آخری معرکہ،چمڑی اور دمڑی بچانے کی کوشش

میمو گیٹ اسکینڈل پاکستانی قوم کے لیے معما بنا ہوا ہے جس نے حکومت اور قومی اداروں، پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ کو باہم ٹکرادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طرف عدالت میں سماعت جاری ہے تو دوسری طرف سے ”اگر مجھ پر آئین کے آرٹیکل 47 کا اطلاق ہوا تو آئندہ کا منشور میں نہ مانوں گا“ ” اگر ہم نے حکومت چھوڑ دی تو کم از کم ہماری زندگی میں الیکشن نہیں ہوں گے“ کے علاوہ” پیک نہیں پیکیج ہوگا، ہم گئے تو سب جائیں گے“ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جبکہ تیسری جانب ”سب مستعفی ہوجاﺅ“ اور عدالت میں جواب دوکی صدا ہے۔

بزرگ سیاستدان پیر پگارا کی یہ بات درست ثابت ہورہی ہے کہ نومبر اور دسمبر حکومت اور سیاست کےلئے ستمگر ثابت ہونگے اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے قوم جس ہیجان میں مبتلا ہے اس سے تو یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ستمگر سے بھی کوئی بڑی چیز ہے۔ ویسے دسمبر ملک کے حوالے سے ماضی میں بھی کافی ستمگر ثابت ہوا ہے۔ 16دسمبر1971ءکو دنیا کاسب سے بڑا اسلامی ملک پاکستان دولخت ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 27 دسمبر 2007ءکا شمار بھی خوفناک دنوں میں ہوتا ہے جب راولپنڈی میں بےنظیر بھٹو کو نشانہ بنایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک بالخصوص سندھ آگ وخون میں نہلادیاگیا ،اس روز ریلوے کو ایسا جھٹکالگا کہ آج تک ریلوے سنبھل نہ سکابلکہ ریل اب عملاً ختم ہوچکی ہے اور اگر غلام احمد بلور مزید کچھ عرصہ ریلوے کے وزیر رہے تو پاکستان میں ریل صرف نمائش میں ہی دیکھنے کو ملے گی۔ قصور صرف بلور کا ہی نہیں وزیراعظم اور دیگر حکمران بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر قصور صرف بلور کا ہی ہوتا تو معاملہ ریلوے تک ہی محدود رہتا،یہاں تو اسٹیل ملز، پی آئی اے،واپڈاسمیت تمام ہی ادارے تباہی وبربادی کامنظرپیش کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ مخصوص افراد مختصر وقت میں بہت کچھ کمانا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب صدر زرداری کے سیاسی حربے بھی ناکامی سے دوچار ہو کر الٹے پڑرہے ہیں۔

صدر زرداری کی6 اور7 دسمبر 2011ءکی درمیانی شب اچانک دبئی روانگی اور اب کی بیماری کو بعض مبصرین ان کی اپنے آپ کو گرفت سے باہر رکھنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدرسے قبل از وقت استعفیٰ بھی لے کررکھا گیاہے اور صدر زرداری بعض ”مقتدر قوتوں “کو نہ صرف اعتماد میں لے کر باہر گئے ہیںبلکہ ذمہ داریاں بھی سونپ دی ہیں۔اگرچہ صدر کی بیماری اب بھی پراسرار ہے لیکن یکم اور6 دسمبر کے درمیان ان سے ملاقات کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی حالت انتہائی قابل رحم اور منظر عام پر آنے والی خبروںسے بھی زیادہ خراب ہے جس کی تصدیق2دسمبرکو ملاقات کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن بھی کر رہے ہیں۔ملنے والوں کا دعوٰی ہے کہ ایسا لگتاہے کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں جس کے حل کی تلاش میں ہیں ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اچانک ان پر بیماری کا حملہ ہوا اور پھر وہ پاکستانی ڈاکٹروں پر اعتماد کرنے کی بجائے دبئی پہنچے۔اگرچہ وزیراعظم گیلانی کا دعویٰ ہے کہ صدر کو زبردستی علاج کےلئے بھیجا گیااور ساتھ ہی وزیراعظم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں صدر کی جان کو خطرہ تھا۔اس دعوے کے بعد کیا عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ جو حکمران اپنے صدر کا تحفظ نہیں کرسکتے ان کو ملک میں حکمرانی کا کیا حق ہے؟ کیا حکومت کی نااہلی کےلئے اتنا ہی کافی نہیں؟

