امریکہ اور عالم اسلام

تاریخ شاہد ہے کہ کوئی فرد واحد ہو یا کوئی قوم،جب تک وہ خود احتسابی عمل سے نہ گزرے،اپنے کوتاہیوں پر نظر ثانی نہ کرے،اپنے ماضی کے غلط فیصلوں سے سبق حاصل نہ کرے تب تک وہ دنیا کے تغیرپزیر حالات، اور اندرونی بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنا تو درکنا بلکہ ان کا سِرا تک پکڑنے میں بھی کامیابی مشکل نظر آتی ہے۔اور جو دنیا میں اپنا نام، مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے سٹیٹ کے وفادار اور مخلص ہوا کرتے ہیں۔جو ممالک اپنی عوام، اور ملک کے وفادار ہوتے ہیں وہی ترقی کے منازل بڑی تیزی سے طے کرتے ہیں اور جو اپنی قوم اور سٹیٹ کے وفادار نہیں ہوتے ہیں وہ تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔یعنی جو حکمران، جو حکومتیں اپنی ذاتی مفادات پر ملکی سلامتی کو مقدم رکھتے ہیں تو دنیا بھی ان کی بات مانتی ہے خواہ ان کی بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو مانی جاتی ہے، کیونکہ اس طرح کے سٹیٹ پالیسی ہی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ہر کوئی انہیں اپنی ضرورت سمجھتا ہے اور اسی نظریہ ضرورت کے تحت دوسرے ممالک ان کا ساتھ دینے پر مجبور بھی ہوتے ہیں۔قارئین کرام چونکہ امریکہ سے ہی بات شروع کرنا چاہیں گے جو اس وقت پوری دنیا کا سپر پاور بھی ہے،اچھائی برائی اپنی جگہ مگر ایک پاور تو ہے۔گزشتہ کالموں میں(امریکن تھنک ٹینک اور زمینی حقائق۔ امریکہ،پاکستان،عوام اور دہشت گردی)میں امریکی دیر پا پالیسیوں کے حوالے سے تفصیل سے ذکر کرنے کی کوشش کی تھی ہے۔اب چیدہ چیدہ معاملات پر غور کریں گے۔چند ماہ قبل میں نے اپنے کالم میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ امریکہ مسلمانوں کے باہمی متنازعہ معاملات کو چھیڑ کر اپنے مکرو ہ عزائم کو تقویت دینے کی پالیسی پر تیزی سے عمل کر رہا ہے، اور دوسری یہ اہم بات بھی انکشاف کیا تھا کہ ممکن ہے امریکہ ایران کے حوالے سے کوئی ایسا حربہ اپنائے گا جسے دیگر مسلم ممالک ایران سے متنفر ہوجائیں گے اور امریکہ ایران کو اپنے ہی مسلمانوں بھائیوں سے الگ رکھ کر وار کرنے کی حکمت عملی اپنائے گا، منہ میں خاک مگر ابھی واقعی وہی حربہ امریکہ استعمال کر رہا ہے جس کے بارے میں مجھے پہلے سے ہی خدشہ تھا۔ آجائیں ذرا ایران کے خلاف اوباما کا بیان پر نظر دالتے ہیں۔v.o.aاردو کی ویب سائٹ پر یہ بیان آپ پڑھ سکتے ہیں۔امریکہ کے صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں تعینات سعودی عرب کے سفیر کی قتل کی ایرانی سازشیں طشت از بام ہونے کے بعد امریکہ ایران کے خلاف تمام آپشنز پر غور کر رہا ہے۔صدر اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ تہران حکومت طویل عرصے سے بین الاقوامی برتاﺅ کے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ یہ بات یقینی بنائے گا کہ ایران”اپنے اس طرز عمل کا خمیازہ بُھگتے گا“امریکی صدر کاکہنا ہے کہ امریکہ تہران کو تنہا کرنے کے لیے اس کے خلاف ممکنہ سخت پابندیاں بھی عائد کرے گا۔امریکہ نے اس بات کو بھی بھانپ لیا ہے کہ ایران ہی اس کی بربادی کا باعث بن سکتا ہے باقیوں کو تو آزما چکا ہے۔امریکہ کی اجارہ داری کی اصل وجہ ہی ایمانداری اور خلوص، محنت سے تخلیقی اور منفعت بخش امور پر دسترس حاصل کرنا ہے۔ دنیا بھر کے ایجادات امریکہ کرتا ہے۔ دنیا کو اور مسلمان ممالک کو خاص طور پر پاکستان کو خیرات، امداد دے کر ملک کو کسی حد تک اپنا بغل بچہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔بحیثیت حکمران، بحیثیت قوم بھی ہمارا کریکٹر اب پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔دہشتگردوں کی نرسری ہماری پہچان رہی ہے، جبکہ ماضی میں یہاں تک کہا گیا کہ پاکستانی اپنی بہو بیٹیوں کو بھی اتنے ڈالر میں فروخت کرتے ہیں ،کہہ کر ہماری رہی سہی غیرت کی کثر کو بھی کھرچ ڈالا ہے مگر ہم اپنے چہرے پر کونسا چمڑا چھپکائے بیٹھے ہیں کہ ہمیں کسی بات کا اثر تک نہیں ہوتا ہے۔