یکم دسمبر کو دہلی پولیس نے
اطلاع دی کہ نومبر کے آخری ہفتہ میں ملک کے مختلف حصوں سے پراسرار دہشت
گردگروہ ’انڈین مجاہدین‘ کے چھ” مشتبہ “کارکنان کو گرفتارکرلیا گیا ہے جس
سے دہشت گردی کے تین واقعات کا معمہ حل ہوجانے کی امیدہے۔ ایک ساتویں
گرفتاری کا اعلان 6دسمبر کو کیا گیا۔ اگرچہ پولیس نے احتیاط سے کام لیتے
ہوئے گرفتار شدگان کو ”مشتبہ“ ہی قرار دیا ہے اورسابق کی طرح قطعیت کے ساتھ
کوئی دعوانہیں کیا ہے مگر اس خبر کو خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نےٍ اس طرح پیش
کیا جیسے یہ گرفتاریاں شک کے بنیاد پر نہیں ہوئیں بلکہ کوئی ایسا پختہ ثبوت
مل گیا ہے کہ گرفتار افراد صرف ’مشتبہ ‘ نہیں بلکہ’ دہشت گردی کے مجرم‘ ہیں۔
بیشک دہشت گردی ایک سنگین معاملہ ہے، اور جو بھی شخص ملوث پایا جائے اس کو
عبرتناک سزا ملنی ہی چاہئے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہ کسی بے قصور کو دہشت
گردی کے بیجا الزام میں ملوث کرکے بدنا م کرنا اور اذیت میں مبتلا کردینا
بھی کم سنگین جرم نہیں ہے۔ کسی ایسے شخص کو ’دہشت گرد‘ کہنے کا کوئی جواز
نہیں جس کو محض شک کی بنیاد پرگرفتار کیا گیا ہو اور پولیس کی تفتیش جاری
ہے اور وہ ابھی کسی نتیجہ پر نہ پہنچی ہو۔ کسی بھی چھوٹے بڑے جرم میںملوّث
ہونے کے شک میں کسی شخص کو حراست میں لے کر تفتیش کرنا کوئی غیر معمولی بات
نہیں ہے۔ دنیا بھر میں پولیس مشتبہ افراد کو پکڑتی ہے،اس سے پوچھ تاچھ کرتے
ہے اور ہر پہلو سے معاملہ کی چھان بین کرتی ہے اگر تفتیش کے دوران قابل
اعتبار ثبوت مل جاتے ہیں تو مشتبہ فرد کو ’ملزم‘ بناکر عدالت میںپیش کردیتی
ہے ورنہ اس کو چھوڑدیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا اور بعض دیگر ممالک میں کہ اگر
غلطی سے کسی کوچند روز سے زیادہ محبوس رکھا جاتا ہے تو اس کو بھرپور معاوضہ
ادا کرکے باعزت روزگار پر بحال کردیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک
اس جانب پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
جب کسی ملزم کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو عدالت ثبوتوں کو جانچتی
پرکھتی ہے، ملزم کو صفائی کا موقع دیتی ہے، ثبوتوں میں اگر کوئی جھول ہوتا
ہے تو اس کا فائدہ ملزم کو دیتی ہے۔ البتہ اگر قطعی ثبوت مل جائے تو پھر
ملزم کو مجرم قراردیکر سزا تجویز کردی جاتی ہے۔ جرم اور سزا کے سلسلہ میں
بین اقوامی طور پر مسلمہ ایک اصول یہ ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو، ملزم بے
قصور تصور کیا جائے گا۔ مگر ہماری پولیس اور میڈیا نے اس اصول کو بالائے
طاق رکھدیا ہے، خصوصا ً دہشت گردی کے ان معاملات میں جن میںمشتبہ شخص کوئی
اقلیتی فرقے کا فرد ہو، فوراً اس کو گناہگار قراردے دیا جاتا ہے۔ میڈیا تو
