کیا ہونے والا ہے؟

گرچہ سردی کی لہر نے اسلام آبادکو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن وفاقی دارالحکومت کے بلند ایوانوں میں قانونی موشگافیوں کی گرماہٹ جاری ہے ۔صدر زرداری میمو اسکینڈل پر شدید مضطرب ہیں اور یہ اضطراب اچھے بھلے انسان کے اعصاب کو شل کر دیتا ہے ، تو صدر زرداری جو دل کے عارضے سمیت کئی عوارض میں مبتلا ہیں کا بیمار ہونا کچھ عجب نہ تھا وہ رات کی تاریکی میں دبئی گئے علاج کے سلسلے میں 13دن گزارنے کے بعد رات کی تاریکی میں ہی کراچی واپس آئے اور چند دن قیام کے بعد رات کے سفر میں ہی عافیت جانتے ہوئے اسلام آباد چلے آئے ایک ایسا شہر جو کجا مصنوعی طور پر آباد کیا گیا تھا لیکن ملک کے بڑوں نے اس کے حسن کو بھی گہنا دیا ہے ۔

وفاقی دارالحکومت میں کئی کمیٹیاں،کمیشن اور عدالتی بینچ ملکی معاملات نبٹانے میں مصروف ہیں لیکن ان میں سب سے اہم معاملہ میمو گیٹ اسکینڈل بن چکا ہے جو پنے منطقی انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے تادم تحریر صدر زرادری کی جانب سے سپریم کورٹ میں بیان جمع نہیں کرایا گیا ا ور چیف جسٹس اس پر کہہ چکے ہیں کہ صدر مملکت کی جانب سے تردید یا تصدیق نہ آنے کا مطلب الزام کو سچ ثابت کرتا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ صدر زرداری کو بیماری پر جواب داخل کرنے کے حوالے سے مہلت دے چکی ہے،حالانکہ سپریم کورٹ نے میمو کیس کے سلسلے میں صدر ،وفاق ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت تمام متعلقہ شخصیات کو جواب داخل کرنے کے لیے 15 دن دیئے تھے لیکن صدر کی جانب سے24 دن گزر جانے کے باوجود عدالت ہنوز انکے جواب کی منتظر ہے۔

آرمی چیف تو اپنے جواب الجواب میں بھی اپنے سابق بیان کی تصدیق کر چکے ہیں کہ میمو ایک حقیقت ہے اورا سکی تحقیقات ہونی چاہیے یہ کوئی عام معاملہ نہیں ملک کو بدنام اور خاص طور پر ایک ایسے ادارے کو جو ملک کی سلامتی اور جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کا ضامن ہے اسے کمزور کرنے کی منظم سازش ہے اور نواز شریف جس آئینی پٹیشن کو سپر یم کورٹ لے کر گئے ہیں ( جسے بابر اعوان فرمائشی پٹیشن کہتے ہیں یعنی فوج کی فرمائش پر پٹیشن داخل کرائی گئی ے) وہ بالکل صائب فیصلہ تھا ۔

حکومت اورحسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر خط کے ایک اہم کردار منصور اعجاز کو تمام خرابیوں کی جڑ اور وزیراعظم گیلانی اسے پارلیمنٹ کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں جبکہ امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جمیز جونز کے بیان کو بھی حکومتی حلقے خاصے اچھال رہے ہیں کہ خط کی تحریر سے لگتا ہے کہ یہ منصور اعجاز کالکھا ہوا ہے لیکن کیامنصور اعجاز نے یہ ذاتی حیثیت سے لکھا یا اسے لکھوانے والا کوئی اور تھا اس کا تعین کرنا عدالت کا کام ہے ،بہرحال وفاقی حکومت سابقہ کیسز کی طرح میمو کیس میں بھی وقت گزاری کی حکمت عملی پر گامزن ہے تاکہ اس کے گلے کے گرد تنگ ہوتی ہوئی رسی کو قدرے ڈھیلا کیا جا سکے ۔بابر اعوان نے تو اسے بھی پارلیمنٹ اور جمہوریت کیخلاف سازش قرار دیا کہ اس کیس سے پارلیمنٹ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ۔

دوسری جانب حکمران پیپلز پارٹی کے رہنما اس بات کو نہیں مان رہے کہ صدر سمیت حکومت کسی طرح بھی اس معاملے میں ملوث ہے اس تناظر میں اگر 22 دسمبر کو وزیر اعظم یوسف ر ضا گیلانی کے پارلیمنٹ میں خطاب کو دیکھاجائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اب براہ راست فوج اور اس کے ذیلی ادارے آئی ایس آئی کو حکومتی کنٹرول میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ فوج ریاست کے اندر ریاست نہیں دستوری ا ور آئینی حوالے سے تو درست ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ،انکی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد آئی ایس آئی کو سویلین کنٹرول میں دینے کےلئے راتوں رات نوٹیفکیسن جاری کیا جسے دباﺅ پر فوری واپس لے لےا گیا تھا ، کیونکہ ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے اور وزیراعظم گیلانی جو 45ماہ تک ملک کے سب سے زیادہ عرصے تک وزیراعظم رہنے کا اب اعلان کرتے پھرتے ہیں نے خود جنرل کیانی کی ملازمت میں 2013 تک توسیع کی تھی اور پھر وہ انکے گن بھی گاتے رہے، کجا اس کے کہ وزارت دفاع 21 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں داخل کئے گئے بیان میں کہہ چکی ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی حکومت کے کنٹرول میں نہیں اس کے بوجود وزیراعظم کی تقریر خاصی سمجھی جا رہی ہے ۔

اس گرما گرم ماحول میں اسلام آباد ایک بار پھر افواہوں کا گڑھ بن چکا ہے ، کہا جا رہا ہے کہ قبرا یک ہے اور تابوت دو، صدر زرداری وقت حاصل کرنے کے لئے عنقریب لندن چلے جائیں گے ،27دسمبر کو بے نظیر کی برسی پر صدر زرداری کا آخر ی خطاب ہو گا جہاں انکی جذباتی تقریر ملک کو بڑے محاذ آرائی کی جانب لے جا سکتی ہے ، پیپلز پارٹی کے ارکان، قوم اسمبلی سے مستعفیٰ ہو جائیں گے یا پھر صدر زرداری کسی ایک کو قربانی کا بڑا بکرا بنائیں گے ، ان حالات میں جو زیادہ قابل قبول صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے وہ یہ ہو سکتی ہے کہ صدر زرادری اور وزیر اعظم گیلانی معاملہ کا طول دیں اور اس دوران ایوان وزیر اعظم میں مقیم حسین حقانی کے خلاف اگر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو ایک اور اسکینڈل یا سانحہ رونما ہو سکتا ہے ، جبکہ امکانات میں سے سب سے آخری امکان یہ ہے کہ فوج صدر کو چلتا کرے !
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.