پاکستان سیاست دانوں اور مقتدر
شخصیات کے لیئے لوٹ سیل ہے۔ جہاں وہ دونوں ہاتھوں سے اس ملک کے وسائل اور
قومی دولت لوٹ رہے ہیں۔ اس لوٹ مار میں سب شریک ہیں ، پاکستان میں سیاست
دانوں کے اثاثے دن دگنی رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں ۔ ایسے میں کوئی
اگر ان اثاثوں اور اس دولت کے بارے میں سوال کرلے جو اس ملک سے لوٹ کر
بیرون ملک لے جائی جارہی ہے تو اخبارات میں ایک شور مچ جاتا ہے۔ سیاست
دانوں کی کرپشن اور بد عنوانیوں پر پہلا وار ایوب خان نے مارشل لاءکے دور
میں کیا اور ایبڈو کا قانون بنا کر سیاست دانوں کو سیاست سے باہر کیا۔
ضیاءالحق کے دور میں بھی سیاست دانوں کی کرپشن کو اچھالا گیا۔ لیکن اس دور
مین جو کرپشن اور اثاثے بنائے گئے ، اس پر کوئی بات نہ کرسکا۔ آج بہت سے
جرنیلوں کے بیٹے سیاست دان بنے بیٹھے ہیں۔ بہت سے تاجر اور صنعت کار اس
کاروبار سیاست میں آگئے کہ بازار میں یہی کاروبار سب سے اچھا ہے۔
ایک دوروہ تھا جب ہمارے سیاستدان اپنے اثاثے فروخت کرکے عوام کی خدمت اور
سیاست کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس کاروبار کیلئے وقت نہیں ہوتا تھا
اورایک دوریہ آیا ہے جہاں سیاستدان سیاست کی آڑ میں دھڑا دھڑ اثاثے بنانے
میں مصروف ہیں۔سرمایہ داروں نے تجارت کی طرح سیاست کوبھی یرغمال بنالیا ہے
اب کوئی عام آدمی قومی یاصوبائی اسمبلی میں جانے کاتصوربھی نہیں کرسکتا
کیونکہ اب سیاست کوایک منفعت بخش کاروباربنادیا گیا ہے۔ ماضی میں سیاستدان
اپنے ووٹرز کے کام کیلئے خودساتھ چلتے اور اپنے ذاتی وسائل استعمال کیا
کرتے تھے جبکہ اب اگرکسی کاکوئی جائزیاناجائزکام کرناہوتواس سے پہلے معاملہ
طے کیا جاتا ہے۔اندرون ملک سمیت اوورسیز سے پارٹی فنڈکے نام پرکروڑوں اور
اربوں روپے اکٹھے ہوتے ہیں جوپارٹی سربراہان کے نجی اکاﺅنٹ میں چلے جاتے
ہیں اورسیاسی پارٹیوں کی مختلف تقاریب کیلئے ارکان اسمبلی اورعہدیداران سے
الگ چندہ لیا جاتا ہے۔ قومی وصوبائی اسمبلی کیلئے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں
سے درخواست کے ساتھ فی کس ہزاروں اورپارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے
ناقابل واپسی وصول کئے جاتے ہیں۔ ٹکٹ اورپارٹی عہدے کے خواہشمند افرادپارٹی
لیڈرکی خدمت میںقیمتی گاڑیوں، گھڑیوں اورآئی فون سمیت مختلف تحائف پیش کرتے
ہیں مگران کاکوئی ریکارڈنہیں ہوتا۔سیاستدانوں کویہ بات پسندنہیں کہ کوئی ان
سے ان کی آمدنی یااثاثوں کے بارے میں سوال کرے یاان پرانگلی اٹھائے۔
پاکستان کی اربوں کھربوں ڈالر کی دولت بیرونی بنکوں میں پڑی ہے۔ اس وقت
کاحقیقی چیلنج بیرون ملک اثاثوں کی ہمارے ملک میں منتقلی ہے۔ہمارے حکمرانوں
،سیاستدانوں،ججوں ،جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے بیرون ملک بڑے پیمانے پر
کاروبار ہیں اوران کاسرمایہ بھی بیرونی بنکوں میں پڑاہے۔ یہ وہ دولت ہے جو
پاکستان کی قومی معیشت کی رگ رگ سے لہوکاایک ایک قطرہ نچوڑ کر جمع کی گئی
ہے ۔ ان سیاست دانوں اور حکمرانوں کی حکومت اور سیاست پاکستان میں مگرتجارت
پاکستان سے باہر ہے۔ یہ تجارت ان ملکوں میں کرتے ہیںجودوستی کی آڑمیں ہمارے