اکثر اوقات ملزم سے اس کی کہانی تک نہیں پوچھتا اور پولیس کی کہانی کو ہی
بڑھا چڑھاکر اپنا ٹی آرپی بڑھانے میں لگا رہتا ہے۔
اس کا دوسراپہلو یہ بھی ہے کہ محض سیاسی مفاد کی خاطر گاہے مشتبہ افراد کے
بے قصور ہونے کا فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں صورتیں
ناروا ہیں، لیکن پولیس کی کہانی پر شک کئے جانے کے کئی دیگر اسباب بھی ہیں۔
گرفتاریوں کو زیادتی اور مشتبہ افراد کو بے قصور سمجھنے کا ایک بڑا سبب
خودپولیس کاوہ رویہ ہے جس میں جانبداری اور اس سے بڑھ کر جھوٹ اور فریب کی
عملداری صاف جھلکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں عدالتوں کے کچھ ایسے فیصلے سامنے
آئے ہیں جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ پولیس عملہ کس طرح محض
اپنی کارگزاری دکھانے یا کسی دیگر مقصد کےلئے کسی بے قصور کو جھوٹے معاملات
میں ملوّث کرکے اس کی زندگی تباہ کردیتا ہے ۔ بے خطا لوگوں کوحراست میں
لیکر قتل کرکے ’انکاﺅنٹر ‘کی کہانی گڑھ سکتا ہے اور اس کےلئے اس کو تعریف و
توصیف، انعام و اکرام اور پروموشن سے نوازا بھی جاتا ہے۔چنانچہ گجرات میں
سہراب الدین اور عشرت جہاں کے فرضی انکاﺅنٹر کے کیس اسی نوعیت کے قتل کے
معاملے ہیں۔
پولیس کی اس روش کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ بعض
حلقوں نے ان گرفتاریوںپر بھی شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے
دوران کئی عدالتی فیصلے ایسے آئے ہیں، جن سے قانون کی محافظ پولیس کے سر
قانون کی خلاف ورزی کاالزام آیا ہے اور اس کا وقار مجروح ہوا ہے۔ان فیصلوں
سے پولیس کی جو شبیہ عوام کے ذہنوں میں بنتی ہے وہ بڑی ہی تشویشناک ہے۔ ان
مشتبہ افراد کی گرفتاری سے تین ہی دن پہلے 27نومبر کو دہلی کی تیس ہزاری
کورٹس کے ایڈیشنل سیشن جج پون کمار جین کی عدالت نے ایک شخص محمد اقبال عرف
عبدالرحمٰن کو بری کیا ہے جس کو مئی 2008میںدہشت گردی کے سنگین الزام کے
تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔ گرفتاری کے بعد جو پریس ریلیز جاری کی گئی تھی اس
کو عنوان تھا: پاکستان میں تربیت یافتہ حوجی کا ایک دہشت گرد
گرفتار؛راجدھانی میں دھماکوں کی سازش ناکام ‘
"One Pak trained HuJI terrorist arrested: Plans to cause explosion in
the capital foiled"
اس سرخی پر غور کیجئے۔ پولیس نہ صرف یہ کہ’دہشت گرد حملوں کو ناکام ‘کردینے
کا دعوا کرکے اپنی کارگزاری دکھانا چاہتی ہے بلکہ محض شک کی بنیاد پر
گرفتار ایک شخص کو از خود مجرم قرار دیکر عدالت کے دائرہ اختیار کی بھی
سنگین خلاف ورزی کی ہے اور اس مسلمہ اصول کی بھی دھجیاں اڑادیں جس کا ذکر
اوپر آیاہے۔ملزم کے نام سے کیونکہ مسلمان ہونا ظاہر ہے اس لئے لگے ہاتھ
سنگھی ایجنڈے کی رعایت سے فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دینے کا کام بھی
