اگر عوام کو یاد ہو تو ایک زمانہ
تھا جب شہنشاہ جذبات، فلم ایکٹر محمد علی مرحوم فلموں میں عدالت کے سین میں
انتہائی اعلیٰ پرفارمنس دیا کرتے تھے اور ان کے مکالمے ایسے شروع ہوا کرتے
”جج صاحب....! ہاں میں ہی مجرم ہوں کہ میں نے حالات سے مجبور ہوکر فلاں کام
کیا لیکن مجھے اس پر اکسایا کس نے، جج صاحب! مجھے اس جرم پر اس معاشرے نے
اکسایا، جج صاحب ....! وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی جذباتیت کا مظاہرہ ہمارے
شہنشاہ جذبات صدر پاکستان نے بینظیر بھٹو کی برسی کے پروگرام سے خطاب کرتے
ہوئے کیا، صدر زرداری کی زبان سے جج صاحب! سن کر ایک طرف تو مرحوم محمد علی
یاد آئے تو دوسری طرف زرداری کا بچپن بھی یاد آگیا جب انہوں نے ایک فلم میں
کام کرتے ہوئے بہت اچھی اور اعلیٰ اداکاری کا مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے
کسی اہل زبان کی طرح بڑی شائستہ اردو بھی بولی۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر
زرداری نے کچھ عرصہ قبل نجم سیٹھی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا
تھاکہ وہ بچپن میں اردو سے نابلد تھے اور انہوں نے پٹارو کیڈٹ کالج سے
فراغت کے بعد اردو سیکھی تھی۔ یہ کہتے ہوئے وہ شائد یہ بھول چکے تھے کہ
انہوں نے بچپن میں کسی فلم میں بھی کام کیا تھا جب ان کے خاندانی سینما بھی
ہوا کرتے تھے، ورنہ وہ یقیناً نجم سیٹھی کو ایسا جواب نہ دیتے۔ بہرحال بات
ہوری تھی کہ صدر زرداری نے بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی پر چیف جسٹس کو مخاطب
کرتے ہوئے کیا ارشاد فرمایا۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پیپلز پارٹی کے
رہنماﺅں کے متعلق کیسز کو نظر انداز کردیتے ہیں لیکن مخالفین کے کیسز پر
فوری توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو
عدلیہ نے پھانسی پر چڑھایا لیکن آپ کی توجہ اس کیس پر نہیں، ہمارا ایک وزیر
پچھلے ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے لیکن اس کیس پر بھی کوئی توجہ نہیں، جج صاحب!
میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بی بی کے قتل کیس کا کیا ہوا.... اس کے
علاوہ بھی انہوں نے چیف جسٹس کو ”کھری کھری“ سنائیں ۔ اپنی تقریر میں انہوں
نے چیف جسٹس سمیت عدلیہ کے بعد جس پر زیادہ تنقید کی وہ عمران خان یا PTI
تھے، میاں نواز شریف پر ایک آدھ پھبتی کس کر وہ آگے بڑھ گئے، انہوں نے فوج
پر بھی کوئی ”تبرا“ نہیں بھیجا، حالانکہ اعتزاز احسن نے برسی کے میدان کو
میدان کربلا سے ہی مشابہت دی تھی۔زرداری صاحب نے برسی کے موقع پر یہ ظاہر
کیا کہ اب وہ نہ تو فوج کے خلاف اور نہ ہی نواز لیگ کے خلاف محاذ کھولنا
چاہتے ہیں بلکہ اب وہ ”انصاف“ کرنے والوں اور انصاف کے نام پر ”تحریک“ برپا
کرنے والوں کے خلاف صف آراءہوں گے۔
صدر زرداری کا چیف جسٹس سے بی بی کے قاتلوں کا پوچھنا بھی ایک اچنبھا ہے
اور خود یہ ذمہ داری نہ لینا عجیب تر۔ قارئین کو یقینا یاد ہوگا کہ اس سے
پہلے تینوں برسیوں پر حکومت اور زرداری صاحب کی جانب سے اس طرح کے بیانات
سامنے آئے تھے کہ ”ہم قاتلوں کو جانتے ہیں، وقت آنے پر بتا دیں گے“ اسی طرح
راجہ ریاض نے چند دن قبل ہی یہ کہا کہ پچھلی برسی پر پارٹی کی جانب سے
قاتلوں کا اعلان ہونے والا تھا لیکن شریک چیئرپرسن بلاول زرداری کی جانب سے
یہ کہہ کر اسے رد کردیا گیا کہ ابھی چونکہ سارے قاتل گرفتار نہیں ہوئے اس
لئے ابھی پکڑے گئے قاتلوں کا نہ بتایا جائے، چنانچہ پچھلی برسی پر قوم کو
قاتلوں کا نہیں بتایا گیا۔ کسی کا بھی قتل ہوجائے تو اس کی ایف آئی آر
