی ضد نہ ماننے پر جہاں چین نے اپنے سرحدی مذاکرات کو ہندوستان بھیجنے سے صاف انکار کر دیابلکہ مغربی بنگال میں ایک چینی سفارت کار نے وزیر اعلٰی اور گورنر کو یہ مشورہ دینے کی جرات کرڈالی کہ وہ دلائی لامہ کے پروگرام میں نہ جائیں۔ چین کے اس رویے کے پیش نظر ہندوستان اور چین کے رشتوں کی سمت پر شدید تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا اس کے نتائج سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے طور پر دکھائی دیں گے؟جبکہ اسے روکنے کیلئے چین کا ایک اعلٰی سطحی دفاعی وفد آج ہندوستان آ رہا ہے لیکن چین کے ساتھ رشتوں کا یہی محض ایک پہلو نہیں ہے۔دراصل ہند- چین رشتوں کی گاڑی تین ٹریکوں پر چل رہی ہے۔ اقتصادی ٹریک پر یہ گاڑی سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ سیاسی ٹریک میں اکثر اس کے پٹری پر سے اترنے کا خدشہ محسوس ہوتارہتا ہے لیکن یہ ٹھہر ٹھہرکر اوررک رک کر آگے بڑھنے لگتی ہے جبکہ فوجی ٹریک پر اس کی حالت ایک ہی پٹری پر آمنے سامنے کھڑی دو گاڑیوں کی طرح ہے۔ کوشش اس بات کی ہے کہ ان ٹریکوں پر دونوں ممالک کی ٹرینیں آپس میں نہ ٹکرائیں۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے دونوں کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ تینوں پٹریوں پر رشتوں کی گاڑی رواں دواں اپنا مثبت سفر جاری رکھے۔

اقتصادی رشتوں کے ٹریک پر دونوں ممالک کے تاجراتنے آگے نکل چکے ہیں کہ دونوں حکومتیں اس ٹریک کو منہدم کرنے سے گھبرائیں گی۔ وہ جانتی ہیں کہ اس کا اثر دونوں ممالک کے باشندوں پرپڑے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت 60 ارب ڈالر کو چھو چکی ہے جبکہ 2015 تک یہ 100 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔تجارت بڑھنے سے ہندوستان میں چینی تاجروں کی سرمایہ کاری بھی کافی ہو چکی ہے۔ جنگ ہونے کا مطلب ہے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے تار ٹوٹنا جس کا اثر ہندوستان سے زیادہ چین کے تاجروں پر زیادہ پڑے گا۔ اس نظریے سے جائزہ لیں توپتہ چلے گا کہ چین ہندوستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو ایک حد تک ہی مشتعل ہونے دے گا۔ اگر تکرار بڑھی تو سرحد پر جھڑپ ہونے کی تشویش بڑھ جائے گی اور بات کسی بھی حد تک آگے بڑھ سکتی ہے۔

چین کو پتہ ہے کہ ہندوستانی فوج 1962 جیسی نہیں ہے۔ اعداد و شمار میں ہندوستانی فوج سے کئی گنا مضبوط چینی فوج نے اگر جھڑپ کرنے کی جرات کی تو اسے ہوائی اور میزائل جنگ میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی‘ پھر بھی لڑائی نہیں تھمی تو ایٹم بم کے استعمال کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ چین جانتا ہے کہ بھلے ہی اس کے پاس تین ہزار سے زیادہ ایٹم بم اور انہیں داغنے کیلئے سینکڑوں میزائل ہوں لیکن ہندوستان کا ایک ایٹمی میزائل بھی چین میں شدیدتباہی مچانے کیلئے کافی ہوگا۔ اس طرح دونوں ملک اگر جنگ کی شعلوں میں جھلسے تو دونوں کی باہمی تباہی یقینی ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ چین ایک بالغ نظر ملک کی طرح ہندوستانی فوج کے ساتھ ضبط و تحمل برتنے کیلئے نئے طریقوں پر بات چیت کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان چار ہزار کلومیٹر طویل حقیقی کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کے فوجی کئی سیکٹروں میں آمنے سامنے کھڑے ہیں لیکن دونوں ممالک کی پختگی کی وجہ سے یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ دنیا کی سب سے طویل ، متنازع لیکن سب سے پرسکون سر حد ہے۔

سرحدی مسئلے پر اختلافات جاری رہنے کی وجہ سے دونوں ممالک افواج کی تعیناتی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ جدید میزائلوں کی بھی تعیناتی ہو رہی ہے۔ یعنی سرحد پر بارود کے ڈھیر بڑے ہوتے جا رہے ہیں جس میں ایک چنگاری لگنے سے پورا علاقہ آگ کی نذر ہو سکتا ہے۔ انہی اندیشوں کو دور کرنے کیلئے چین نے سیاسی بصیرت کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایک اعلٰی فوجی وفد کو یہاں بھیجنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ ہندوستان میں 28 نومبر کو ہونے والے سرحد مذاکرات کیلئے چین کے اسٹیٹ کاؤنسلر تائی پنگ کیو نے ہندوستان کا دورہ منسوخ کر دیا لیکن دلائی لامہ واقعہ کا اثر چین نے یہاں ہونے والی چوتھے دور کے حفاظتی مذاکرات پر نہیں پڑنے دیا ۔

دونوں ملکوں کے درمیان دفاع مذاکرات کا آغاز باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور سیکورٹی مسائل پر باہمی سمجھ بوجھ کوبہتر کرنے کے ارادے سے کیا گیا تھالیکن گزشتہ سال جب چین نے جموں و کشمیر کے باشدوں کو نتھی ویزا دینے کی پالیسی اختیار کی تو ہندوستان نے بھی جوابی قدم کے طور پر چین سے نہ صرف اعلٰی سطحی فوجی تبادلہ فراہمی کا دور ختم کر دیا بلکہ دفاعی مذاکرات بھی روک دئے ۔ اب دونوں ممالک نے بہتر سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی مذاکرات کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے جس سے امیدکی جارہی ہے کہ باہمی اعتماد پھر سے بحال کرنے کیلئے دونوں ممالک 2012 کے دوران اعلٰی سطحی فوجی وفود کو ایک دوسرے کے یہاں بھیجنا شروع کر دیں گے۔

اگلے سال دونوں ملکوں کے زمینی فوج کے درمیان مشترکہ مشقیں بھی دوبارہ شروع ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔ دونوں نے یہ سلسلہ 2007 اور 2008 میں چلایا تھا لیکن چین کی اڑیل پالیسی کی وجہ سے اسے روکنا پڑا۔اب دونوں ممالک دفاعی تعلق پھر سے بحال کریں گے تو یہ امید کی جانی چاہئے کہ باہمی اعتماد کے ماحول میں چین سیاسی اور سرحد ی تنازعات کو بھی دور کرنے کیلئے ٹھنڈے دماغ سے بات چیت کرے گا۔ اس ارادے سے نہ صرف چین کو ہندوستان کی حساسیت کو مد نظر رکھنا ہوگا بلکہ ہندوستان کو بھی دیکھنا ہوگا کہ دلائی لامہ کے وقارکی رعایت رکھتے ہوئے وہ چین کو اکسانے والا کوئی بھی کام نہ کرے۔ بالآخر سرحدی تنازع کافوری طور پر حل ہونا چین کے مقابلے میں ہندوستان کیلئے کہیں زیادہ مفیدہے۔ 4000 کلو میٹر طویل سرحد پر تعینات لاکھوں فوجیوں اور ہتھیاروں کی وجہ سے ہندوستانی فوج کا ہزاروں کروڑ روپے ہر سال خرچ ہو رہے ہیں جو سرحدی تنازع کے جلد حل ہونے کی صورت میں بچ سکتے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126199 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More