خاموش اور خاموشی....؟ عمران خان ایک سچ نہیں تو سو جھوٹ کیوں..؟

حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ” جِسے سلامتی کی ضرورت ہو اِسے خاموشی اختیارکرنا چاہئے یعنی یہ کہ خاموشی ہزار بلائیں ٹال دیتی ہے بلکہ وقار اور سلامتی کی بھی ضامن ہے حضرت بایزید سطامیؒ کا قول ہے کہ ” خوش خلقی اور خاموشی ہلکی ہیں پیٹھ پر اور بھاری ہیں میزان پراوراِسی طرح ارسطو نے بھی خاموشی سے متعلق ویسے تو بہت کچھ کہاہوگامگر اِس موقع پر اِس کاخاموشی کے بارے میں کہاگیاایک قول ہمیں یا دآگیاہے وہ کہتاہے کہ ”خاموشی سب سے زیادہ آسان کام اور سب سے زیادہ نفع بخش عادت بھی ہے ۔مگرافسوس ہے کہ خاص کر ہم اور ہمارے حکمران، سیاستدان اوربہت سے لوگ اِسے بھول چکے ہیں۔

جبکہ زمانے کی کئی بہاریں اور اُونچ نیچ دیکھنے والیں ہماری اماں جی ہمیں اکثر تین باتیں بطور نصیحت کہا کرتیں تھیں ایک یہ کہ جب بولوتو سوچ سمجھ کر بولو ...جس طرح ایک جھوٹ سو جھوٹ سے بچاتاہے اِسی طرح کسی وقت کی خاموشی بڑی مصیبت سے بھی بچالیتی ہے اور اِن کی دوسری بات یہ تھی کہ دنیاکے دانش مند اِسی چیز سے گوہرے نایاب اور دولت حاصل کرلیتے ہیں جِسے نادان بے پروائی اور اپنی نااہلی کی وجہ سے نظرانداز کرجایاکرتے ہیں ایسے ہی جیسے شہد کی مکھی ہمیشہ اُنہی پھولوں سے شہدحاصل کرلیتی ہے جن سے مکڑی زہر ....اور اِن کی تیسری اور آخری نصیحت اِن کی اپنی اولاد کے لئے یہ تھی کہ زندگی میں ہمیشہ اُس نادان سے بچو جو اپنے آپ کو دانا سمجھتاہے ۔یہ اوربات ہے کہ ہماری عقلِ سلیم میں اما ں جی کی کہی ہوئیں یہ ساری باتیں اَب آئیں ہیں جب ہم اپنی عمر کے ساڑھے چار عشرے ختم کرنے کے قریب تر ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ اماں جی کی یہ ساری باتیں شاید ہم نے پہلے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی مگر اَب ہم وقت اور حالات کے تھپیڑے کھاکر یہ سب کچھ سمجھ چکے ہیں تو اَب ہمیں کبھی خود پر اورکبھی اپنی عقل پر حیرانگی کے سِوااور کچھ نہیں ہوتاہے بہرحال...!اِس بات کو یہیں ختم کئے دیتے ہیں اور آتے ہیں اپنے اُس مقصد کی جانب جِسے ہم نے آج کا اپنا موضوع بنایا وہ ہے خاموش اور خاموشی جس کے لغوی معنی چُپ اور سُکوت کے ہیں ۔مگر اِس موقع پر ہم یہ ضرور کہناچاہیں گے کہ یہ لفظ خاموش اور خاموشی معنی کے اعتبار سے اپنے اندر جو گہرائی رکھتاہے وہ یہ ہے کہ اِسے ہم اور آپ ”چُپ اور سکوت “کے معنوں میں روزمرہ بولنے ، لکھنے اور سمجھنے کے لئے کثرت سے استعمال تو کرتے ہیں ۔مگر ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اِس لفظ کی اہمیت اور نزاکت کا احاطہ کئے بغیراِسے اپنے معاملات میں (جن میں بولنا، لکھنا،سمجھنااور سمجھاناشامل ہیں)استعمال کرکے کہیں کہیں اِس لفظ کی بے قدری بھی کرجاتے ہیں ۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں جس کسی نے بھی اِس لفظ کی اہمیت کا اندازہ کرلیاوہ اپنے کسی نہ کسی ذاتی معاملے پر تو مصلحتاََ خاموش رہ سکتاہے مگر اپنے اردگرد رونماہونے والے ایسے ملکی اور عالمی حالات وواقعات پر اِس کا خاموش رہنا بہت مشکل ہوجاتاہے یکدم ایسے ہی جیسے اِن دنوں ہمارے ملک کے حکمرانوں، سیاستدان اور دیگر حکومتی اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات اور افراد کی جانب سے عوام الناس کے لئے کئے گئے ناقص اقدامات اور اِن کی فرسودہ منصوبہ بندیوں کی باعث مسائل کی چکی میں پستے عوام کی بے بسی، بے حسی،اور بھوک وافلاس کے ہاتھوں پریشان حال غریب اور مجبور افراد کی لاچارگی دیکھ کر کوئی خاموش رہ جائے تو ایسا اِنسان بیشک کوئی فرشتہ ہی ہوگاجو اتنا کچھ دیکھ کر بھی آج کے اِس پُرآشوپ دور میں خاموش ر ہ جائے ورنہ تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ذی شعور پاکستانی خاموش رہ پائے۔اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن دنوں ملک کے طول ُارض میں ایک ایسا انسان نمودار ہواہے جس نے ملک میں انقلاب کا نعرہ بلند کرکے اپنی ڈری، سہمی اور خوفزدہ قوم کی اُس طویل ترین خاموشی کو چکناچورکر کے رکھ دیاہے جو یہ قوم ایک عرصے سے اپنے پرائے سب کے ظلم وستم سہہ کر بھی چُپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی اِس نوجوان نے قوم میں اِنقلاب کی ایک ایسی روح پھونک دی ہے آج جس کی صرف ایک پھونک سے ساری قوم بیدارہوکرملک میں انقلاب کے لئے اِس کے پیچھے پیچھے چل پڑی ہے اور وہ نوجوان جس کی ذات کھیل کے میدان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کبھی کسی آمر کی سی لگاکرتی تھی مگر جب سے اِس نوجوا ن نے قومی سیاست میں اپنا قدم رکھنے کا سوچا تب ہی سے اِس کی سوچ اور فکرمیں ایک ایسی مثبت تبدیلی نے جنم لے لیا ہے جس کے ایک اشارے پر قوم کا بچہ بچہ چل پڑاہے اِس نوجوان نے اپنے آپ کو ایک ایسی جماعت کا سربراہ بنالیا جِسے لوگ عمران خان انقلابی اور اِس کی پارٹی کو تحریک انصاف پاکستان کے نام سے آج جانتے اور پہچانتے ہیں اِس نوجوان نے ملک میں تبدیلی لانے کا جو ایک مثبت اور تعمیری راستہ اختیار کیا ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اِس نے اپنے ساتھ نئی بوتلوں میں پرانی شراب نہ بھری تو ممکن ہے کہ یہ اپنی سوچ اور فکر سے ملک کے ساڑھے اٹھارہ یا اُنیس کروڑ عوام کی امنگوں کے عین مطابق اِنقلاب برپاکرکے ملک میں کوئی اچھی تبدیلی لے آئے ورنہ تو یہ نوجوان عمران خان جو تحریک انصاف پاکستان کو سربراہ ہے جس کے اِنقلاب کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ہم اِس کو عمران خان اِنقلابی کہتے ہیںاِس کا ملک میں اِنقلاب لانے کا خواب ،خواب ہی رہ جائے گااور اِس جوان کو ہم یہ کہناچاہیں گے کہ عمرا ن خان (عرف اِنقلابی) بھائی براہ کرام اگر آپ ملک میں واقعی اِنقلاب کی صُورت میں کسی مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں توپھر بھائی اپنے ساتھ اُن مایوس سیاسی عناصر کو قطعاََ شامل مت کریں جن کو عوام پہلے ہی رد کرکے ٹھکراچکے ہیں اگر آپ ایسانہیں کرسکتے ہیں اِن مایوس اور ناکام سیاست دانوں کو اپنی جماعت میں شامل ہونے سے نہیں روک سکتے ہیںتو پھرعمران بھائی میری بات مانیں آپ ملک میں کسی اِنقلا ب کی بات مت کریں اور خاموشی اختیار کرلیں کیوں کہ خاموشی ہزار بلائیں ٹالتی ہے اِس سے پہلے کہ آپ اپنے ساتھ پٹے ہوئے اور پھٹے پرانے سیاستدانوں کو شامل کرکے اپنی بنی بنائی موجودہ ساکھ کو برباد کردیں بہتر ہے کہ آپ ایک سچ بول کر سوجھوٹ سے بچ جائیں کہ اَب میں اِن لوگوں کو اپنے ساتھ رکھ کر ملک میں اِنقلاب نہیں لاسکتا اور میں اِن نادان سیاستدانوں کواپنی پارٹی میں شامل کرکے کچھ نہیں کرسکتا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عمران خان اِنقلابی اِن ہارے ہوئے سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے ملک اور قوم کے لئے کچھ اچھاکریں گے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ اِن سیاستدانوں کا کیا کردارہے(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.