ہوگیا۔اس سرخی کے ساتھ جو طویل کہانی بیان کی گئی ہے ،جس میں ہر بات قطعیت
کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اور جس کو میڈیا نے بھی بغیر کوئی سوال کئے خوب
اچھالا، عدالت میں چل نہیں سکی اورفاضل جج نے اس کواسی قطعیت کے ساتھ
مستردکر دیا۔ یہ ایک ملزم کے بری ہوجانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پولیس کی
ساکھ کوداغدارکرنے کا سنگین معاملہ ہے۔یہ متعین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس غلط
کاری کےلئے اصل ذمہ دار کون ہے؟ عین ممکن ہے پولیس عملہ نے ”نتیجہ دکھانے“
کے دباﺅ میں فرضی کہانی تراشی ہو۔مہاراشٹر کے ایک سابق ڈی جی پی مسٹرایس
ایم مشرف نے اپنی کتاب ’کرکرے کے قاتل کون؟‘ میں لکھا ہے پولیس بعض معاملات
میں وہی کرتی ہے جس کا اشارہ اس کو ’آئی بی‘ وغیرہ سے ملتا ہے۔نئی دہلی
اسٹیشن سے اس گرفتاری کا سہرہ انسپکٹر موہن چند شرما کے سر ہے جن کی
سربراہی میں باٹلہ ہاﺅس کا وہ انکاﺅنٹر ہوا تھا جس کے حقیقی ہونے پر بہت سے
لوگوں کو شک ہے اور حکومت نے ضابطہ کی مجسٹریٹی جانچ سے انکار کرکے اس شک
کومزید تقویت پہنچادی ہے۔
مذکورہ پریس ریلیز میں پولیس نے دعوا کیا تھا کہ ’اس سے قبل گرفتار کئے گئے
دہشت گردوں سے پوچھ تاچھ اوراور کچھ دیگر ذرائع سے موصولہ اطلاعات سے یہ
انکشاف ہوا تھا کہ حال ہی میں پاکستانی دہشت گرد تنظیم جیش اورلشکر نے
بنگلہ دیشی دہشت گرد تنظیم حوجی کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گرد حملے کرنے
کی سازش رچی تھی۔ سینٹرل خفیہ ایجنسی سے اطلاع ملی تھی کہ حوجی کے کمانڈر
قمر عرف نہٹا نے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میںدھماکے کرنے کےلئے ایک تربیت
یافتہ دہشت گرد کوہندستان بھیجا ہے۔ چنانچہ اس اطلاع کی تفصیلات حاصل کرنے
کےلئے دہلی میں اوربنگلہ دیش کی سرحد پرمخبروں سے مد د لی گئی اور
21مئی2008کو یہ متعین اطلاع ملی کہ حوجی کا دہشت گرد ، جس کا خفیہ نام
عبدالرحمٰن ہے، ملک میں داخل ہوچکا ہے۔ چنانچہ ایک جال بچھاکر اقبال عرف
عبدالرحمٰن کو نئی دہلی اسٹیشن پر پکڑلیا گیا۔اس کی نشاندہی پر جنک پوری کی
ایک مسجد کے پاس دفن اسلحہ وغیرہ برامد کیا گیا۔ ‘ پولیس کی یہ پوری کہانی
کسی فلم کی کہانی سے کم نہیں۔ ہر بات جزئی تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
اس کی ایک خاص بات یہ ہے ایک ساتھ شک کی سوئی مشرقی اور مغربی دونوں پڑوسی
ممالک کی طرف گئی ہے۔جس سے لگے ہاتھ ان دونوں پڑوسیوں پر سفارتی دباﺅ
بڑھانے کا کام بھی ہوگیا۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ عدالت نے اس کہانی کو
ناقابل اعتبار اور فرضی قراردیدیا۔ 31سالہ اقبال ضلع مظفر نگر کے ایک گاﺅں
