بات کی سچائی
مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید کی بہن خلال بانو ایک مرتبہ سخت بیمار ہوئی
جبرئیل بن بحتیشوع علاج پر مامور تھا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ خلیفہ اپنی
بہن کی بیماری سے بہت فکرمند تھا لہٰذا ایک دوسرا طبیب یوحنا بن ماسویہ کو
علاج کیلئے بلایا گیا ماسویہ نے جبرئیل سے علاج کی تفصیل پوچھی تو یہ پایا
کہ جبرئیل کا علاج بالکل صحیح ہے۔ پھر اس نے خود مریضہ کا معائنہ کیا اور
کہا کہ میرا خیال ہے کہ پرسوں آدھی رات سے پہلے یہ انتقال کرجائے گی۔
جبرئیل نے جب یہ سنا تو کہا کہ بالکل غلط ہے یہ صحت یاب ہوکر عرصے تک زندہ
رہے گی۔ لیکن ماسویہ کا یہ قول بالکل صحیح ثابت ہوا اور اس نے جو وقت مریضہ
کی موت کا بتایا تھا ٹھیک اسی وقت اس نے دم توڑ دیا۔
مسہل سے سے دستوں میں فائدہ
خلیفہ مامون رشید کے زمانہ میں ایک شخص کو دستوں کی شکایت ہوئی دن میں
پچاسوں مرتبہ دست آنے لگے جس سے حالت بگڑ گئی حکیم بختیشوع کو علاج کیلئے
بلایاگیا اس نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ دست بند ہوجائیں مگر کوئی تدبیر
کام نہ آئی بالآخر اس نے مایوس ہوکر مریض کو دست آور دوا پلادی جس سے ایک
دن تو خوب دست آئے مگر دوسرے دن سے طبیعت سنبھلنے لگی اور دست بھی بند
ہوگئے۔ لوگوں نے حکیم سے اس علاج کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ
دستوں کا اصل سبب فاسد مادہ تھا جو دست آور دوا کے استعمال سے خارج ہوگیا۔
عورت کے چہرے پر داڑھی
خلیفہ متوکل عباسی کی ایک کنیز بہت خوبصورت تھی خلیفہ اس پر جان دیتا تھا
ایک دن وہ حمام سے نکلی تو اسے کچھ سستی معلوم ہوئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر
تن گئی لیکن جب ہاتھ نیچے کرنا چاہا تو ایسا نہ کرسکی۔ دونوں ہاتھ اٹھے کے
اٹھے رہ گئے۔ خلیفہ کو یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا فوراً اطباءجمع کیے گئے سب
نے دیکھ کر یہی کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ وزیر نے عرض کیا کہ کوفے
میں ابن صاعد نام کا ایک حاذق طبیب ہے جو اس کا علاج کرسکتا ہے چنانچہ ابن
صاعد کو طلب کیا گیا اس نے کنیز کی جب یہ حالت دیکھی تو خلیفہ سے کہا کہ یہ
اچھی تو ہوجائے گی مگر ایک شرط ہے۔ خلیفہ نے شرط پوچھی تو اس نے کہا کہ
میرا ایک شاگرد ہے وہ اس کے پورے بدن پر تیل ملے گا جو میں نے خود تیار کیا
ہے۔ خلیفہ نے خفگی سے کہا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میری کنیز کے بدن پر
کوئی غیرمرد مالش کرے۔ ابن صاعد نے کہا صرف اسی طریقے سے ہی اس کا علاج
ہوسکتا ہے۔ خلیفہ کو مجبوراً یہ شرط منظور کرنا پڑی۔
ابن صاعد کے حکم سے کنیز برہنہ کردی گئی اور دفعتاً اس کے سامنے ابن صاعد
کا شاگرد بلایا گیا کنیز نے جب اجنبی مرد کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی
ہوگئی‘ رگوں میں خون نے جوش مارا اور وہ اپنے کپڑوں کی طرف دوڑی اور جلدی
سے سترپوشی کی اب اس کے ہاتھ ٹھیک ہوچکے تھے۔
خلیفہ کو بہت خوشی ہوئی اس نے ابن صاعد کو انعام دینے کا حکم دیا مگر ابن
صاعد نے کہا کہ میں اس وقت انعام لوں گا جب کہ میرے شاگرد کو بھی انعام دیا
جائے گا کیونکہ اصلی انعام کا مستحق وہی ہے۔ خلیفہ کے بلانے پر شاگرد حاضر
ہوا اس کی لمبی داڑھی کو دیکھ کر خلیفہ کو تعجب ہوا ابن صاعد نے آگے بڑھ کر
شاگرد کے منہ پر لگی داڑھی کو کھینچ لیا۔ داڑھی الگ ہوگئی خلیفہ نے دیکھا
کہ اب اس کے سامنے مرد نہیں عورت کھڑی ہے۔ خلیفہ یہ جان کو بہت خوش ہوا کہ
ابن صاعد نے ایک عورت کے چہرے پر داڑھی لگوا کر اس کی عزت رکھی ہے اور کنیز
کو اجنبی مرد کے سامنے نہیں کیا۔ ابن صاعد اور اس عورت کو خلیفہ کی طرف سے
بہت سا انعام عطا کیا گیا۔ |