ویسے اب تو صدر صاحب جوابی حملے کر رہے ہیں16دسمبر2011ءکو ایک صحافی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ” اگر آئین کے آرٹیکل 47 کا مجھ پر استعمال ہوا تو پھر پیپلز پارٹی کا آئندہ کا منشور “میں نہیں مانوں گا “ہوگا۔سقوط ڈھاکہ کے روز کے اس بیان کو بعض مبصرین1971ءکے” ادھر تم ادھر ہم“ کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں واضح طور پر بتادیا ہے کہ اگر ہم نے حکومت چھوڑ دی تو کم از کم ہماری زندگی میں انتخاب نہیں ہو گا لیکن ملکی تاریخ میں پونے چار سال کی ریکارڈ مدت پوری کرنے والے وزیراعظم اتنے خوفزدہ ہیں کہ سازشی عناصر کا نام لینے سے گریزاں ہیں،مگر انہیں اب تو جوانمردی کا مظاہرہ کرکے سازشی عناصر کا براہ راست نام لیناچاہئے ۔ تاہم جن حکمرانوں کے مشیر بابر اعوان جیسے ہوں گے ان کےلئے کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں، یہ دوست ہی کافی ہیں!۔

بابر اعوان نے 16 دسمبر کو ہی لاہور میں کہاہے کہ پارلیمنٹ کے گلے میں رسی ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ” پیک نہیں اب پیکیج ہوگا“” ہم گئے تو سب جائیں گے“، اس کا مطلب ہے کہ محبت ملک سے نہ ہی جمہوریت سے ہے پیار صرف ”کرسی “سے ہے، جب حیا جائے تو پھر جو چاہے کرو کے مصداق کرسی کے جانے کے بعد کے انجام بد کے خوف سے سیاسی شہید یا مظلوم بننے کی کوشش کر رہے ہی ہے۔ ادھر مسلم لیگ( ن) کے مخدوم جاوید ہاشمی نے صدر،وزیراعظم اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ نوید بھی سنادی کہ ملکی سیاست اور حالات کےلئے آئندہ 15 سے 20دن انتہائی اہم ہیں۔

میمو اسکینڈل بھی انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے چیف آف آرمی اسٹاف ، آئی ایس آئی کے سربراہ، وفاق اور دیگر نے اپنے جوابات داخل کرادیئے ہیں لیکن صدر زرداری کی جانب سے جواب کی بجائے تند وتیز بیانات اور تلخ وشیریں دھمکیاں سامنے آرہی ہیں۔حکومت کے حملوں کے سامنے اگرچہ بظاہر نواز شریف ہیں لیکن اصل نشانہ کوئی اور ہے جس کا تعلق شاہراہ دستور سے بھی ہے ۔جب ہی تو ”ایسے دستور کو میں نہیں مانتا“ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر صاحب کی ملک سے پراسرار روانگی اور بیماری نے پوری قوم کو پریشان کردیا ہے مگر موصوف انفرادی طور پر مختلف صحافیوں سے فون پر تو بات کرتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر قوم کو مخاطب کرنے کےلئے تیار نہیں وہ شاید جنرل غلام محمد کی تاریخ دوھرانا چاہتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ صرف دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے اور صدرکسی کو بچانے کےلئے کوشاں ہیں۔ حسین حقانی کو بچانے کےلئے تو اب صدر اوباما کے قومی سلامتی کے سابق سینئر مشیر جنرل جیمز ایل جونز بھی میدان میں آگئے ہیں جنہوں نے تین صفحات پر مشتمل بیان حلفی جمع کرایاہے اور کہا ہے کہ میمو اسکینڈل کی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مصور منصور اعجاز نے خود لکھی ہے اس ضمن میں 9مئی2011ءسے قبل بھی ذکر کیا تھا۔ اب امریکی جنرل ہی بتا سکتے ہےں کہ وہ مصور منصور اعجاز کوجھوٹا قرار دے رہے ہیں یا پھر حسین حقانی کو بچا رہے ہیں ۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکاکا اس کہانی کے پیچھے اصل کردار ہے، اگر امریکا ہی اصل کردار ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے کردار پر غور کرنا چاہئے کہ آخر ایسے آستین کے سانپ کیوں پالتے ہیںجن کی بے وفائی مسلمہ ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر آج تک امریکا نے پاکستان دشمنی ہی کی وہ کبھی ہمارا دوست نہیں رہا،دراصل امریکا نام ہی بے وفائی اور آستین کے سانپ کا ہے اور یہی وجہ ہے آج دنیا میں اس کی بے وفائی کے قصے زبان زد عام ہیں۔