ساتھ دشمنی نبھاتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اثاثوں اور گوشواروں سے متعلق
تفصیلات کا اعلان کر کے ایک نئی روش کو اپنایا ہے۔ عمران خان نے سال 2011ء
کے دوران محض سوا 3 لاکھ روپے کا ٹیکس جمع کرایا جو پچھلے سال کے مقابلے
میں 15 لاکھ روپے کم ہے جبکہ قابل ٹیکس آمدنی صرف 5 لاکھ 46 ہزار 620 روپے
ظاہر کی گئی ہی، عمران خان نے گھریلو اور ذاتی اخراجات 66 لاکھ 7 ہزار 170
روپے بتائی، اسلام آباد میں 2مکان ظاہر کیے ہیں جس میں سے ایک کی مالیت
ظاہر نہیں کی گئی، غیر ملکی اکاونٹس میں ایک لاکھ 83 ہزار 201 ڈالر، ایک
ہزار 230 پاونڈز اور 92 ہزار 62 یورو شامل ہیں، 50 لاکھ کی پراڈو، 825 کنال
کی زرعی زمین کے بھی مالک ہیں، عمران خان کی طرف سے اپنے بچوں کے نام کوئی
جائیداد اور اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔ انکم ٹیکس گوشوارے میں عمران خان کی
طرف سے بچوں کی تعلیم پر اخراجات کی مد میں کوئی رقم ظاہر نہیں کی گئی اور
نہ ہی کلب ممبر شپ فیس کی مد میں کوئی اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں۔ تاہم
ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں عمران خان کی طرف سے اپنے بچوں کے نام کوئی جائداد اور
اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔ عمران خان کی طرف سے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنے
اثاثہ جات کی مجموعی مالیت 3 کروڑ 94 لاکھ 12 ہزار 312 روپے ظاہر کی
گئی۔پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے تمام اثاثے ظاہر
کرتے ہوئے ملک کے دیگر سیاست دانوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا ۔عمران
خان نے اپنے اثاثہ جات ڈکلیئر کرکے بہت سے سیاست دانوں کو مشکل میں ڈال دیا
ہے۔ عمران خان نے اپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن کے وقت صدرآصف زرداری اور میاں
نوازشریف کوچیلنج کیا تھا ۔صدرزرداری توابھی تک اس بارے میں خاموش ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان
اثاثوں کا شور مچا کر قومی ایشوز سے قوم کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ احسن
اقبال کا کہنا تھا پاکستان کا ایشو اس وقت اثاثے نہیں، پاکستان کو اس وقت
دیگرکئی اہم مسائل کا سامنا ہے۔ اگر عمران خان اثاثوں کے معاملے میں واقعی
سنجیدہ ہیں تو عدالت میں جائیں ہم بھی آئیں گے۔ احسن اقبال کاکہنا تھاکہ
نوازشریف اورشہباز شریف نے2007 کے الیکشن میں اپنے اثاثے ظاہر کردیے تھے۔
عمران خان اس معاملے میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ،قائد حزب اختلاف
چوہدری نثار علی خان نے تو اس بارے میں اسلام آباد میں ایک جوابی پریس
کانفرنس کردی اور عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ
انھوں نے آدھی زندگی ٹیکس ادا نہیں کیا ہے اور ان کی الیکشن کمیشن میں جمع
کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات بھی متنازعہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان
نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں وہ اتنے نہیں ہیں کہ اس سے سیاسی جماعت چلائی جا