کا باشندہ ہے۔ مدرسہ کا طالب علم رہا ہے۔ اس کے گاﺅں کے ہندﺅں اورمسلمانوں
نے اخبار نویسوںکو بتایا کہ وہ ایک خاموش طبیعت کا نوجوان ہے ۔واللہ اعلم
وہ پولیس کی نظر میں کیسے چڑھ گیا؟یہ تو ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مسلسل
امتیازی سلوک کی وجہ سے وہ بھی ڈپریشن میں مبتلا رہا ہو اور جذبات کے اظہار
میں غیر محتاط ہوگیا ہو، مگرمقامی تھانے کی شہادت یہ ہے ا س کا نام کبھی
کسی جرم میںبھی نہیں آیا۔لیکن دہلی پولیس نے اس پر ”دہشت گرد“ جیسے بھیانک
جرم کا ٹھپہ لگادیا اور میڈیا نے اس کو اور اس کی پوری قوم کوشک کے دائرے
میں لاکھڑا کیا۔
اس کو بری کئے جانے کا فیصلہ آیا تو دہلی پولیس کی بڑی سبکی ہوئی، مگر
تیسرے ہی دن اس نے مذکورہ گرفتاریوں کی اطلاع د ے دی اور بتایا کہ بیرون
جامع مسجد دہلی فائرنگ(19ستمبر 2010) ، چنمے سوامی اسٹیڈیم
بنگلور(17اپریل2010) اور جرمن بیکری پونا(13فروری 2010) کے بم دھماکوں میں
’انڈین مجاہدین‘ کا ہی گروہ ملوث تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ 22 نومبر کو
بہار کا ایک باشندہ قتیل صدیقی دہلی میں آنند وہار بس ٹرمینل کے پاس سے معہ
روالور و کارتوس پکڑاگیا تھا۔ اس سے پوچھ تاچھ کی بنیادپر دیگر گرفتاریاں
ہوئیں۔بتایاگیا ہے کہ ان کا سرغنہ یسین بھٹکل ان گرفتاریوں سے پہلے دہلی
میں ہی تھا، مگرنکل بھاگا۔ کہانی کابڑا حصہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا مالیگاﺅں
کیس میں مہاراشٹرا اے ٹی ایس نے تراشا تھا۔ وہاں بھی جرم کی ساری داستان
اور کرفتاریاں ایک ملزم ابرار احمد کے ’اقبالیہ بیان‘ کے گرد لکھی گئی ہے۔
بعد میں ابرار نے عدالت کو بتایا کہ اس نے دباﺅمیں آکر پولیس کی مرضٰی کے
مطابق بیان دیا تھا۔نہ وہاں ملزمان کے خلاف کوئی قابل اعتماد ثبوت تھا اور
نہ یہاں ابھی ان سات افراد کے خلاف کوئی مستحکم ثبوت ملنے کی اطلاع
ہے۔ہماری آرزو ہے دہلی پولیس پر کوئی نیا داغ نہ لگ جائے۔
اس دوران ایک ملزم گوہر عزیز خومینی کے اعزہ نے پولیس کے بیان کو اس بنیاد
پر باطل قرار دیا ہے کہ وہ زندگی میںکبھی بہار سے باہر گیا ہی نہیں اور جس
زمانے میں جامع مسجد کے نزدیک فائرنگ کا معاملہ پیش آیا وہ گاﺅں میں مکان
تعمیر کرارہاتھا۔ اس گروہ ک مبینہ سرغنہ یاسین بھٹکل کا نا م کئی معاملات
میں آچکا ہے، مگر ابھی تک اس نام کے کسی شخص کو پولیس گرفتا نہیں کرسکی۔وہی
پراسرار گروہ ’انڈین مجاہدین‘ کا بانی بھی ہے۔ ہرچند کہ انڈین مجاہدین کا
نام بارہا آچکا ہے مگر ابھی تک اس کو کوئی سر پیر ہاتھ نہیںلگا۔ جرمن بیکری
کیس میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے بڑے ہی ڈرامائی انداز میںمنگلور ہوائی اڈے
سے ایک نوجوان عبدالصمد بھٹکل کو مئی 2010 میں اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب
وہ دوبئی سے وطن لوٹا تھا اور یہ دعوا کیا تھا کہ وہی بیکری دھماکے کا اصل
ملزم ہے۔ اس معاملے میں مرکزی وزیر داخلہ کو بھی خفت اٹھانی پڑی تھی۔
مہاراشٹرپولیس نے یہ اطلاع فوراً ان کو دی اور انہوں نے بڑے فخرکےساتھ اے
ٹی ایس کو اس ’شاندار کامیابی ‘پر داد و تحسین سے نواز دیا۔لیکن بعد
میںپولیس نے صمد کی گرفتاری اسلحہ کے ایک ایسے کیس میں دکھائی جس میں وہ
مطلوب ہی نہیں تھا۔ چنانچہ عدالت نے اس کو رہاکردیا۔ اس کے بعد ایک اور شخص
مرزا حمایت عنایت بیگ کو گرفتار کیاگیا۔ اس کے خلاف 16جولائی کو ایڈیشنل
ضلع و سیشن جج این پی ڈھوتے کی عدالت میں الزامات بھی عائد کئے جاچکے ہیں۔
اس کیس میں قتیل صدیقی کا کہیں نا م نہیں آیا مگر دہلی پولیس نے اب دعوا
کیا ہے کہ صدیقی بھی بیکری دھماکے میں شریک تھا۔ بہر حال یہ فیصلہ عدالت
کریگی کی ان میں سے اصل مجرم اگر ہے تو وہ کون ہے۔ فی الحال پولیس کے اس
تازہ بیان سے سارا معاملہ عوام کی نظروں میں مشکوک ہوگیا ہے۔
دہلی پولیس کو عبدالرحمٰن کے معاملے سے بھی زیادہ خفت اس وقت اٹھانی پڑی
تھی جب دوارکا کی ایک عدالت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار سات کشمیریوں
کو باعزت بری کردیا او فرضی کیس بنانے پر متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کا
حکم دیا۔یہ گرفتاریاں جولائی 2005 میںہوئی تھیں اور گرفتار شدگان کے خلاف
دہشت گردی جیسے سنگین الزام میں مقدمہ درج کیا گیاتھا ۔ فرد جرم میں کہا
گیاکہ چار ملزمان کو آئی جی آئی ایر پورٹ کے پاس سے ایک انکاﺅنٹر میں پکڑا
گیا۔ ان کی نشاندہی پر ان کے باقی تین ساتھی گرفتار کئے گئے۔ بہت سا گولا
بارود بھی برامد ہوا اور یہ کہ وہ دہشت گردی کی واردات انجام دینے دہلی
آرہے تھے۔ گرفتاری کی اس خبر سے دہلی پولیس کی واہ واہی ہوئی اور
گرفتارشدگان کو جیل میں ڈالدیا گیا۔ایڈیشنل سیشن جج وریندر بھٹ نے ملزمان
ثاقب رحمٰن، بشیر احمد شاہ، نذیر احمد صوفی، حاجی غلام محی الدین ڈار،
عبدالماجد بھٹ، عبدالقیوم خان اور بیریندر کمار سنگھ کو تمام الزامات سے
بری کرتے ہوئے کہا: انکاﺅنٹر ہوا ہی نہیں۔ انکاﺅنٹر کی ایک جھوٹی کہانی پیش
کی گئی جس کواسپیشل اسٹاف کے دفتر میں تیار کیا گیا۔ جس کے اصل مصنف ایس
آئی رویندر تیاگی ہیں اور اس میں ایس آئی نراکار ، چرن سنگھ اور مہندر سنگھ
نے ان کے ساتھ معاونت کی۔ عدالت نے یہ نشاندہی بھی کہ یہ آپریشن صرف اپنے
ذاتی فائدہ کےلئے رچا گیا۔ انہوں نے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ ان
چاروں افسران کے خلاف کاروائی کریں۔فیصلے میں ان چار افسران کو سخت سرزنش
کی اور کہا ہے اس طرح کی ’کالی بھیڑیں‘ ہی پولیس کے وقار کو تباہ کرتی ہیں۔
ان کا فرض عوام کو تحفظ فراہم کرانا ہے مگر وہ اپنی ذمہ داری اداکرنے کے
