زیارت ِ حرمین شریفین کے مبارک سفر کی تفصیلات اور کیفیات - قسط نمبر 3

طواف ِ کعبہ ایک ایسا عمل ہے جو فطرت کا آئینہ دار ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اِس حقیقت کے بہت سے پردے اٹھتے ہیں کہ طواف ِ کعبہ صرف بائیں سے دائیں ہی کیوں کیا جاتا ہے۔ یہ دائیں سے بائیں بھی ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے چنانچہ اِس کے متعلق درج ذیل معلومات قارئین کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

طوافِ کعبہ اور نظام ِ شمسی
جس طرح خانہ کعبہ کا طواف بائیں سے دائیں ہاتھ کیا جاتا ہے بعینہ اِسی طرح نظام ِ شمسی میں سیاروں کا سفر بھی بائیں سے دائیں یعنی اُلٹے ہاتھ سے سیدھے ہاتھ کی طرف جاری ہے یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورے کا پورا نظام ِ شمسی اپنے مدار میں رہتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں ہمہ وقت مشغول ہے۔

مزید برآں خلاء میں کہکشاؤں کی حرکت بھی بائیں سے دائیں ہوتی ہے۔

طوافِ کعبہ اور خون کی گردش
جسم ِ انسانی میں خون کی گردش بائیں سے دائیں سفر کرتی ہے یعنی انسانی جسم میں خون کی گردش اور طواف ِ کعبہ میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جب تخلیق ِ انسانی کے لیے سپرم انڈے کی طرف سفر کرتے ہیں تو اُن کی حرکت بھی بائیں سے دائیں ہی ہوتی ہے۔

سمندری طوفان کی حرکت
جب سمندر بپھر جاتا ہے اور سمندری طوفان کی صورت میں سائیکلون وجود میں آتا ہے تو اُس کی حرکت بھی بائیں سے دائیں ہی ہوا کرتی ہے۔

آلات ِ جدید
ایٹمی ذرات (الیکٹران)کی حرکت بھی بائیں سے دائیں ہوتی ہے جبکہ راکٹ یا میزائل بھی حیرت انگیز طور پر بائیں سے دائیں جھکاؤ کے ذریعے اپنا سفر طے کرتا ہے۔

طواف ِ کعبہ سے فارغ ہو کر میں حطیم میں چلا گیا۔ بے پناہ رش کے باعث حقیقتاً تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔ کئی لوگ اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ میں بھی ہاتھ باندھے ایک جگہ ٹِکا رہا اور خانہ کعبہ شریف کی زیارت کرتا رہا۔ میرا دل بیت اللہ شریف کی طرف مستانہ وار کھنچا چلا جا رہا تھا چنانچہ دل سجدے کرتا رہا تو نظریں دیوانہ وار خانہ ء خدا کے دَرودیوار کو چومتی رہیں۔ اچانک کسی نے مجھے پکڑ کر صف میں خالی جگہ پر کھڑا کر دیا۔ میں اُس محسن کو دیکھ نہیں پایا اور جلدی کے ساتھ نفل پڑھنے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں زمین و آسمان میں سے کسی جگہ پر نہ تھا۔ واہ مولا! تیرے کرم کا عروج کیسا پُر کیف ہے۔ بس یوں لگا جیسے زندگی تھم گئی، وقت رُک گیا اور قسمت کا ستارہ اوجِ مقدر تک جا پہنچا۔ یہ تو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کب نفل شروع کیے اور کتنی دیر میں ختم ہوئے بلکہ خیالات ترتیب کے آئینے میں اُس وقت اُترے جب میں نے اپنے آ پ کو خانہ کعبہ شریف کی دیوار کے ساتھ لپٹے ہوئے پایا۔ اُس وقت معلوم ہوا کہ پروفیسر رضاء اللہ حیدر کی رقم کردہ حمد کے اِس شعر میں کیا ہے!
ساری سیاہی دل سے گناہوں کی دُھل گئی
رو رو کے جب بھی مانگیں دعائیں اُٹھا کے ہاتھ

مجھے یوں لگا جیسے شفقت ِ پدری و ممتا سمٹ کر بیت اللہ شریف کی دیوار کے اِس ساڑھے چار فٹ کے ٹکڑے میں اکٹھی ہو گئی ہے۔ بس پھر بلک بلک کر رویا، رو رو کر مانگا بلکہ مانگ مانگ کر لے ہی لیا۔ اِک وہ میرا مولا ہی تو ہے کہ جس سے جتنا مرضی مانگو ، ناراض ہونے کی بجائے مزید راضی ہو جاتا ہے اور جو منانے پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ جلدی مان جاتا ہے۔