سکے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کی جماعت کا مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی
جماعتوں کے اراکین کے اثاثوں کی غیر جانبدارانہ چھان بین کرائی جائیں۔
انھوں نے اس بارے میں ،،نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی کے مصداق
یہ عجیب شرط رکھی کہ “ جو جو جماعتیں ہیں اس وقت جو حقیقی شفافیت سے نظام
کو چلانا چاہتی ہیں سپریم کورٹ سے درخواست کریں کہ وہ ایک خصوصی بینچ یا
ٹربیونل بنائے جو تمام پارٹی لیڈر کے اثاثہ جات کی چھان بین کرے ”۔
دوسری جانب میاں نوازشریف کے بھائی اور وزیراعلٰی پینجاب میاں شہبازشریف نے
اپنے اوراہل خانہ کے اثاثے ڈکلیئرکرکے ایک سوال کھڑاکردیا ہے، اگر وہ اثاثے
کا اعلان کرسکتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کو اس میں
کیا مشکل ہے۔ میاں شہبازشریف نے اپنے اوراپنے بیٹوں حمزہ شہباز اورسلمان
شہبازکے اثاثے بھی ظاہر کئے ہیں ۔ وہ اپنی نئی نسل کو اس میدان میں اتارنے
کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے میں نواز شریف کو اپنی بیٹی مریم کو
سیاست میں لانا پڑا ہے۔ یہ سیاست دان کیا یہاں تو ہر شخص جو دولت رکھتا ہے
۔ احتیاط اورحفاظتی تدابیر کے تحت اپنے بیوی بچوں یاعزیزواقارب کانام
استعمال کر کے اثاثے چھپاتا ہے۔ سیاست دان اتنے سادہ نہیں ہے جو وہ اپناسب
کچھ اپنے نام پر رکھیں گے۔جہاں حکمرانوں اور منتخب عوامی نمائندوں کویہ فن
آتاہوکہ اپنے اثاثوں کوکس طرح چھپانایاکم ظاہرکرناہے وہاں اثاثے ظاہرکرنے
کی پابندی ایک سیاسی شبعدہ بازی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس سے عوام
کوتوبیوقوف بنایاجاسکتا ہے مگرمنجھے ہوئے سیاستدانوں کوہراساں یابلیک میل
نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں سیاستدانوں اورسرمایہ داروں کوٹیکس سمیت مختلف
قانونی پیچیدگیوں سے بچاﺅکیلئے اکاﺅنٹس میں ہیرپھیرکرنے میں مہارت رکھنے
والے افرادکی خدمات دستیاب ہیں ۔ ہمارے سیاست دان تو مقروض اور غریب ہیں جو
انکم ٹیکس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں۔ ان کی تو ایدھی والوں کو زکواة سے
مدد کرنی چاہیے انتخابات میں ہونیوالے بھاری اخراجات تو ان کے دو ست احباب
یامریدوں کی طرف سے پورے کیئے جاتے ہیں۔
بر طانوی اخبار لندن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کی ان سیاسی و غیر
سیاسی شخصیات کی نشاندہی کی تھی جنہوں نے 8کھرب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک
منتقل کر رکھے ہیں اخبار نے ان افراد حوالے سے جن میں آصف زرداری ، نواز
شریف ، اسفند یار ولی ، رحمان ملک ، چند جر نیل ، بیورو کریٹس اور تاجر
شامل ہیں سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نام نہاد اشرافیہ کی اس
مختصر سی اقلیت نے پاکستان کو غیر ملکیوں کے آگے یرغمال بنا رکھا ہے تاکہ
ان کے اثاثوں ، جائیدادوں ، غیر ملکی شہریت اور گرین کارڈز کو تحفظ حاصل
رہے۔ اخبار نے گارڈین میں میں شائع ہونے والی ایک پرانی رپورٹ کے حوالے سے
لکھا ہے کہ پاک فوج کے بعض جر نیلوں کی ذاتی دولت 35ملین پاﺅنڈ کے لگ بھگ
ہے جو پاک کرنسی میں ساڑھے تین ارب سے زائد ہے چند سال پہلے تک زرداری اور
