ہندوستان کے دارالحکومت کو منتقل کرتے ہیں

 12دسمبر1911کوشاہ جارج پنجم کا اعلان

1911 میں سجے دہلی دربار کی تصویر جس میں دہلی کو ہندوستان کا دارالحکومت بنانے کا اعلان ہوا‘آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔فضاؤں میں گونجنے والے جملے گویا آج بھی گردش کررہے ہیں۔’ہمیں ہندوستان کے عوام کو یہ بتاتے ہوئے نہایت فخرہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے وزرا کے مشورہ پر ملک کو بہتر طریقے سے انتظام کرنے کیلئے برطانوی حکومت ہندوستان کے دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرتی ہے۔‘12 دسمبر 1911 کی صبح 80 ہزار سے بھی زیادہ لوگوں کی بھیڑ کے سامنے برطانیہ کے کنگ جارج پنچم نے جب یہ اعلان کیا تو لوگ اچانک یہ سمجھ بھی نہیں پائے کہ چند لمحوں میں وہ ہندوستان کی تاریخ سے وابستہ ایک نئے باب کی شہادت بن چکے ہیں۔حالانکہ اس واقعہ کو آج سو سال گزر چکے ہیں اور 2011 کی تاریخ کی اسی کروٹ پر ایک نظر ڈالنے کا موقع ہے‘ جب انگریزوں نے ایک ایسے تاریخی شہر کو ہندوستان کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا جس کے بسنے اور اجڑنے کی سنہری اور سیاہ داستان تاریخ سے بھی پرانی ہے۔یہ موقع ہے ایک ایسے دارالحکومت کوسمجھنے کا جو آج دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی جمہوری طاقت کے طور پر قائم ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ تین ہزار سال پرانا شہر ’دہلی‘ جسے خود انگریزوں نے ہندوستان کاقدیم دارالحکومت کہا۔ اسے 1911 کے بعد ’اصل دارالحکومت‘ تسلیم کرکے100 سال کے اس سفر کا جشن کیا منطقی کہا جاسکتا ہے؟یہی وہ سوال ہے جس کاجواب جاننے کیلئے ان سطور کا مطالعہ ضروری ہوجاتا ہے۔ دہلی شہر کی نسبت سے متعدد داستانیں زبان زدعام ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے دہلی کا لفظ فارسی کے دہلیز سے ماخوذ ہے کیونکہ دہلی گنگا کے ترائی علاقوں کے لئے ایک’دہلیز‘ کی حیثیت رکھتی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دلی کا نام تومر راجہ ڈھلو کے نام پر دہلی پڑا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایک بددعا کوغلط ثابت کرنے کیلئے راجہ ڈھلو نے اس شہر کی بنیاد میں گڑھی ہوئی ایک کیل کو کھدوانے کی کوشش کی۔ اس واقعہ کے بعد ان کے راج پاٹ کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن مشہور ہوئی ایک کہاوت ’ کلی تو ڈھلی بھئی ، تومر ہوئے متی دین ‘ جس سے دلی کو اس کا نام ملا۔ ہندوستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسرا شہر اتنی مرتبہ بسا اور اجڑا ہو جتنی دفعہ دہلی شہر آباد اور پھر برباد ہوا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ 1450 قبل مسیح کے دوران’اندرپتھ یااندرپرستھ کے طور پر پہلی بار بسایاگیا تھا۔ اس بنیاد پر دہلی تین سے ساڑھے تین ہزار سال پرانا شہر ہے جبکہ پرستھ وہ جگہ تھی جہاں پرانے قلعہ کے کھنڈر دیکھے جاتے ہیں۔ نیلی چھتری اور سورج مندر کے کنارے بنے نگم بودھ گھاٹ کی شکل میں ادرپرستھ کی تین نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔1000 عیسوی سے انگریزوں کے دور حکومت تک دہلی غوری ، غزنوی ، تغلق ،خلجی اور متعدد مغل حکمرانوں کاپایہ تخت رہا۔