ان دنوں جنوبی افریقہ کے
بندرگاہی شہر ڈربن میں اقوام متحدہ کی 17ویں ماحولیاتی کانفرنس جاری ہے جس
کا آج آخری دن ہے۔دو سال پہلے کوپن ہیگن میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی
کانفرنس کا ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ چرچا سننے میں آیا تھا تاہم وقت
کیساتھ ساتھ ماحول کا موضوع کافی حد تک پس منظر میں چلا گیا ہے۔وجہ صاف ہے
‘ ذرائع پر یقین کریں تو ماحولیات کا شعبہ بھی کسی نئے کاروبار کی شکل لینے
جا رہا ہے؟1997میں جاپان کے شہر کیوٹو میں منظور کی جانے والی یہ دستاویز
آج کے دن تک بین الاقوامی سطح پر واحد ایسا باقاعدہ معاہدہ ہے جو مختلف
ممالک کو ماحول کیلئے ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بچت کے
ٹھوس اہداف کا پابند کرتا ہے۔ تاہم یہ اہداف صرف صنعتی ملکوں کیلئے اور محض
2008اور 2012کی درمیانی مدت کیلئے ہیں۔ اس وقفے کے گذر جانے کے بعد کوئی
ہدف مقرر نہیں کیا گیا۔اقوام متحدہ ڈربن آب و ہواکے تحفظ پر مبنی اجلاس میں
کاروباری اور صنعتی اداروں کااجتماع ہے۔ جارج بش کی مایوس کن پالیسی کو ترک
کرکے اس وقت کے نئے امریکی صدر باراک اوباما جب کوپن ہیگن کانفرنس میں
پہنچے تھے تو ان کے ساتھ وہاں بہت سے تجارتی ادارے بھی نظر آئے ۔ ایسے
اداروں کی تعداد سو کے قریب رہی ہوگی جبکہ ڈربن میں ان کی تعداد دو سو سے
متجاوز کرگئی ہے۔
رضاکارانہ کارکن رچرڈ پولارس نے ڈربن کانفرنس میں موجود تجارتی اور صنعتی
تنصیبات کی ایک فہرست تیار کی۔ اس فہرست میں ہندوستانی تنصیبات کی نمائندے
تنظیم سی آئی آئی یعنی کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کے علاوہ دنیا کی بے
شمار نامور کمپنیوں کے نام درج ہیں۔ ان کے ساتھ ٹاٹا جیسے نامی گرامی
گھرانوں کے تنبویا اسٹال بھی ڈربن میں لگے ہوئے ہیں یعنی دنیا کو اپنے
صنعتوں کے دھوئیں سے سیاہ کرنے کے بعد وہی ادارے اب دھواں قابو کرنے کے
طریقہ پر ایک نئی کاروباری دوڑ میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ اب ماحولیاتی
آلودگی کنٹرول کرنے کاکام لے کرپیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن مذہبی انداز سے
نہیں۔ آلودگی‘ آزاد انٹرپرائزز قائم کرکے اب وہ اس میں بھی پیسہ کمانا
چاہتے ہیں۔ انہیں غریب یا ترقی پذیر ممالک کیلئے قائم ہو رہے ’سبز فنڈ‘ سے
بھی پیسہ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موقع ملنے پر
وہ اپنے اداروں میں ایسی ٹیکنالوجی کی تلاش اور تنصیب کر لیں گے جو بڑی
مقدار میں آلودگی کو کنٹرول کرے گی۔
محض ہندوستان کی تجارتی دنیا میں اس کمائی کے ذریعہ ابھی کافی معلومات میسر
نہیں ہیں۔ بارہ سو سی ڈی ایم منصوبے پہلے سے جاری ہیں۔ ان میں ساڑھے تین
سومنصوبوں کو سی ڈی ایم یعنی غیر ملکی پیسہ مل رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان
میں بہت سے خالص کاروباری ادارے ہیں۔ ان میں ٹاٹا ، ادانی ، موندھڑا جیسے
گھرانے بھی شامل ہیں۔ ایک منصوبہ کیلئے ٹاٹا کی سی ڈی ایم درخواست دو مرتبہ
مسترد ہو گئی تھی۔ سنتے ہیں اس بار پھر درخواست کر دی گئی ہے۔ ادانی گروپ ،
جسے پہلے ہی سی ڈی ایم مل چکا ہے ، دعویٰ کر رہا ہے کہ کوئلے سے بجلی اس
طریقہ سے بنائے گا کہ بھاپ کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائڈ کی آلودگی کم کر لی
جائے گی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر راکھ کا کیا ہوگا؟ یعنی وہ کس
طرح آلودگی کے بغیر ہوگی؟ ماہرین کوئلے کو بھی کم کاربن والا ٹھہرانے کے
دعوے کو ڈھکوسلا مانتے ہیں۔ گرین پیس کے سدھارتھی پاٹھک کا کہنا ہے کہ
ہندوستان کو کوئلے پر اپنے انحصار کو فروغ نہیں دینا چاہئے۔
سومیا دتہ نے یہاں بتایا کہ بڑے ڈیم بنانے والے تک اب سی ڈی ایم کے طلب گا
ر بن گئے ہیں۔ ہمارا رامپور باندھ سی ڈی ایم کے مضبوط دعویداروں میںشامل
ہے۔ منصوبہ والے کہتے ہیں کہ وہ ’اسپاؤج آئرن‘کے نئے طریقے سے باندھ بنائیں
گے جس سے معقول مقدار میں آلودگی کم ہوگی‘ یعنی اس کی سی ڈی ایم ادائیگی
انہیں ملنی چاہئے۔ دتہ کے مطابق اگر ایک دریا کو برباد جانے والے ڈیم کو ہی
سی ڈی ایم ملنے لگے گا تو کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے کیلئے ہزاروں
ہیکٹر جنگلات کاٹنے والے کی درخواست پر کیوں متعجب نہ ہوا جائے!
گرین پیس کے ہی کومی نائیڈو کا کہنا ہے کہ آلودگی پھیلانے والی کمپنیاں
ماحولیاتی پالیسیوں کے صلاح و مشورہ کو بھی اپنی طاقت کے بل پر حکومتوں کے
ذریعہ متاثر کر رہی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک غیر جمہوری کارروائی ہے۔
اس طرح صنعتکاروںنے تجارت کی ایک نئی ڈگر سنبھال لی ہے۔ انہوں نے اپنی اپنی
غیر سرکاری تنظیم یعنی این جی او قائم کر لی ہیں۔ ان کے اجتماعی اسٹال کے
باہر لکھا ہے : بنگو BNGOیعنی بزنس این جی او!عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو
ان کی مالک تنظیم اپنی طاقت کے بل پر حکومتوں کو اپنے حق میں متاثر کرنے کی
لابنگ کرتی ہیں تاکہ ماحولیات کی حفاظت کی نئی پالیسیوں میں ان کے دھندے پر
نئے ٹیکس وغیرہ کی آنچ نہ پہنچے تو دوسری جاب وہی ادارے اپنے ان نئے این جی
او یعنی ’بنگو‘تنظیموں کے ذریعہ ماحولیاتی تبدیلی ، خوراک کے تحفظ ، پانی ،
بجلی وغیرہ اہم علاقوں میں پالیسیوں کو متاثر کرنے کا جتن بھی کر رہے ہیں۔
شہریوں کی تنظیم یااین جی او اس چال کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے
کہ تاجر اپنے آلودگی کنٹرول کے حاصل کو پھر کاربن ٹریڈنگ کے نام پر آگے
فروخت کر دیں گے اور اس رقم سے نئے انٹرپرائزز کی پرورش کریں گے جن کے
ماحولیات موافق ہونے کا کوئی بھروسہ نہ ہوگا۔ ظاہر ہے ، ان کا مقصد بالآخر
پیسہ کمانا ہی ہے ، اس لئے انہیں اور ان کے ’بنگوز‘ کو آلودگی کنٹرول کی اس
مقشق سے الگ رکھنا چاہئے یعنی سامنے کے پالے میں۔ اس پر پیشہ ورانہ جماعت