اِسی دوران آب ِ زم زم پینے کے لیے دل میں تڑپ پیدا ہو گئی تو میں آہستگی سے پیچھے ہٹتا ہوا حطیم سے باہر نکل آیا۔ طواف کرنے والوں کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ دائیں ہوتا ہوا باہر نکل آیا اور تھوڑا پیچھے کی طرف واپس مڑا اور آب ِ زم زم کی سبیل تک جا پہنچا۔ تشنہ لبوں کا اِک ہجوم اپنی پیاس بجھانے میں مشغول تھا۔ میں ابھی خالی جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑا رہا تھاکہ ایک ادھیڑ عمر آدمی نے میرے ہاتھ میں آب ِ زم زم سے بھرا ہوا ٹھنڈا گلاس تھما دیا۔ میں نے شکراً کہتے ہوئے آب ِ زم زم کا گلاس منہ سے لگایا اور پینے کے بعد دیکھا تو وہی شخص دوسرا گلاس میری طرف بڑھا رہا تھا، چنانچہ دوسرا اور پھر تیسرا، چوتھا اور پانچواں گلاس پینے کے بعد میں نے جیسے ہی اُس کے ساتھ گفتگو کرنے کی کوشش کی تو وہ کچھ فاصلے پر جا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے طواف کرنے والوں میں شامل ہو گیا۔

اِس مقام پر وہ بات جو میرے لاشعور کو بار بار متاثر کر رہی تھی ، اب میرے شعور پر بھی حاوی ہو گئی۔ میں اپنے آپ کو دیکھوں تو ماسوائے غفلت و شرمندگی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا، لہذا اَن جانے لوگوں کی شفقت و مہربانی کا یہ انداز دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب میرے پیرومرشد حضرت کرماں والے کی نسبت کی بہاریں ہیں۔

آب ِ زم زم پینے کے بعد خانہ کعبہ شریف کی طرف دیکھتے ہوئے حسب ِ ذیل دعا پڑھی:
اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِزْقًا وَّاسِعًا وَّ عِلْمًا نَافِعًا وَّ شِفآئً مِّنْ کُلِّ دَآئٍ
اے اللہ! میں تجھ سے وسیع رزق اور نفع رساں علم اور ہر ایک بیماری سے شفاء کا طلب گار ہوں۔

آب ِ زم زم پینے اور دعا کرنے کے بعد میری اگلی منزل صفا و مروہ کی سعی تھی چنانچہ حجراسود کا استلام کرتے اور بیت اللہ شریف کو دیکھتے ہوئے میں اپنے دائیں ہاتھ چل کر صفا تک پہنچا اور اونچائی پر چڑھتے ہوئے حسب ِ ذیل پڑھنے لگا:
ِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَِنَّ اللّہَ شَاکِر عَلِیْم
بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان)چکر لگائے اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقینا اللہ(بڑا)قدر شناس (بڑا)خبردار ہے۔

نوٹ: صفا یا مروہ پر چڑھتے ہوئے ہر بار یہی دعا پڑھی جاتی ہے۔

اگر صفا پر نسبتاً بلند جگہ تک پہنچ جائیں تو خانہ کعبہ شریف کو نظریں بآسانی چوم لیتی ہیں چنانچہ میں نے خانہ کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے سعی کی حسب ِ ذیل نیت کرتے ہوئے نظر ڈالی
اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ سَبْعَةَ اَشْوَاطِ لِّوَجْھِکَ الْکَرِیْمِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ
اے اللہ! میں صفا اور مروہ کے درمیان محض تیری رضا و خوشنودی کے لئے سات چکروں سے سعی کرتا ہوں پس اِسے میرے لئے آسان کر دے اور مجھ سے وہ قبول فرما۔
پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ کلمات ادا کیے:
بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اللہ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔

پھرمروہ کی طرف جانے کے لیے صفا سے نیچے اُترنے لگا اور حسب ِ ذیل پڑھا:
اللّٰھُمَّ اسْتَعْمِلُنْی بِسُنَّة نَبِّیِّکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ تَوَقَّنِیْ عَلیٰ مِلَّتِہ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ مُّضِلاَّتِ الْفِتَنِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
اے اللہ! مجھے اپنے نبی ۖ کی سنت کا تابع بنا دے اور مجھے آپکے دین پر موت عطا کر اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ دے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

نوٹ: صفا یا مروہ سے اُترتے ہوئے ہر بار یہی دعا پڑھی جاتی ہے۔

صفا سے نیچے اُترتے ہی کچھ فاصلے پر سبز روشنی والی ٹیوب لائٹیں نصب ہیں، یہاں سے مردوں کو دوڑنا چاہیے جبکہ عورتوں کے لیے دوڑنا منع ہے ۔تقریباً ٢٠۔١٥ گز کے فاصلے پر سبز روشنی والی ٹیوب لائٹیں دوبارہ نصب ہیں ، یہاں آ کر دوڑنا موقوف کر دیا جاتا ہے اور پھر عام رفتار سے چلنا ہے۔ یہاں پر دیکھا دیکھی کے تحت بعض خواتین مردوں کو جب اچانک دوڑتے ہوئے دیکھتی ہیں تو بغیر سوچے سمجھے ساتھ دوڑنا شروع کر دیتی ہیں یعنی وہ دوڑنے کو ضروری خیال کرنے لگتی ہیں۔ حالانکہ خواتین کو دوڑنا نہیں چاہیے۔صفا و مروہ کے مابین درج ذیل دعا پڑھتے رہنا چاہیے:
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَ لَآ اِلَہٰ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قَوَّة اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ بَارِک وَسَلَّمْ

