ملک کے سیاسی اُفق پر خبروں کا
طوفان برپا ہے، ایک موضوع پر قلم اُٹھائیں تو مزید بریکنگ نیوز سامنے ہوتی
ہیں۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد صدر زرداری کی اچانک دبئی
روانگی نے افواہوں کا جو بازار گرم کر رکھا تھا وہ اُن کی واپسی کے بعد بھی
رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی ذرائع ابلاغ تو یہاں تک انکشاف کر رہا ہے
کہ صدر کی پاکستان واپسی عارضی ہے اور وہ اپنی اہلیہ کی برسی کے فوری بعد
مستقل جلاوطنی اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مسلم
لیگ نواز کے سینئر رہنماء مخدوم جاوید ہاشمی اپنی جماعت سے بغاوت کرکے
تحریک انصاف کے سونامی میں بہہ گئے ہیں۔ اسکے علاوہ میموگیٹ اسکینڈل اور
پیپلز پارٹی کی حکومت کے مستقبل سے منسلک جو تین بڑی خبریں سامنے آئی ہیں
وہ انتہائی اہمیت کی حامل قرار دی جا رہی ہیں۔ پہلی بڑی خبر یہ ہے کہ وزارتِ
دفاع نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں ایک بیان حلفی کے
ذریعے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ اُس کا بری فوج اور آئی ایس آئی پر
آپریشنل کنٹرول نہیں بلکہ صرف انتظامی کنٹرول ہے۔ دوسری بڑی خبرکے مطابق
وزیراعظم گیلانی نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب اور پھر قومی اسمبلی
میں خطاب کے دوران خبردار کیا ہے کہ جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں ہو رہی
ہیں اور ساتھ ہی یہ تنبیہہ بھی کی کہ تمام ادارے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ
ہیں اور ریاست کے اندر ریاست کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی جبکہ تیسری بڑی
خبر یہ ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک غیر معمولی
بیان دے کر بال پھر حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو
کوئی خطرہ نہیں اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی
بلکہ ایسی افواہیں اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
وزارتِ دفاع نے سپریم کورٹ کے سامنے جو اعترافِ ناکامی کیا ہے اس سے اِن
حکومتی دعوﺅں کی قلعی کھل گئی ہے جس کا برملا اظہار وہ ہمیشہ کرتی آ رہی
تھی کہ فوج اور آئی ایس آئی پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ خود وزیراعظم گیلانی
کئی بار یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی حکومت کے ماتحت ہے
اور حکومتی مرضی سے ہی کوئی کام کرتی ہے جبکہ آئین کی رو سے بھی مسلح افواج
وزارتِ دفاع کے ماتحت ہیں اور صدرِ مملکت ان کے کمانڈر اِن چیف ہیں۔ ماضی
میں ایک نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا تھا کہ پاکستان کی دو اہم خفیہ ایجنسیاں
آئی ایس آئی اور آئی بی وزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کرینگی جسے حکومت نے ایک
تاریخی فیصلہ قرار دیا لیکن صرف چند گھنٹے بعد ایک اور نوٹیفکیشن آ گیا جس
میں وضاحت کی گئی کہ پہلا نوٹیفکیشن غلط فہمی میں جاری ہو گیا۔ آئی ایس آئی
بدستور وزارتِ دفاع کا حصہ رہے گی اور وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی۔ اب سوال یہ
اُٹھتا ہے کہ اگر افواجِ پاکستان اوراس کی خفیہ ایجنسیاں حکومتی کنٹرول سے
باہر ہیں تو پھر وہ اتنا عرصہ خاموش تماشائی کیوں بنی رہی۔ کیا حکومت صرف
یہ کہہ کر بری الذمہ ہو سکتی ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی پر ہمارا کنٹرول ہی
نہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت کا فوج اور آئی ایس آئی پر کنٹرول
نہیں ہے لیکن باقی سب چیزوں پر تو ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر فوج پر
بھی کنٹرول ہوتا تو پھر اس منظم ادارے کا حشر بھی وہی ہوتا جو اس وقت
پاکستان ریلوے، واپڈا اور پی آئی اے کا ہو چکا ہے۔
میموگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے ایوانِ صدر ہر طرف سے دباﺅ کا شکار ہے اور صدر
زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری بیان داخل نہ کرنا ایک الگ بحث کو
جنم دے چکا ہے۔ حکومت پر جیسے جیسے دباﺅ بڑھ رہا ہے، وزیراعظم کا لہجہ بھی
سخت ہوتا جا رہا ہے۔ تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں، یہ وہ بات ہے جس
کے اندر کئی باتیں پوشیدہ ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ فوج کا احترام کرنیوالے ملک
کے چیف ایگزیکٹو نے ریاست کے اندر ریاست بھی ناقابل قبول قرار دے دی اور
ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ اپنی دونوں
تقاریر میں وزیراعظم کا اشارہ یقینا فوج کی طرف تھا لیکن اس حقیقت سے بھی
انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ جمہوری حکومت کے دور میں ملک کی معاشی
صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان اپنے پاﺅں پر
کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہا۔ حکومت کے پچھلے چار سالہ اقدامات یقینا اس کی
غیر مقبولیت کا سبب بن رہے ہیں اور اگلے الیکشن میں اسکے پاس عوام کی
ہمدردیاں حاصل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچا، اس لیئے وہ اس کوشش میں ہے
کہ کوئی اسے دھکا دیکر اقتدار سے بے دخل کر دے اور پھر وہ دوبارہ خود کو
مظلوم ظاہر کرکے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ اُسے مدت پوری
کرنے نہیں دی گئی ورنہ وہ ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں تک جاری کر دیتی۔
سیاسی مبصرین بھی وزیراعظم گیلانی کی دونوں تقاریر کو اس تناظر میں لے رہے
ہیں کہ حکومت اپنی ناکامی کے بعد اداروں میں ٹکراﺅ کے ذریعے ”سیاسی شہید“
بننے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آرمی چیف کے بروقت بیان سے معاملہ اُلٹ ہو
گیا ۔ اب اگر حکومت نواز لیگ کے مطالبے پر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کراتی
ہے تو خود سیاسی موت مر جائے گی جبکہ اسے میموگیٹ اسکینڈل سے جان چھڑانے کا
بھی کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اسکے علاوہ پرویز مشرف بھی اگلے ماہ وطن واپس
آ رہے ہیں اور بینظیر بھٹو قتل کیس میں اگر حکومت اُن پر ہاتھ نہ ڈال سکی
تو آئندہ الیکشن میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گی۔
وزیراعظم گیلانی کی دونوں تقاریر کے صرف چوبیس گھنٹے بعد آرمی چیف جنرل
اشفاق پرویز کیانی نے بڑے مؤثر انداز میں فوج کا مؤقف پیش کرکے بال پھر
حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں فوج کا اقتدار سنبھالنا
کسی طور بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ ملک میں عدالتیں، سیاسی پارٹیاں اور سول
سوسائٹی اسکے حق میں نہیں ہے جبکہ فوج اور آئی ایس آئی کو عوام کیساتھ
لڑانے کی جو عالمی سازش ہو رہی ہے ایسی صورتحال میں بھی فوج کا اقتدار میں
آنا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ اب حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز
باقی نہیں رہتا کہ جمہوریت کیخلاف سازش ہو رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جمہوریت
اور آمریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ آمریت تو خیر ہوتی ہی آمریت ہے لیکن
جمہوریت (نام نہاد) بھی آمریت سے خالی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مہنگائی اور
بے روزگاری سے پسا طبقہ موجودہ ”جمہوری “دور سے پرویز مشرف کے ”آمرانہ “دور
کو بہتر سمجھنے لگا ہے۔ہمارے سیاست دان ہمیشہ یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ
بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے لیکن جمہوریت کی نہ تو صحیح
ترجمانی کی جاتی ہے اور نہ ہی اصل شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ بدترین جمہوریت
بہترین آمریت سے بہتر اسے کہا گیا ہے کہ جس معاشرے میں عام افراد بلاخوف و
خطر آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہوں اور نمائندگی کیلئے وراثت کی بجائے
قابلیت کا معیار اپنایا گیا ہو مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ جمہوریت کا گیت
گانے والے اپنے انت گنت آمرانہ اقدامات کا مظاہرہ کرکے بڑی ڈھٹائی سے
جمہوریت کے منہ پر خود ہی زوردار طمانچہ مار رہے ہیں۔ جمہوریت کے تمام
دعویدار وں کوپہلے اپنی جماعتوں میں جمہوریت لانا ہوگی اور اپنی گدی کو بھی
چھوڑنا ہوگا ورنہ حق تلفی کی صورت میں کئی ”جاوید ہاشمی “ بغاوت کر سکتے
ہیں۔ جو اپنی گدی پر براجمان ہے وہ بھی ایک آمر ہے اور کسی طور بھی جمہوریت
کا راگ الاپنے کا حقدار نہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے بروقت
دفاعی بیان یقینا لائق تحسین ہے۔ اگر فوج خاموش رہتی تو پھر نہ صرف شکوک و
شبہات جنم لیتے بلکہ اس کے کردار پر مزید انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتیں۔ |