بینظیر بھٹو کے اثاثوں کی مالیت 2ارب ڈالر کے قریب تھی جو اب زرداری کو
منتقل ہو چکے ہیں رپورٹ کے مطابق بینظیر کے 26غیر ملکی بینک اکاﺅنٹس تھے
14جائیدادیں تھیں جن میں سرے محل اور کچھ فارمز اور لگژری اپارٹمنٹ شامل
تھے ان کی مالیت ایک کھرب پاﺅنڈ سے زائد بنتی ہے ۔اسپین میں بھی بینظیر
بھٹو کی دو آف شور کمپنیوں اور ایک ولا کا سراغ لگایا گیا تھا ان میں شارجہ
سے تعلق رکھنے والی دو کمپنیوں پیٹرو لائین اور ٹمپو گلو بل اور چھ بینک
اکاﺅنٹس منجمند کردئیے گئے تھے یہ کارروائی وفاقی احتساب بیورو کی درخواست
پر کی گئی تھی 5لاکھ یورو کی مالیت کا ولا جو بینظیر اور ان کے تین بچوں
بلاول ، بختاور آصفہ کے نام پر تھا اسپین کے صوبے ویلشیا کے ہائیکورٹ کے
حکم پر منجمند کر دیا گیا تھا پیٹرو لائن کمپنی مبینہ طورپر بینظیر بھٹو ،
ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمان ملک اور حسن علی جعفری کی ملکیت
تھی جو 2000ءمیں کثیر سر مائے سے قائم کی گئی تھی لندن پوسٹ کے مطابق نواز
شریف کا جاگیردار طبقے سے کوئی تعلق نہیں ان کا خاندان امرتسر کے قریب قصبے
جاتی عمرہ سے ہجرت کر کے لاہور آیا اور یہاں وہ 1960تک در میانے درجے کی
تین فیکٹریوں آئرن فاﺅنڈری ، برف خانہ اور واٹر پمپ فیکٹری کے مالک بنے جس
میں بلاشبہ پورے خاندان کے محنت شامل تھی مگر جنرل ضیاءالحق کے دور میں ان
کے والد میاں شریف مر حوم نے سابق گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی تک رسائی
حاصل کر لی اسطرح وہ چکن فارم میں داخل ہوگئے اور ان کی چھوٹی چھوٹی
فیکٹریوں نے سونے کے انڈے دینے شروع کر دئیے 1983میں نواز شریف کو پنجاب کا
وزیر خزانہ بھی مقرر کر دیا گیا 1981میں ان کے اتفاق گروپ کی آمدنی 337ملین
روپے تھی جو 1987میں کم از کم 2500ملین تک جاپہنچی صرف 6سال کے عرصے میں
اتفاق نجی شعبے میں پاکستا ن کا امیر ترین انڈسٹر یل گروپ بن گیا ۔ دولت کی
اتنی فراوانی کوئی معجزہ نہیں تھی کہ جسکے تحت یہ اربوں کے اثاثے بنا لئے،
اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان میں سیاست بھی کوئی برا بزنس نہیں ہے اس میں
سرمایہ کاری کرنے والے کی دولت میں اندازوں سے کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے
موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے زرداری کے تحفظ کیلئے میاں نواز شریف اور
ان کے خاندان کی کرپشن کے بارے میں 200 صفحات کی جو رپورٹ تیار کی ہے اس
میں بتایا گیا ہے کہ شریف فیملی نے کاروباری مقاصد کیلئے پاکستانی بینکوں
سے 6کروڑ 60لاکھ ڈالر کے قرض لئے اور انہیں غیر قانونی طور پر فارن
ایکسچینج میں تبدیل کر الیا ، رپورٹ کے مطابق نواز شریف نے لندن میں دو
کمپنیوں نسکول اور نیلسن انٹر پرائزز کے تو سط سے جائیدادیں خریدیں جن کی
ادائیگی لاہور کے ایک فرضی بینک اکاﺅنٹ سے کی گئی۔ انہوں پارک لین کے علاقے
میں ایون ڈیل ہاﺅس میں 4فلیٹ خریدے جن کی مالیت ساڑھے سات کروڑسے زائد
بتائی جاتی ہے اس وقت ان فلیٹوں کی مالیت 4گنا بڑھ گئی ہے ۔
صدر مملکت آصف علی زرداری کے اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے نیب کے دعووں اور