اس دوران ہر حکمران نے اپنی بادشاہت ثابت کرنے کیلئے دہلی میں الگ الگ کناروں اور مقامات سے شہر کو بسایا جبکہ برکت محض شاہجہاں آباد کو نصیب ہوئی۔وقت گذرنے کے ساتھ یہ علاقہ دہلی کے سات شہروں کے نام سے مشہور ہوا اور آٹھواں شہر بنا نئی دہلی لیکن اس ترتیب میں یہ شہر کئی مرتبہ گل گلزار ہوا تو برسوں گمنامی کے نرغے میں بھی ر ہا۔ حالانکہ لال کوٹ ، مہرولی ، سری ، تغلق آباد ، فیروزآباد ، دین پناہ اور شاہجہان آباد نام کے یہ 7 شہر آج کھنڈر بن چکے ہیں لیکن اپنی نشانیوں کی زبانی دہلی کے بسنے اور اجڑنے کی داستان بیان کرتے ہیں۔دہلی بھلے ہی ہمارے دل و دماغ پر دارالحکومت کے طور پر چھائی ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مغلو ںکے دور میں بھی جو رتبہ آگرہ اور لاہور کا رہا وہ دہلی کو کم ہی نصیب ہوا۔یہ سلسلہ آخر کار 1911 میں ختم ہوا جب انگریزوں کے زیر انتظام ہندوستان کے دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا اعلان ہوا۔ اسی کے ساتھ شروع ہوئی ’شاہجہان آباد‘یعنی پرانی دلی کو ’نئی دہلی‘کا طور دینے کی مساعی۔پرانی دلی کیلئے کیا کچھ بدلنے والا تھا اس کی آہٹ دہلی دربار کی تیاریوں پر ایک نظر ڈالنے سے ملتی ہے۔ 1911 میںمنعقد دہلی دربار کا یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کی مخالفت شروع ہو چکی تھی جبکہ کلکتہ ان سرگرمیوں کا گڑھ بن رہا تھا۔ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکرخودمختاری کے مطالبہ کی شروعات کے دوران کنگ جارج پنچم نے ہندوستان کے عوام سے براہ راست رشتہ قائم کرنے کی نظر سے دہلی دربار سجایا لیکن ایک تیر سے دو نشانے لگاتے ہوئے اس موقع پر دہلی کو ہندوستان کے دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ آخری وقت تک صیغہ رازمیں رکھا گیاتھا‘کیونکہ انگریزی حکومت نہیں چاہتی تھی اس تقریب میں کوئی بھی چوک رنگ میں بھنگ ڈال دے۔یہ اہتمام جس شان و شوکت اور درست منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا اس کا آج بھی کوئی ثانی نہیں ملتا۔انعقاد اتنا شاندار تھا کہ اس کیلئے شہر سے دور براڑی علاقے کو منتخب کیا گیاجہاں آج اجمیر زائرین کیلئے سالانہ کیمپ لگایا جاتا ہے۔ مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے نوابوں اور ان کے اردلیوں اورراجہ رجواڑے ، ان کی رانیاں سمیت پورے ہندوستان سے’مہمانان خصوصی‘ مدعو تھے۔ان لوگوں کی رہائش کیلئے ہزاروں کی تعداد میں لگائے گئے عارضی کیمپوں کے علاوہ دودھ کی ڈیریوں ، سبزیوں اور گوشت کی دکانوں کے طور پر چند دنوں کیلئے شہر سے دور گویا ایک مکمل شہر قائم کردیا گیا۔جارج پنچم اور کوئن مریم کی سواری چاندنی چوک میں عام لوگوں کے درمیان سے گذری تاکہ عوام نہ صرف اپنے بادشاہ کو ایک جھلک دیکھ سکیں بلکہ انگریزی سلطنت کی شان و شوکت سے بھی مرعوب ہوجائیں۔ جس راستے سے کنگ جارج اور کوئن مریم کا قافلہ گزرا وہ آج بھی کنگز وے کیمپ King's Way Campکے طور پر معروف ہے۔دربار کے پہلے اور بعد میں شرارتی عناصر کو دور رکھنے کیلئے اعلٰی پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں‘عمومی تعطیل کا اعلان ہوا اور ہر طرف پولیس کی ناکہ بندی نے عوام کو خواص کے استقبال کیلئے پہلے ہی خبردار کر دیا۔ دربار کے اگلے روز دہلی دارالحکومت بنی۔کسی جشن کی طرح روشنی سے دہلی جگمگا اٹھی۔ اس موقع پر انگریز انتظامیہ نے عام لوگوں سے بھی اپنے گھروں کو روشن کرنے کی درخواست کی۔ اس کیلئے شہر میں اضافی بجلی کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔1911 کے اس تاریخی اعلان کے بعد انگریزوں نے نئی دہلی کی بنیاد رکھی اور اس شہر کو ملک کے دارالحکومت کا جامہ پہنانے کی جو کوششیں شروع کیں وہ آج تک جاری ہیں۔عظیم الشان عمارتیں ، چوڑی سڑکیں ، دفتر ، کوارٹر ، یونیورسٹی ہر طرف انگریز اپنی چھاپ چھوڑنا چاہتے تھے اور اس کی جیتی جاگتی نشانیاں بنیں ’وائسرائے ہاوس‘اور’نیشنل وار میموریل‘ جیسی عمارتیں جنہیں ہم آج’صدارتی محل‘ اور’انڈیا گیٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ہندی کے غلبہ کی بدلت موجودہ دور میں’صدارتی محل‘ راشٹر پتی بھون‘ کہا جانے لگا ہے۔ دلی کی اس تبدیلی پر مورخ نارائنی گپتا کہتی ہیں کہ انگریزوں نے جب دہلی کے بارے میں سوچا تھاتو انہیں محسوس ہوا ہوگا کہ یہ بے حد خوبصورت شہر ہے اور اس کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اسے دارالحکومت بنانے کے ذریعے وہ بھی اس تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ کسی نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ دہلی میں جو حکومت کرتا ہے بہت دن تک اس کی ریاست ٹکتی نہیںہے لیکن انگریز مصمم اراردہ کر چکے تھے جبکہ دہلی متعدد بزرگان دین کی دعوت کا مرکز رہی ہے بلکہ آج بھی بستی حضرت نظام الدین کی بنگلے والی مسجد سے ہدایت کی محنت جاری ہے۔ دہلی کے براڑی علاقے میں موجودکرونیشن پارک میں بیہڑ کے درمیان کنگ جارج پنچم سمیت کئی انگریز افسروں کے مجسمے آج بھی موجود ہیںلیکن وائسرائے ہاؤس اور تاریخ کا رشتہ شاید پرانا ہے۔ 1931 کو اسی وائسرائے ہاؤس میں تاریخی گاندھی - ارون معاہدے پر دستخط ہوئے اور 1947 میں آزاد ہوئے ہندوستان نے پہلی نظر میں دہلی کو اپنا دارالسلطنت بنا لیا۔اس وقت سے آج تک یہ شہر اپنے حکمرانوں کی آرزو اور ان کی سیاسی منشا پر کھرا اترنے کی جستجو میں آگے بڑھتا رہا ہے۔ بھلے ہی اس کوشش میں اکثر یہاں رہنے والوں کی ضروریات کو نظر انداز کردیا گیاہو۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دلی کیا وہی دلی ہے جس کا خواب کبھی شاہجہاں نے دیکھا تھا ، وہ دہلی جسے انگریزوں نے بڑی حسرت سے اپنے رنگ میں رنگا ، وہ دہلی جو آزاد ہندوستان کی جمہوریت اور قومیت کی علامت بن گئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ دارالحکومت ہونے کے ناطے دہلی پر ’قومیت‘ کا بوجھ کہیں اتنا تو نہیںڈالا گیا کہ اس کی اپنی شناخت ، اس کی ثقافت اس کے بوجھ تلے کہیں دب کر رہ گئی ہو؟ سوال یہ بھی ہے کہ راجیو چوک ، لاجپت نگر شاہراہوں کے درمیان دہلی میں 'امیر خسرو روڈ' یا غالب کی گلی کیلئے کوئی جگہ کیوں نہیں ہے؟ جبکہ آج بھی یہ مصرع زبان زد عام ہے کہ کون جائے ذوق یہ دلی کی گلیاں چھوڑ کے!
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126151 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More