بجائے مجرموں جیسے کام کرتے ہیں۔جسٹس بھٹ نے لکھا ہے ’ پولیس میں ایسی
ذہنیت کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے۔ اس کو دبایا جانا چاہئے۔‘ عدالت نے
یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کو ان کو خلاف شکایت سمجھاجائے۔لیکن افسوس کی بات
ہے کہ دہلی پولیس نے کوئی کاروائی خاطی افسران کے خلاف نہیں کی اور ہائی
کورٹ میں اس کے خلاف اپیل ڈال دی۔
کشمیری نوجوان عمران کرمانی کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے جس کی تفصیل اس
کالم میں اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں شائع ہوچکی ہے۔ کرمانی ایک کشمیری گاﺅں
کا باشندہ تھا جس کو لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ ایروناٹکس انجنیرنگ کا
کورس کیا۔ جس دن اس کو ایک اچھی سروس جائن کرنی تھی اس سے دودن پہلے پولیس
اسکو دہلی میں اس کے فلیٹ سے کسی بہانے سے اپنے ساتھ لے گئی اور اس پر دہشت
گردی میںملوّث ہونے کا جھوٹا کیس درج کرکے جیل میں ڈالدیا جہاں سے اس کو
پانچ سال کے بعد رہائی تو مل گئی مگر اس مقدمہ میں گھر والوں پر شدید مالی
بار پڑا اور ایک نوجوان انجنیرکا کیریر تباہ ہوگیا۔ اس طرح کے اور بھی
واقعات ملک بھر میں پیش آتے رہتے ہیں۔ جے پورسلسلہ وار بم دھماکوں میں حال
ہی میں 14بے قصور مسلم نوجوانوں کو ساڑھے تین سال کے بعد جیل سے رہائی ملی
ہے۔ مکہ مسجد معاملے میں بھی تقریبا ایک سو مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے
اذیتیں دی گئیں اور ان میں سے کئی کا مستقل تباہ ہوگیا۔
اس طرح کے واقعات جب بھی پیش آتے ہیںہمارے قائدین کے بیانات تو آجاتے ہیں
مگر اس سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ ایسا ہے دیگر اقوام کو ساتھ لیکر
پولیس اصلاحات پر حکومت کو آمادہ کیا جانا چاہئے۔قانون میں ایسی ترمیم ہونی
چاہئے کہ اگر کسی معاملے میں عدالت یہ پائے کہ کسی شخص کو جان بوجھ کر بے
خطا پھنسایا گیا ہے تو جس طرح اس کو مجرم کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے
اسی طرح یہ اختیار بھی حاصل ہو جس افسر نے اپنے منصبی اختیار کا بیجا
استعمال کیا ہے اس کو سزابھی دی جا سکے۔ یہ فیصلہ عدالت پر چھوڑا جانا
چاہئے کہ کس معاملے میں افسر صرف کوتاہی کا مرتکب ہے اور کس میں اس نے جان
بوجھ کر دھاندلی کی ہے۔ تفتیش میں کوتاہی یا شک کی بنیاد پر ملزم کی رہائی
ایک معاملہ ہے اور جان بوجھ کر کسی کی جان لے لینا، کسی کو بلاوجہ جیل میں
ڈلوادینا دیگر بات ہے۔ بلاسبب کسی کو جیل میں ڈالدینا، صریحاً زیادتی اور
شہری کے آئینی و بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ اس ضمن میں عوام میں بیداری
پیدا کی جانی چاہئے۔(ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری
ہیں) |