ان اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے جو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین
نے خود 1996-7ء میں ظاہر کئے تھے۔ نیب نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی
ہے اس کے مطابق مسٹر زرداری کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 1.7 ارب ڈالرز (140
ارب روپے) ہے لیکن مسٹر زرداری نے 1996-97ء میں اپنے اثاثوں کی مالیت صرف
ایک لاکھ 51 ہزار 190 امریکی ڈالرز (12.7 ملین روپے) بتائی تھی۔ اسی سال
مسٹر زرداری نے صرف 9 ہزار 191 روپے انکم ٹیکس ادا کیا اور انہوں نے اپنی
آمدنی 4 لاکھ 95 ہزار 44 روپے بتائی تھی۔ ذرائع کے مطابق 1996-97ء میں مسٹر
زرداری اور شہید بینظیر بھٹو کے مشترکہ اثاثوں کی مالیت انہوں نے خود
تقریباً 31 ملین روپے بتائی تھی۔ قصر صدارت کے ترجمان فرحت اللہ بابر اس
موقف کو دہراتے ہیں کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور کھوکھلی معلومات پر
مبنی ہیں۔ ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ میڈیا کو اس بات سے آگاہ کریں گے
کہ آج اور اس وقت صدر زرداری کی دولت اور اثاثوں کی مالیت کیا ہے، تو انہوں
نے کہا کہ اگر قانونی طور پر اس کی ضرورت پیش آئی تو وہ ایسا کریں گے بصورت
دیگر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت کے دو وفاقی وزراء، قمر زمان کائرہ
اور بابر اعوان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر زرداری
کے ان اثاثوں کے حوالے سے نیب کے دعووں کی تردید کی تھی جن کی فہرست عدالت
عظمیٰ میں اسی روز پیش کی گئی تھی۔ دونوں وزراءاور پیپلز پارٹی کے ترجمان
نے بڑی ہی آسانی سے آصف علی زرداری کے 60 ملین ڈالرز (500 ملین روپے) مالیت
کے ان مصدقہ اثاثوں پر تبصرے سے گریز کیا جو 1996ء میں جنیوا میں سٹی بینک
نے منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت منجمد کردیئے تھے جنہیں این آر او کی وجہ
سے بحال کردیا گیا۔ اس اکاؤنٹ کی موجودگی سے کسی نے انکار نہیں کیا لیکن
کسی نے بھی اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ یہ اثاثہ کہاں سے آیا، کس طرح
جمع یا منتقل کرایا گیا اور اس رقم پر کوئی ٹیکس دیا گیا تھا یا نہیں۔ نیب
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری اور شہید بینظیر بھٹو کی جانب سے 1992 سے
1997ء تک جمع کرائے گئے ٹیکس کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کے پاس
معمولی اثاثے اور درمیانی آمدنی تھی۔ آصف علی زرداری کی جانب سے 1992-93 سے
1996-97ء تک ظاہر کی گئی دولت اور ادا کئے گئے انکم ٹیکس کے حوالے سے ذرائع
کا کہنا ہے کہ مسٹر زرداری نے 1992-93، 1993-94، 1994-95، 1995-96 اور
1996-97ء میں اپنی آمدنی ترتیب وار ایک لاکھ 20 ہزار 318 روپے، ایک لاکھ 42
ہزار 947 روپے، تین لاکھ تین ہزار 163 روپے، چار لاکھ 17 ہزار 212 روپے اور
چار لاکھ 95 ہزار 44 روپے بتائی تھی۔ انہی ذرائع کا کہنا تھا کہ شہید
بینظیر بھٹو نے 1996-97ء میں جب 8 ہزار 152 روپے کا انکم ٹیکس جمع کرایا
تھا تو اس وقت انہوں نے اپنی آمدنی 4 لاکھ 39 ہزار 62 روپے ظاہر کی تھی۔
قانون کے مطابق ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کراتے وقت پاکستان اور پاکستان سے