حکومت یا ریاست کی مدعیت میں درج ہوتی ہے، جن لوگوں کو کبھی عدالتوں وغیرہ
میں جانے کا اتفاق ہوا ہے انہوں نے سنا ہوگا کہ جب کیس کی آواز پڑتی ہے تو
فوجداری مقدمات میں ”سرکار بنام فلاں“ کی آواز دی جاتی ہے کیونکہ مدعی
ریاست ہوا کرتی ہے، اس حوالہ سے ریاست کا سب سے اہم ستون ایگزیکٹو ہوتا ہے
جس کی سربراہی وزیر اعظم اور صدر کرتے ہیں۔ صدر زرداری، چیف جسٹس سے تو تب
اس طرح کی بات پوچھیں اگر انہوں نے تفتیشی اداروں اور پراسیکیوشن کے ادارے
جو حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں، ان سے صحیح کام لیا ہوتا اور ان کو ٹھیک طریقے
سے تفتیش کرنے دی ہوتی، اپنے اداروں پر عدم اعتماد کی ہی وجہ سے پہلے سکاٹ
لینڈ یارڈ سے تفتیش کرائی اور بعد ازاں یہ کیس اقوام متحدہ بھی بھیجا گیا،
دونوں جگہ اس قوم کے اربوں روپے ضائع کئے گئے لیکن نتیجہ کیا نکلا، بھات کے
وہی دو پات، اس وقت یہ کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چل رہا ہے
جہاں حکومت سات کے قریب نامکمل چالان پیش کرچکی ہے۔ حکومت اور پیپلز پارٹی
اس کیس کے حوالے سے خود لاتعداد تضادات کا شکار ہیں، کبھی قاف لیگ کو قاتل
لیگ کہا جاتا ہے اور بعد میں انہیں حکومت میں ساتھ بٹھا لیا جاتا ہے، کبھی
مشرف پر الزام لگایا جاتا ہے جبکہ اسے خود ہی سرخ قالین پر سلامی دے کر
بھیجا بھی گیا تھا، کبھی بیت اللہ محسود پر الزام لگتا ہے ، کبھی القائدہ
پر اور کبھی طالبان پر جبکہ خالد شہنشاہ کے قتل پر اس طرح چپ سادھ لی جاتی
ہے جیسے اس کے قتل کا بی بی کے قتل سے کوئی واسطہ، کوئی سروکار ہی نہ ہو۔
بی بی نے جن لوگوں پر اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا ان سے کوئی تفتیش
ہوئی، بی بی نے مارک سیگل کو جو ای میل کی تھی، وہ ایک طرح سے ایف آئی آر
تھی لیکن اس کی بابت آج تک کوئی جیالا نہیں پوچھ سکا ، بی بی کا پوسٹمارٹم
کس کے کہنے پر نہیں ہوا تھا، جب بی بی کا چہرہ کسی کو بھی نہ دکھانے کا
فیصلہ ہوچکا تھا تو پوسٹ مارٹم کیوں نہ کرایا گیا، کیا اس وقت چیف جسٹس نے
ایسا کرنے سے روکا تھا کسی کو۔ ایک مبہم اور مشکوک وصیت، جو کہ آج تک کسی
کو دکھائی ہی نہیں گئی، کی بنیاد پر شریک چیر پرسن شپ بھی اپنے پاس ہے اور
صدر کا عہدہ بھی۔ اعمال اپنے ٹھیک نہیں اور سوال کئے جارہے ہیں عدلیہ سے،
وہ بھی شہنشاہ جذبات بن کر، ”جج صاحب....“ اس حکومت نے عدلیہ کی کوئی بات
مانی کب تھی، اگر این آئی سی ایل سکینڈل کی بات کریں تو ظفر قریشی کو رلا
دیا گیا لیکن اسے تفتیش نہیں کرنے دی گئی۔ این آر او عملدرآمد کیس کا جو
حال ہوچکا ہے وہ سبھی جانتے ہیں، جس خط کے لئے سپریم کورٹ عرصہ دراز سے چیخ
رہی ہے وہ کہاں گیا؟ میمو گیٹ سکینڈل پر بھی حکومت کا رویہ سب کے سامنے ہے،
ایک طرف سپریم کورٹ کی آزادی سلب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، اسے ملعون اور
مطعون کیا جارہا ہے تو دوسری طرف فضول قسم کی جواب طلبی کی جارہی ہے، برسی
پر سیاسی نمبرز اپنی جگہ لیکن کچھ تو خدا کا خوف بھی ہونا چاہئے، وہ وقت
بھی دور نہیں اور نہ ہی اسے ٹالا جاسکتا ہے جب اس ملک کے عوام اور خصوصاً
”جیالے“ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ”صدر صاحب! بی بی کے قاتلوں کا
کھرا اسلام آباد کے ایک انتہائی اہم علاقے میں جارہا ہے، ان کے قاتلوں کو
بے نقاب ہونے دیں اور اگر وہ وقت آگیا تو پھر زرداری صاحب اسی طرح دبئی سے
واپس نہیں آپائیں گے اور اگر جا ہی نہ پائے تو ایک بار پھر فلموں کی طرح
عدالتوں میں ”جج صاحب ، جج صاحب....! کہہ رہے ہوں گے۔ |