اس وقت عالم اسلام میں دو ہی طاقتیں ،دو ہی شاخیں نظر آتی ہیں ایک شیعہ مکتب فکر والے دوسرے سنی مکتب فکر والے، اور ان کا خدا ایک، رسولﷺ ایک، کعبہ ایک، قیامت پر یقین ایک،تمام انبیاءکرام پر ان سب کا عقیدہ ایک اور ختم نبوت پر سب متفق۔مگر افسوس کی بات ہے اس کے باوجود بھی یہ مسلمان ایک دوسرے کو قتل کرنا جائز گردانتے ہیں، حالانکہ دانشوروں کی تحقیق کے مطابق اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین فقط3فیصد اختلافات ہیں اور97فیصد یہ لوگ ایک ہی ہیں۔اور ستانوے فیصد کو پس پشت پر ڈال کر ہم تین فیصد کو لے کر چل رہے ہیں یہ ہماری بد بختی نہیں تو اور کیا ہے۔جبکہ امریکہ میں کرسچنوں کے درمیان دو نہیں بلکہ درجنوں فرقے موجود ہیں مگر جب بات اجتماعی مفادات پر آجاتی ہے تو یہ سب یک جان دو قالب ہوتے ہیں اور اپنی معاشی،سیاسی،عسکری حکمت عملی کو مشترکہ طور پر مربوط و مظبوط بنانے میں کوئی کثر باقی نہیں رہنے دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دنیا میں موجود مسلمانوں کا موازنہ کرایا جائے تو ہم تو خود ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں اور ہمارے اندر ہی کچھ غیر محسوس طریقے سے کچھ دانستہ بھی ان استعماری طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ جیسا کہ عالم عسائیت تو نظر آتی ہے، عالم بدھ مت تو نظر آتی ہے، عالم یہودیت بھی نظر آتی ہے، یہاں تک کہ دہریت بھی نظر آتی ہے۔اب سوال یہ ہے یہ جو جس انداز سے نظر آتے ہیں ان کا وجود جس انداز سے ہم محسوس کرتے ہیں کیا اسی طرح کہیں اسلام کا کوئی مشترکہ ماڈل بھی موجود ہے جو دنیا کو یہ بتاسکے کہ ہم اسلام کے بنیادی صولوں پر عمل کرتے ہوئے مشترکہ مسلم امہ کے مفادات کے لیے ایک ہیں۔ جو امت مسلمہ کے خلاف بر سر پیکار طاغوتی طاقتوں کو موجودگی کا یقین دلا سکیں۔ یہ ایک تلخ سوال ہے مگر سوال سوال ہوتا ہے ہمیں بہت باریک بینی سے اس جانب سوچنا ہوگا۔یہاں امریکہ سمیت دیگر غیر اسلامی مذاہب اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں مگر ہم نے بھی نام رکھا ہے” عالم اسلام“ کہاں ہے ہمارا مرکز؟ اگر کعبہ ہے ہمارا مرکز تو پھر یہ باہمی نحوست کیوں ختم نہیں ہو پارہی ہے۔جبکہ آلِ سعود امریکہ کی گود سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔جبکہ کچھ مسلم ممالک چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مختلف احداف میں مصروف عمل ہیں مگر عالمی سطح پر متحد ہوکر مسلمانوں کا کوئی لائحہ عمل دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اتحاد بین المسلمین پر ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر ہم کس طرح عالم اسلام کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔اس پیچیدہ معاملے کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر مسلمانوں کی باہمی طاقت کو یکجا کرنے کے لیے بین الاسلامی کانفرنس، اور سیمناروں کا انعقاد وقت کی عین ضرورت ہے۔ہماری خاموشی اور مفتیان اسلامی کی منتشر پالیسی کی وجہ سے امریکہ ہر جگہ پر اپنی من مانی کر رہا ہے۔اگر کچھ ملاحضرات تسبیح میں ”یا قہارو“ پڑھ کر امریکہ کی طرف پھونکتے ہیں تو اسے کچھ ہونے والا نہیں ،انسان کو اپنے رب کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بخوبی سے بروئے کار لانا چاہئے جہاں تک حضرت انسان کی پہنچ ہے وہاں تک جدوجہد کرنے کے بعد پھر اُس سے آگے کا معاملہ اپنے رب پر چھوڑنا چاہئے۔