باہر اثاثوں کی مکمل تفصیلات ظاہر کرنا ہوتی ہیں۔ صدر زرداری نے 1993-94ء
میں اپنے اثاثوں کی مجموعی مالیت 3.8 ملین روپے ظاہر کی تھی۔ 1994-95ء میں
انہوں نے بتایا کہ ان کے اثاثے بڑھ کر 12 ملین روپے ہوگئے جبکہ 1995-96ء
اور 1996-97ء میں مجموعی طور پر جو رقم ظاہر کی گئی وہ ترتیب وار 10.8 ملین
اور 12.76 ملین روپے تھی۔ نیب ذرائع نے کہا کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو
کی جانب سے 1993-94ء میں بتایا گیا تھا کہ ان کے پاس 4.5 ملین روپے،
1994-95ء میں 14.2 ملین روپے، 1995-96ء میں 16.5 ملین روپے جبکہ 1996-97ء
میں 18.7 ملین روپے کے اثاثے ہیں۔ملکی قانون کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کیلئے
یہ ضروری ہے کہ وہ ہر سال الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی مالیت بتائیں، جو
عوامی معلومات ہوتی ہے اور میڈیا اس کا جائزہ لے سکتا ہے۔پاکستان میں
اثاثوں کی سیاست کو سیاسی مخالفین کم علمی قرار دے کر مسترد کرتے آئے ہیں۔
یہاں بنکوں اور مالیاتی اداروں سے نہاد اشرافیہ کوقرض جاری کیا جاتا ہے اور
بعد میں معاف کردیاجاتا ہے۔اس وقت پاکستان کا خزانہ تقریباًخا لی ہے جبکہ
ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں اورکاروباری شخصیات کی تجوریاں لبا لب بھری
ہوئی ہیں۔کیونکہ انہیں پاکستان کی قومی معیشت نہیں اپنے نجی کاروبار کی
مضبوطی اورترقی عزیز ہے۔ پنجاب کے وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ تو یہاں
تک کہہ گئے کہ عمران خان نے جعلی اثاثے دکھا کر عوام کو گمراہ کیا ہے۔ اور
یہ کہ ،، یہودی لابی کیلئے کام کرنیوالا نام نہاد لیڈرملکی ایشوزسے عوام
وحکمران کی نظر ہٹانا چاہتا ہے،، ہمارے سیاست دان کہتے ہیں کہ یہ سوال نہیں
کرنا چاہیئے کہ کتنی دولت ہے؟کتنا خرچ کیا ؟کتنا ٹیکس جمع کرایا؟ لیکن عوام
یہ سوال اگر زبان پر نہیں لاتے تو دل میں وہ یہ ضرور سوال کرتے ہیں کہ یہ
سیاست دان اپنے اثاثوں کی ڈکلیئریشن کے ساتھ اس بات کی بھی وضاحت ضرورکریں
کہ انہو ں نے یہ اثاثہ جات کس طرح بنائے اوروہ بیرون ملک کی بجائے پاکستان
میں کاروبارکیوں نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں مقتدرطبقات کو اختیارات سے تجاوزاورا
ن کاناجائزاستعمال کر نے کی بری عادت ہے۔بجٹ بنانے والے اپنی معلومات کونہ
صرف اپنے کاروبارکیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنے عزیز و اقارب کوبھی
مستفیدکرتے ہیں۔حکمران اور سیاستدان اپنے عہدے اور اثرورسوخ کے بل پراپنا
کاروبارخوب چمکاتے ہیں اورکروڑو ں کی جائیدادکوڑیوں کی قیمت پر خرید لی
جاتی ہے۔پھروہاں شاہراﺅں سمیت ترقیاتی منصوبوں کاجال بچھانے کیلئے قومی
وسائل کارخ اپنے محلات اورفارم ہاﺅسز اورانڈسٹریزکی طرف موڑدیاجاتا ہے۔
ایسے حالات میں چند درویش صفت سیاست دان ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کی
ملکیت صرف ایک سو گز کا ایک مکان ، اللہ، رسول اور قرآن سے محبت ہے۔ یہ
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن ہیں جنہوں نے راولپنڈی میں جلسہ عام میں
یہ اعلان کرکے قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ |