صدر کا مواخذہ اور درویش وزیراعظم

امام غزالیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اُس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے جب تک کوئی مہمان نہ آجاتا۔ ایک دن ایک مہمان آیا ۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ مجوسی ہے یعنی آگ کو پوجنے والا ہے۔ اس پر حضرت ابراہیمؑ نے سخت نفرت کا اظہار کیا اور اُسے کھانا نہ کھلایا۔ اُس رات جب سوئے تو خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”اے ابراہیمؑ تم ایک دن بھی مجوسی کو کھانا نہ کھلا سکے حالانکہ ہم اُس کے کافر ہونے اور گناہگار ہونے کے باوجود برسوں سے اُسے رزق دے رہے ہیں۔“

قارئین! تاریخِ انسانی کا مطالعہ کریں تو دارا اور سکندر سے لے کر زرداری اور اوبامہ تک بڑے بڑے بادشاہ اور اسی طرح یونان و ایران سے لے کر برطانیہ اور امریکہ تک بڑی بڑی شان و شوکت والی مملکتیں تاریخ کے صفحو ں میں محفوظ ہیں۔ ایسے ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اس دنیا میں جنت تخلیق کرنے کی کوشش کی اور ایسے ایسے ظالم بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانے کے لیے اولمپکس جیسی کھیلوں کا آغاز کیا کہ قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر کھیل تماشے کی طرف لگا دی جائے۔عبرت کی نگاہ سے اگر ہم ذرا سا غور کریں تو گزرتا ہوا ہر لمحہ کئی کئی سبق دیتا ہوا گزر رہا ہے۔

قارئین! آج کی اس حکایت میں اللہ کے ایک برگزیدہ پیغمبر کا واقعہ اور اُس پر خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ایک سبق ہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے لیکن آج کے پسِ منظر کو بیان کرنے کا مقصد چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان افتخار چوہدری کی طرف سے یہ الفاظ ادا کرنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ صدر پاکستان کا مواخذہ کرے۔ اس کے لیے اور ادارے موجود ہیں۔ہاں سپریم کورٹ آف پاکستان میمو گیٹ سکینڈل کی پوری تحقیقات کرے گی اور اس کے مجرموں کو سامنے لا کر رہے گی۔

قارئین! گڑھی خدا بخش میں صدرِ پاکستان کا خطاب جوش سے بھرپور اور ہوش سے عاری تھا۔ایک طرف وہ سپریم کورٹ کو للکارتے رہے کہ جو کرنا ہے کر لو ہم دیکھ لیں گے اور دوسری جانب عوام سے درخواست کرتے رہے کہ بی بی شہید نے بھی مجھ پر اعتماد کیا تھا آپ بھی مجھ پر اعتماد کریں۔ اشاروں اشاروں میں انہوں نے تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی کلاس بھی لی اور نواز شریف کو بھی مناسب مرمت سے نوازا۔ہاں اپنے اتحادی جناب الطاف حسین کے متعلق ان کے لہجے میں شیرینی گھلی ہوئی تھی۔صدرِ پاکستان کے اس خطاب کو پورے پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کاروں نے درمیانے درجے کا ایک خطاب قرار دیا اور اُن کی پرفارمنس کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی کے متعلق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے جب ایک جیسے سوالات کئے گئے تو کئی لطیفوں نے جنم لیا۔ وزیر اعظم کچھ فرما رہے تھے اور سیالکوٹ ایکسپریس کا بیان کچھ اور تھا۔الیکٹرانک میڈیا پر جب وہ کلپس دکھائے گئے تو پورے پاکستان میں لوگ پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے رہے۔ ویسے اس حکومت کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ یہ انتہائی سنجیدگی سے لوگوں کی تفریحِ طبع کا سامان مہیا کر دیتے ہیں اور اپنی بے عزتی بھول کر چند دنوں بعد ایک نیا عملی لطیفہ تراش کر لوگوں کے سامنے لے آتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ جلد ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میمو گیٹ سکینڈل کے نتائج تک بھی پہنچے گی اور این آر او کے متعلق بھی حتمی فیصلہ صادر کرے گی اور پیش بینی کرنے والے عقل مند لوگ درختوں کی شاخوں سے اُڑ اُڑ کر اس وقت نئے آشیانوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ویرانی چمن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار پر بیٹھی بلبلوں کا کیا ہو گا۔

قارئین! یہاں پہ ہم اپنے کالم کے عنوان کے دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں۔ آزادکشمیرکے درویش وزیر اعظم چوہدری عبد المجید نے راقم کو FM93ریڈیو آزادکشمیر پر اس ہفتے دو مرتبہ انٹرویو دیا۔ چوہدری عبد المجید کے ان انٹرویوز میں مہمانوں کی حیثیت سے پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میرپور میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر میاں عبد الرشید، وائس پرنسپل پروفیسر اشرف نظامی، پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر ریاست علی چوہدری، سٹی فورم کے چیئرمین ڈاکٹر سی ایم حنیف ، بانی ادارہ امراضِ قلب حاجی محمد سلیم، ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر ممتاز دُرانی نے بھی شرکت کی۔ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خا ن نے انجام دیئے۔ وزیر اعظم چوہدری عبد المجید نے کہا کہ ڈاکٹر سی ایم حنیف نے میڈیکل کالج کی خوشی میں چوک شہیداں میں جو لنگر بانٹنے کا اعلان کیا ہے میں اس لنگر میں اپنے ساتھیوں سمیت شرکت کروں گا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بی بی شہید کا وعدہ پورا ہونے کی خوشی میں عوام کے ساتھ لنگر میں شریک ہوں گا۔انہوں نے کہا کہ تاج وتخت ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہماری جڑیں عوام میں ہےں۔ عوام کو سہولت دینا پہلی اور آخری ترجیح ہے۔چوہدری عبد المجید نے کہا کہ حاجی محمد سلیم نے ذاتی جیب سے پانچ کروڑ سے زائد رقم خرچ کر کے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنایا ہے اور اُن کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ اس کا انتظام چلانے کے لیے بورڈ آف گورنرز بنایا جائے۔ حاجی محمد سلیم میرے دوست بھی ہیں اور بزرگ بھی ۔ میں جلد ہی اُنکے گھر پر حاضری دوں گا اور بورڈ آف گورنرز بنانے کے احکامات جاری کروں گا۔ چوہدری عبد المجید نے یہ بھی کہا کہ چند سابق وزرائے اعظم میڈیکل کالج کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ ایک طفلانہ حرکت ہے ۔میرپور میڈیکل کالج بنانے کا سہرا میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی اور میرپور کے عوام کے سر ہے جنہوںنے تمام سیاسی تقسیموں سے بے نیاز ہو کر اس میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے ساتھ مل کر اپنی منزل حاصل کی۔

قارئین وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے خود کو درجنوں مرتبہ مجاور کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔ آج کے کالم میں ہم اُنہیں”درویش وزیرِ اعظم“ کا لقب دے رہے ہیں۔ رہی بات میرپور کے عوام کی تو وہ تو 64سالوں سے ہر حکومت کے دوران زیادتیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور اُن کو جائز حقوق سے محروم رکھاگیا ہے۔بقول غالب
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا!
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے

قارئین ! چوہدری عبد المجید وزیر اعظم آزادکشمیر نے ان دونوں انٹرویوز میں میرپور میڈیکل کالج کے قیام کا سہرا میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی ، ڈاکٹرز ، انجینئرز، وکلائ، انجمن تاجران، صحافیوں اور میرپور کے تمام شہریوں کے سر باندھ دیا حالانکہ یہ بات بالکل درست ہے کہ چوہدری عبد المجید ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے کئی سال کی جدوجہد کے بعد یہ میڈیکل کالج عملی شکل میں منظور کروایا۔درویش وزیر اعظم کی یہ کسرِ نفسی دلوں کو جیتنے والی ہے۔ یہاں ہم چوہدری عبد المجید سے اپیل کرتے ہیں کہ لارڈ نذیر احمد جو پوری اُمتِ مسلمہ کا قابلِ فخر اثاثہ ہیںاُن سے بے بنیاد سیاسی لڑائی ختم کر دیں اور صلح کر لیں۔لارڈ نذیر احمد کی خدمات کو کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا اور بے نظیر بھٹو شہید بھی لارڈ نذیر احمد کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ہم نے نوٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم چوہدری عبد المجید کے ارد گرد موجود مرض سے ناآشنا اور بصیرت سے عاری کچھ نیم حکیم اُنہیں اُلٹے سیدھے مشورے دے رہے ہیں جس سے حالات بگڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے نالائق مشیروں سے جان چھڑوائیں اور اپنی انقلابی طبیعت کے مطابق لارڈ نذیر احمد کو گلے سے لگائیں۔ یہ ہمارا نہیں بلکہ پوری کشمیری اور پاکستانی قوم کا مطالبہ ہے۔اُمید ہے کہ ہمارے اس مخلصانہ مشورے پروہ عمل کریں گے۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک معصوم دیہاتی لڑکا شہر گیا۔ اُس نے ایک شرارتی شہری لڑکے سے پوچھا کہ میں نے کھانا کھانا ہے کوئی ہوٹل تو بتاﺅ۔ شہری لڑکے نے شرارتاً عدالت کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ ہوٹل ہے۔
دیہاتی عمار ت کے اندر چلا گیا اور وہاں جا کر اُونچی آواز میں بولا۔ مجھے بھوک لگی ہے۔جج صاحب نے کہا”آرڈر.... آرڈر ....آرڈر....
دیہاتی نے کہا۔
”تین روٹیاں اورایک پلیٹ دال“

قارئین! یقینا ہمیں بھی سمجھنا ہو گا کہ کس چیز کا کیا مقام ہے اور کس کو کس انداز سے مخاطب کرنا ہے۔ادب و آداب اور دانشمندی کے بغیر کئے جانے والے کاموں کا انجام درست نہیں ہوتا۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339737 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More