جبکہ اس کے برعکس ہم مسلمان وہ کوششیں نہیں کر پاتے ہیں جو ہمیں کرنا چاہئے بس محض دعا پر ہی انحصار کرتے ہیں۔مانا کہ دعا میں بڑی طاقت ہے انبیائے کرام نے بھی دعاﺅں کا سہارا لیا مگر اپنی جدوجہد اور پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہوئے۔لیکن ہم ہیں نہ انبیاءکرامؑ کی نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں،نہ نبی آخر الزمانﷺ کی پیروی میں بس ہم سب نے اپنا اپنا ایک ذہن بنا رکھا ہے اورآنکھیں بند کرکے چل پڑے ہم خود اسلامی اصولوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور پھر گلا گزاری اور واویلا مچا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا وہ ظلم ہوا۔اگرغور کریں تو ہم اپنے آپ پر خود ہی ظلم کر رہے ہیں۔اگر امریکہ کسی مسلم ملک پر کسی طرح کا بھی ظلم ڈھاتا ہے تو ہم بحیثیت مسلمان بھی ان کا ساتھ نہیں دیتے ہیں جبکہ امریکہ نے برے وقتوں کے لیے پہلے سے ہی اتحادی بنا رکھا ہے اور جس کسی پر بھی حملہ آور ہونا چاہئے تو اپنے اتحادی سمیت وہ یلغار کرتا ہے۔اب مسلمانان عالم کو مل بیٹھ کر دوررس نتائج پر مبنی فیصلے کرنے ہونگئے،مگر یہ اُس وقت ممکن ہوگا جب مسلمان پہلے آپس میں ایک ہوجائیں، متحد رہیں، اور دنیا کو بھی یہ باور ہو کہ یہ مسلمان واقعی میں ایک شجر کے شاخیں ہیں تب ہم طاغوتی طاقتوں کے پنجے سے پنجہ لڑا بھی سکتے ہیں اور ترقی کے منازل طے بھی کرسکتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے ہم معاشی طور پر بھی بے فکر ہیں جب کہ امریکہ نے اپنا تیل سٹاک کر رکھا ہے اور مسلمان ممالک سے نکلا ہوا تیل استعمال کررہا ہے اور امریکہ کی بینکوں میں امیر مسلمانوں کے ٹریلین کے حساب سے رقوم جمع ہیں اور امریکی معیشت بھی مسلمانوں کی وجہ سے ہی مظبوط ہے۔اس کے علاوہ تمام مصنوعات ہم امریکہ سے درآمد کرتے ہیں یہاں تک کی کھانے پینے کی اشیاءکے لیے بھی ہم امریکہ کا محتاج ہیں۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق 57 مسلم ممالک میں سے 50کی خارجہ پالیسی امریکہ بہادر بناتا ہے ۔ہم مسلمانوں کی عالمی سطح پر کونسی ایسی پالیسی مرتب کی گئی ہے جسے ہم خود کو محفوظ سمجھیں ،نہ معاشی طور پر،نہ سائنسی حوالے سے، اور نہ مشترکہ عسکری حوالے سے نہ آپس میں مظبوط روابط کے حوالے سے؟۔بات در اصل یہ ہے کہ ہم نے آج تک طاغوت کی بری عادتوں کو اپنا رکھا ہے یہ ہماری بڑی کمزور صفت ہے۔اگر ہمارے اندر شعور ہو تو ہم انکی اچھی حکمت عملی اور تیکنیکی معاملات پر نظر رکھتے ہوئے ان سے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ہمیں اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگا کہ بین الاقوامی حالات کا رخ صلیبی جنگ کی طرف نظر آرہا ہے اس لئے بین الاسلامی یکجہتی اور حکمت عملی ازحد ضروری ہے۔ بصورت دیگر امریکہ مختلف معاملات میں مسلمانوں کو الجھا کر انہیں مزید منتشر کرنے میں کامیاب ہوگا اور اس کی یہ کامیابی ہماری تباہی و بربادی کا باعث بنے گی۔اس لیے ہمیں انبیائے کرام و اولیائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بقائے اسلام کے لیے جدوجہد کرنا ہوگا اسی مشترکہ جدوجہد میں ہی ہماری بقاءہے اور اپنی بقاءکی جنگ خواہ وہ معاشی ہو، سیاسی ہو، عسکری ہو، سیاسی ہو،مثبت حکمت عملی کو اپناتے ہوئے نہ صرف زندہ رہنا ہے بلکہ دیگر مظلوم اقوام کی بھی مدد کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔بس ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ورنہ ابدی بے حوشی کے قوی امکانات بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 25984 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More