پرنسز آف لاہور

اکیسویں صدی بادشاہوں اور شہنشاہوں کی ہے اور نہ ہی شہزادوں اور شہزادیوں کی لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے مابین بعض ایسی قدریں مشترک ہوتی ہیں کہ جنہیں دیکھتے ہوئے بادشاہت یا د آ جاتی ہے مثلاً یہ کہ ان ممالک میں غربت ،افلاس اور تنگدستی کے ڈیرے ہوتے ہیں ،ان ممالک کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے ،صنعتی ترقی برائے نام ہوتی ہے ،انفراسٹرکچر ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ،ریاستی پالیسیوں کو تسلسل حاصل نہیں ہوتا جمہوری حکومتیں اگر بنتی بھی ہیں تو توڑ دی جاتی ہیں سیاست پر فوج کا کنٹرول ہوتا ہے ،الغرض بے شمار قدریں مشترک ہونے کے ساتھ ان میں ایک بات یہ بھی مشترک ہوتی ہے کہ ان ممالک پر چند ایک حکمران ہی مسلط ہوتے ہیں خواہ وہ جمہوری حکومتیں ہوں یاپھر غیر جمہوری حکومتیں ،ڈاکخانے سب کے مل ہی جاتے ہیں اور یہی کچھ بادشاہت اور شہنشاہت میں ہوتا ہے ،بادشاہ اگر مر جاتا ہے تو ایک اور بادشاہ زندہ ہو جاتا ہے ، یہ ضرب المثل برطانیہ کی آئینی بادشاہت کے حولے سے مشہور ہے جہاں بیک وقت جمہوریت اور بادشاہت کا” حسین امتزاج“ قائم ہے۔

پاکستان کا شمار بھی انہی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں اور کئی ایک روایات کی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ اقتدار پرہمیشہ مخصوص ٹولہ ہی قابض رہا ہے ۔پاکستان کے سابق وزیر خزانہ محبوب احمد نے جنرل ایوب کے دور کے متعلق کہا تھا کہ ملک پر 22 خاندانوں کی حکومت ہے اور یہ تعداد اب بڑھ کر 5 ہزار ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی تقدید ہے جو بدلتی نظر نہیں آ رہی۔

یوں تو بھارت میں بھی گاندھی خاندان نے کانگریس پارٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور 2012 کے یو پی کے انتخابات میں بی اے کے طالب علم راہول گاندھی بھی میدان میں اترنے والے ہیں ،پاکستان میں بھی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے خاندانوں نے اپنی اپنی پارٹی کو موروثی بنا رکھا ہے جس کے باعث ان جماعتوں میں نہ تو سفید پوش طبقہ کو آگے آنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی نوجوان خون کو پارٹی کی رگوں میں دوڑنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ اس میں خواہ پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی ،قاف لیگ ہو یا پھر جنرل مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سب کو ایک ہی شخص براہ راست کنٹرول کر رہا ہے ۔ لیکن جب سے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے تب سے ان جماعتوں نے اپنے یوتھ ونگ کومتحرک کرنا شروع کر دیا ہے ۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں عوامی نمائندگی کیلئے بی اے کی شرط رکھی گئی تھی جس کے باعث نامی گرامی سیاست دان انتخاب نہ لڑ سکے وہیں بعض امتحانی مراکز میں سیاست دان امتحان دیتے ہوئے نظر آئے تو بعض موقع پرستوں نے جعلی ڈگریوں کا طوق اپنے گلے میں سجا لیا ، ان حالات میں پاکستانی سیاسی قبائل نے اپنی نوجوان نسل کو آگے آنے کا موقع دیا جس سے وہ اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچ گئے لیکن انکی طنابیں کوئی اور ہلانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ 18 فروری 2008 کے انتخابات میں بھی ہمیں کئی نئے چہرے دیکھنے کو ملے جبکہ قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ میں بھی مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی بیویاں ، بیٹیاں اور بہوؤں نے نشستیں سنبھالیں جس سے نوجوان سیاست دانوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو ہوا۔

گزشتہ کچھ عرصے سے طاقت ور سیاسی گھرانوں کی نوجوان کھیپ خار دار سیاست میں آنے لگی ہے ،حمزہ شہباز ،مونس الہی اوربلاول بھٹو زرداری تو قدرے پرانے ہو گئے ہیں ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے موسیٰ گیلانی اور عبدلقادر گیلانی کے بعد اپنی بیٹی فضہ گیلانی کو بھی میدان سیاست میں اتارد یا ہے ، ان حالات میں مسلم لیگ ن کہاں پیچھے رہنے والی تھی پارٹی کے صدر نواز شریف نے بالآخر اپنی دختر مریم نواز کو سیاست کرنےکی اجازت دیدی ۔یوں تو نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز عرصے تک سیاست میں متحرک رہیں لیکن طویل علالت کے سبب انہوں نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ایسے حالات میں جب پاکستان پی ٹی آئی کی جانب سے لاہور کے روایتی ووٹ بینک کو متاثر کرنے کا ایک معقول خطرہ موجود ہے وہاں نواز شریف کا اپنی بیٹی کو سیاست میں لانے کا یہ فیصلہ کہاں تک سود مند ہو گا اسکا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہوجائے گا۔ بہرحال پنڈی سے منتخب ہونے والے ایم این اے کیپٹن(ر) صفدر کی اہلیہ مریم نواز جو شوہر کے ساتھ مانسہرہ میں رہائش پذیر ہیں نے حیران کن طور پر لاہور میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں ۔

مر یم نواز گزشتہ چند ہفتوں سے لاہور کے ہوم اکنامکس کالج،کیوئن میری کالج،فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور ایوان اقبال کی تقریبات میں شرکت کرکے نوجوان نسل کو ہدف بنایا ہے لیکن پرنسز آف لاہور مسلم لیگ ن کے ووٹرز کوکس حد تک پارٹی سے وفادار رکھ سکے گی یہ نوآموز سیاست دان کے لئے یقیناً ایک بڑا امتحان ہو گا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ بنا ہوا ہے اور اس کا اثر توڑنے کےلئے جہاں سلمان تاثیر نے لاہور کے گورنر ہاؤس کو مورچہ بنایا تھا وہیں عمران خان نے بھی لاہوریوں کو کچھ اس انداز میں جھنجھوڑا کہ مستقبل کے عام انتخابات میں اپ سیٹ کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔لاہور شریف برادران کی جاگیر نہیں اور نہ ہی حمزہ شہباز اور مریم نواز اس کے وارث ہیں،ملک بھر کے باسیوں کی طرح لاہور کے شہری بھی خوبصورت بیانات اور خوبرو چہروں کی دوغلی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں انہیں اب حقیقت میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اور ان کے مسائل حل کرنے والے مخلص نمائندوں کی ضرورت ہے وگرنہ آج یہاں ملک کے شاہی خاندانوں کے سیاست دانوں کے بچے آ سکتے ہیں تو کل عمران خان کے بیٹے اور الطاف حسین کی بیٹی بھی میرٹ سے ہٹ کر پارٹی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 43740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.