ویسے تو صدر زرداری کی زبان کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ” کہیں کہیں وہ لڑکھڑا رہی ہے“ اس کو ڈپریشن، لقوہ اور فالج جیسے موذی امراض کا ابتدائی حملہ بھی قراردیا جا رہا ہے۔ آخری دنوں میں قریب سے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ حملہ کسی کا بھی ہو مگر تھا خوفناک!۔ آخری دنوں میں ایوان صدر میں داڑھی کو ہاتھ لگانے، گھٹنے پکڑنے اور دربانوں کو جھاڑنے کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کی تردید نہ ہونا ہی تصدیق ہے۔

صدر زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے بیماری کے دوران بھی حسین حقانی سے یاری نبھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کیا کریں ان وردی والوں کا کہ حقانی کو صدر کا ہمراہی بننے نہ دیا جس کی وجہ سے روانگی میں 40منٹ کی تاخیر بھی ہوئی اور صدر صاحب بے بسی کی علامت بن کر یہ سارا منظر دیکھتے رہے،البتہ اس وقت ان کا غصہ انتہائی خوفناک تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ” اب برسے“ کہ ” کب برسے “جس کا شاید اب احساس بھی ہورہا ہے اس لئے اب اسلام آباد کے ایوان صدر کی بجائے دبئی میں صدارتی کیمپ آفس کے قیام کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ کسی ملک کے مختلف شہروں میں صدارتی کیمپ آفس کا تو سنا تھا لیکن کسی دوسرے ملک میں صدارتی کیمپ آفس شاید دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہوگا ۔ مگر کہا جا رہا ہے کہ” قوم کے وفادار اور وفا شعار “ایسا کرنے نہیں دیں گے۔اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہاتھ لکھا ہوا کچھ موجود بھی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 47 کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اگر ہاتھ کا لکھا ہو اکام نہ آیا تو صرف پارلیمنٹ ہی صدر کو باہر کرسکتی ہے لیکن موجودہ پارلیمنٹ کی پوزیشن دیکھی جائے تو صدر آصف علی زرداری کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے اور انہیں دو تہائی سے زاید کی اکثریت حاصل ہے تاہم پاکستان میں حالات اور عوامی نمائندوں کی وفاداریاں بدلنے میں کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اگر تین ”P“ چار ”P“ میں اور چار ”P“ پانچ ”P“ میں تبدیل ہوسکتے ہیں تو پھر کوئی چھ ”P“ والا بھی سامنے آجا ئیگااور صدر صاحب شایددیکھتے ہی رہ جائیں ،ویسے بھی پونے چار سال میں قوم کو بےنظیر بھٹو کی شہادت اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیوں کی داستانوں کے علاوہ ملا بھی کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ شاید اب سندھ کارڈ بھی نہ چلے اسی لئے کہا جاتا ہے بس آخری معرکہ میں چمڑی اور دمڑی بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.