جمہوری حکومت اور عسکری قیادت میں چپقلش؟

میمو گیٹ سکینڈل کے بعد سے حکومت اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کی صورت پیدا ہو جانا یقینی بات تھی مگر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے دس دسمبر کو ایک نجی ٹی وی چینل کی تیسری سالگرہ کے موقع پر دیے جانے والے بیان سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اندرون خانہ فوج اور آئی ایس آئی جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں ۔

چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی جنرل آئی آیس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کے میمو گیٹ سکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمعرات مورخہ 17 دسمبر 2011 کو جمع کرائے گئے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات کے بعد بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بیانات میں صدر پاکستان اور وزیر اعظم کا نام نہ لے کر یہی ظاہر کیا ہے کہ جمہوریت اور جرنیل ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں ۔

مگر صدر زرداری کے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے اور بلاول بھٹو زرداری کے پاکستان آ کر پارٹی کے انتظامی امور کو سنبھالنے سے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ ظاہری طور پرفوج اور وفاقی حکومت کے درمیان بھلے سب کچھ ٹھیک ہو مگر اندرون خانہ محاذ آرائی جاری ہے۔

یاد رہے یکم دسمبر کو سپریم کورٹ میں نواز شریف کی طرف میمو گیٹ سکینڈل سے متعلق فائل کی گئی پٹیشن کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ میں فوجی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ان کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فریق نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان پر کوئی الزام تراشی کی جائے گی تاکہ ملک میں پیدا ہونے والی ابتر صورت حال کو جلد از جلد درست کیا جاسکے ۔تاہم اس سارے معاملے کاباریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جنرل شجاع پاشا نے سیاسی قیادت سے اجازت لیے بغیر لندن کا دورہ کیا اور وہاں امریکی کاروباری شخصیت اور میمو گیٹ سکینڈل کے اہم فریق منصور اعجاز سے ملاقات کی تاکہ امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف ثبوت حاصل کیے جائیں اور انھیں اس عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور کیا جائے۔

یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ فوجی قیادت کی جانب سے صدر زرداری کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے میمو گیٹ سکینڈل کھڑا کیا گیا تھا مگر وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کے میدان عمل میں کود پڑنے اور اس سارے معاملے کی الزام درست ثابت ہونے پر ذمہ داری قبول کرنے کے اعلان کے بعد فوجی قیادت کومیمو گیٹ کے معاملے کو حل کرنے اور اس بنتی بگڑتی صورت حال پر قابو پانے کے لیے عسکری قیادت اور آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کو حسین حقانی کوقربانی کا بکرا بنانا پڑا ۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اس معاملے میں کودنے سے دونوں جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اس لیے بھی پیچھے ہٹنا پڑا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی مدت ملازمت میں تین تین سال کی توسیع کر کے فوجی قیادت کی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے حاصل کر لی تھیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسامہ اپریشن کے بعد فوجی قیادت کی پشت پناہی کی تھی اور جب ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجا ع پاشا سیاستدانوں کے سوالات سے زچ ہو گئے تھے تو یہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہی تھے جنہوں نے عسکری قیادت پر اعتماد کا اظہار کر کے فوجی قیادت کو اپنا ہمدرد بنا لیا اور بیرونی دنیا ، خصوصا امریکہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ پاکستان میں عسکری اور جمہوری قیادت متحد ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ16 دسمبر۱۱۰۲ بروزجمعہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی کے مابین ہونے والی ملاقات نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوئی بلکہ جنرل کیانی کی جانب سے صدر زرداری کو ٹیلی فون پر یقین دہانی کروائی گئی کہ فوج، عدلیہ اور جمہوریت کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔اس یقین دہانی کے بعد آخر کار19 دسمبر ۱۱۰۲ کو صدر زرداری پاکستان واپس آہی گئے ۔ صدر کی واپسی سے جہاں ان کے ملک چھوڑ دینے اور میمو گیٹ سکینڈل سے فرار جیسے الزامات لگانے والوں کے منہ بند ہو گئے وہیں ان کی جانب سے دیے گئے بیانات ،”پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے“اور”جمہوریت مخالف قوتیں سازشیں کر رہی ہیں“، کی بھی تصدیق ہوتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ غیر جمہوری عناصر موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دیتے ہیں یا اس سے پہلے ہی سابق صدرپرویز مشرف کو حکومتی حلقوں میں پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا عمران خان کا حکومت میں آنے کا دیرینہ خواب سچ ثابت ہوتا ہے ۔

یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار اور وزیر اعلٰی شہباز شریف نے جی ایچ کیو میں عسکری قیادت سے بارہا ملاقاتوںمیں عسکری قیادت کو یہ یقین دلانے کی بارہا کوشش کی کہ مسلم لیگ (ن) عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے مگر تا حال پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جی ایچ کیو کے درمیان جاری کشیدگی برقرار ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کی طرف سے فوج پر کی جانے والی تنقید کابھی بہت عمل دخل ہے۔

حالات جس ڈگر پر بھی چلیں، آنے والی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بنائی جائے یا فوج کی پشت پناہی میں ہو، سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر آئے یا فوجی وردی میں ملبوس کوئی طالع آزما قصر حکومت میں جلوہ افروز ہو عوام کے مسائل کا حل نہ عسکری قیادت کے پاس ہے اور نہ ہی موجودہ سیاسی قیادت اس بات کی اہل ہے کے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کر سکے ۔
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 33868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.