اگر مذکورہ دعا زبانی یاد نہ ہو تو پھر دیگر اذکار مثلا سبحان اللہ، الحمدُللہ، اللہ اکبر، استغفار (استغفر اللہ) یا درود شریف کا ورد جاری رکھ سکتے ہیں۔

پہلے پہل تو زیادہ محسوس نہ ہوا پھر تھکن محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ میری نظریں پاؤں تلے صاف شفاف سنگ ِ مر مر ، ائیرکنڈیشنڈ عمارت اور دیگر سہولیات پر تھیں مگر سوچوں کے دائرے وسیع ہوتے ہوئے تاریخ ِ عرب کے اُس دور تک جا پہنچے جب مائی حاجرہ سلام اللہ علیہا نے اپنے جگر گوشہ کے لیے صفا و مروہ کی سنگلاخ پہاڑیوں کے مابین کنکر و کانٹے سے لبریز راستے اور تیز دھوپ برساتے سورج کے نیچے پانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے۔ میرا پروردگار کتنا لجپال ہے؟ وہ اپنے محبوب بندوں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اُن کی ادائیں بھی محفوظ فرما دیتا ہے۔ آخر حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا کوئی نبیہّ نہیں بلکہ اللہ کی ایک صالحہ بندی تھیں ، ویسے بھی عورتوں میں نبوت ہے ہی نہیں ۔ یہاں مجھے پیر سےّد شمس الدین بخاری مدظلہ العالی کی گفتگو یاد آنے لگی۔مولا! کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم مطاف میں بیٹھتے ، تیرا گھر دیکھتے، تجھے یاد کرتے، تیری عبادت کرتے، تجھے سجدہ کرتے مگر مولا ! تو نے ہمیں یہاں چکر لگانے پر کیوں لگا دیا؟ مگر یہ میرے مولا کا پیار ہے کہ وہ اپنے محبوبوں کی اداؤں پر آج بھی عمل کروا رہا ہے، پیاروں کی راہ پر چلا رہا ہے،یہاں عقل کی جاء نہیں، یہ عشق کا مقام ہے۔

مروہ تک پہنچ کر واپسی کے راستے پر چل پڑا ، اب یہ میرا دوسرا چکر تھا۔ جب صفا پر پہنچا تو دو چکر مکمل ہو گئے، خانہ کعبہ شریف کی طرف دیکھا اور پھر مروہ کی طرف چل پڑا۔ تیسرا چکر مکمل کیا اور پھر ہمت کر کے بقیہ بھی مکمل کر ہی لیے۔ جب بھی سبز لائٹوں کے درمیان والی جگہ آئے خواہ صفا ہو یا مروہ تو دوڑنا لازم ہوتا ہے چنانچہ سات چکر مکمل کر کے میں مروہ پر رُک گیا اور دعا کی۔ مروہ پر کئی مرد اور خواتین نوافل بھی پڑھ رہے تھے اور ایک دوسرے کے بال کاٹنے میں بھی مصروف تھے۔ خواتین کے لیے لازم ہے کہ سر کے پچھلے حصے سے صرف انگلی کے ایک پور کے برابر بال کاٹیں جبکہ مردوں کے لیے سر منڈوانا زیادہ افضل ہے تاہم مرد نشانی کے طور پر کچھ بال بھی کتروا سکتے ہیں۔پورے سر کو منڈوانا حلق کہلاتا ہے جبکہ نشانی کے طور پر کچھ بال کتروانا تقصیر کہلاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی عمرہ کے تمام افعال مکمل ہو گئے۔

مروہ سے ملحقہ گیٹ سے اگر باہر نکلیں تو تھوڑی چڑھائی پر جا کر بائیں ہاتھ حجام کی کئی دکانیں موجود ہیں جو ١٠ ریال لے کر سر مونڈھ دیتے ہیں تاہم اگر کبوتر چوک سے ملحقہ گلیوں میں واقع کسی حجام سے سرمنڈوائیں تو ٥ ریال بھی لے لیتے ہیں۔ میں نے حجام سے سرمنڈوایا اور واپسی کے لیے چل پڑا۔ یہاں پر اچانک میری نظر ایک ایسی جگہ پڑی جس نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی، میرے شعور و لاشعور کو ایک جھٹکا سا لگا اور دل نے گواہی دی کہ یہ جگہ پہلے بھی دیکھ چکے ہولہذا میں سوچ کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
Pir Sanaullah Tayyabi
About the Author: Pir Sanaullah Tayyabi Read More Articles by Pir Sanaullah Tayyabi: 18 Articles with 45826 views Nothing Special.. View More