کی تنظیم بنگو دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ بھی توآخر شہری سماج کاہی حصہ ہیں ،
اسلئے شہری جماعت کے این جی اوبنگو کو الگ کیسے رکھ سکتے ہیں۔
بہرکیف تجارتی صنعتی اداروں کی یہ ددہری چال اصلی غیر سرکاری تنظیموں کی
جگہ اور اہمیت کیلئے تنگی ہی پیدا کر رہی ہے۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ انہیں
دور پرے کھدیڑنے کا کام بھی کر رہی ہے کیونکہ وسائل کے ذریعے ان کا مقابلہ
اصلی این جی او تو کر نہیں سکتے۔ جبکہ یہ تلخ سچائی ہے کہ ڈربن کانفرنس کے
این جی او پنڈال میں اصلی غیر سرکاری تنظیموں اور ان کے کارکنوں کی تعداد
پچھلی کانفرنسوں کے مقابلے میں کم ہوتی نظر آتی ہے جبکہ ’بنگو‘ کے’ فوجیوں‘
کی موجودگی ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ٹی وی کیمروں کے سامنے
بھی بنگو ہی اپنے ’خیالات‘ کا اظہارکرتے ہوئے زیادہ دکھائی دیتے ہیں ،
میڈیا اور کارپوریٹ دنیا کی آپسی ’سمجھ‘ یا انڈر اسٹینڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔
اب ڈربن میں اپنے اپنے ’بنگو‘ نمائدوں کے ذریعے موجود عالمی کمپنیوں کی
نمونہ دیکھئے ؛ ایربس ، برطانوی ائیرویز ، یونائیٹڈ ایرلائنس ، بی ایم ڈبلو
، فوکس ویگن ، ٹہچی پاور ، ٹاٹا پاور ، مسوبشی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، توشیب
کارپوریشن ، ٹرانس کینیڈا کارپوریشن ، جاپان برج فیڈریشن ، کنفیڈریشن آف
انڈین انڈسٹریز ، انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس ، سجلون انرجی لمیٹڈ ،
انٹرنیشنل کونسل فار مائنس اینڈ میٹل ، انٹرنیشنل پٹرولیم انڈسٹریز ،
اینوائرمینٹ کنزرویشن ایسوسی ایشن ، ورلڈ کول ایسوسی ایشن ، میونخ کلامینٹ
انشورنس انی شی ایٹو‘ وغیرہ وغیرہ!مزے کی بات یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں
آلودگی کیلئے جانی جانے والی کمپنیاں شیل ، ایکسون ، ایسکوم ، ایف پی ،
برٹش پٹرولیم ، سن پاور کارپوریشن ، امریکن الیکٹرک پاور ، الیکٹری سٹی
فرانس ، بھی ڈربن ماحولیاتی کانفرنس میںحصہ داری کا مزہ لوٹ رہی ہیں!اس کے
دو ہی امکانات ہو سکتے ہیں : ایک تو یہ کہ اچانک زمین کی آب وہوا کے تئیں
ان سب کا پیار امڈ آیا ہے اور ذمہ داری کا احساس بیدار ہوگیا ہے یاپھر یہ
کہ انہیں آلودگی کنٹرول کی عالمی کوشش میں کمائی کے نئے امکانات روشن
نظرآنے لگے ہیں۔ دوسرا امکان ایک خدشہ کی شکل میں زیادہ قوی نظر آتا ہے کہ
جب وزراءکی آمد ڈربن میں شروع ہو گئی تو گویا ایک سو سے زیادہ غیر سرکاری
تنظیموں نے کانفرنس کے صدر کے نام اپیل جاری کرکے کہا ہے کہ تمام کوئلہ پر
مبنی منصوبوں کو سی ڈی ایم سے الگ کر دیا جانا چاہئے۔ اس اپیل میں شامل
تنظیموں میں کچھ ہندوستان کی بھی ہیں ، مثلا سمتا ، ماتوپبلک آرگنائزیش ،
سینٹر فار اینوائرمینٹ اینڈ ڈیولپمنٹ ، کانٹیکسٹ انڈیا ، ماحولیات دوست ،
پیروی ، عوامی سائنس ، واٹر انشیٹو اوڈیشا۔ |