اس کی عمر ابھی صرف سولہ سال تھی
کہ ایک دن پاس کی چھاﺅنی سے اس کے گھر والوں کو اطلاع دی گئی کہ اس کابڑا
بھائی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑتا ہوا شہید ہو گیا ہے۔جذبہ اپنی جگہ
لیکن ماں باپ بہن بھائی بیوی بیٹوں اور بیٹیوں کے کچھ جذبات بھی ہوتے
ہیں۔میت گھر میں اتری تو یہ سب لوگ جہاں ایک شہید کے وارث ہونے پہ تفاخر کے
احساس سے مالا مال تھے وہیں انسانی احساسات و محسوسات کی بنیاد پہ ان کے دل
کرچی کرچی تھے۔گھر کیا پورے علاقے میں سوگ کاعالم تھا۔جواں موت پہ دوست کیا
دشمن بھی نوحہ کناں تھے۔پورا علاقہ اور چھاﺅنی کے بڑے فوجی افسر بھی پرسہ
دینے اس کے گھر آئے تھے۔نماز جنازہ پڑھی گئی ۔لوگوں نے اس کے بوڑھے باپ سے
تعزیت کی۔قبر پہ پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔ ایک ایک کر کے سب لوگ چلے گئے
اور وہ بھائی کی قبر پہ اکیلا کھڑا رہ گیا۔اس نے بڑے پیار سے بھائی کی قبر
کی مٹی برابر کی ۔ادھر ادھر سے نرگس کے کچھ پھول توڑ کے بھائی کی قبر پہ
رکھے ۔ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا پھر جھک کے قبر کی مٹی چومی۔بھائی کو خدا
حافظ کہا اور گھر لوٹ آیا۔
ان کا خاندان گاﺅں کا متمول نہیں تو اچھا کھاتا پیتاضرور تھا۔زمین بھی تھی
اور ڈھور ڈنگر بھی۔گزر بسر اچھی ہوتی تھی لیکن دادا جس نے تحریک پاکستان
میں ہندو بلوائیوں سے لڑتے ہوئے اپنا ایک بازو کٹوایا تھا، اس کی خواہش تھی
کہ میری نسل میں سے کم از کم ایک بچہ اس پاکستان کی حفاظت کے لئے ضرور پیش
کیا جائے جسے بنانے کے لئے اس نے اپنا بازو قربان کیا تھا۔ اسی خواہش کے
احترام اور پاکستان کے ساتھ محبت کے اسی جذبے کے تحت اس کا باپ فوج میں
بھرتی ہوا تھا۔باپ ریٹائر ہوا تو اپنے بزرگوں اور ان کی خواہشوں کا ادب و
احترام کرنے والے اس خاندان نے باپ کی جگہ بیٹے کو پیش کر دیا تھا۔بیٹا بھی
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے ہنسی خوشی اور برضاو
رغبت سر مقتل روانہ ہو گیا تھا۔اس نے اپنے دادا اور باپ کی روایات کو بٹہ
نہیں لگنے دیا اور شہادت کا تاج سر پہ سجائے گھر لوٹا تھا۔دادا کے بازو سے
شروع ہونے والی قربانی پوتے کے لہو پہ آکے مکمل ہو گئی تھی۔خاندان مطمئن
تھا کہ انہوں نے پاکستان کی تعمیر اور تکمیل میں اپنے حصہ ڈال دیا ہے۔ اب
ان کے خاندان میں ایک ہی بیٹا تھا جسے وہ اعلٰی تعلیم دلانا چاہتے تھے تاکہ
نسل بھی چلتی رہے اور اسلام اور پاکستان کی حفاظت کے لئے جان قربان کرنے کی
روایت بھی۔
بچ جانے والے اس اکلوتے بچے نے لیکن سولہ سال کی عمر میں ہی بھائی کی قبر
پہ کھڑے ہو کے یہ عہد کر لیا تھا کہ وہ بھی ایک دن اپنے بھائی کی طرح اسلام
کی سر بلندی اور وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرے گا۔اس نے کسی کتاب
میں پڑھا تھا کہ نرگس کے پھول انتظار کا استعارہ ہوتے ہیں۔اس نے بھائی کی
قبر پہ نرگس کے پھول رکھ کے سوچا تھا کہ بھائی جنت میں میرا انتظار
کرنا۔میں تمہارے ہی نقش پا پہ چل کے جنت میں تم سے آملوں گا۔ابھی اس نے ایف
ایس سی کا امتحان بھی نہیں دیا تھا کہ گھر والوں کو بتائے بغیر ایک دن وہ
ریکروٹنگ آفس میں ریکروٹنگ آفیسر کے سامنے کھڑا تھا۔وہ سپاہی بھرتی ہونا
چاہتا تھا ۔مہربان آفیسر نے اسے دیکھا پرکھا اور مشورہ دیا کہ اسے کمیشن کے
لئے اپلائی کرنا چاہئے۔ وہ ایک لائن سے نکل کے دوسری لائن میں کھڑا ہو
گیا۔گھر والوں کو اس کے فوج میں جانے کی خواہش کا اس دن علم ہوا جس دن اسے
آئی ایس ایس بی سے ٹیسٹ اور انٹرویو کی کال موصول ہوئی۔
بے روزگاری کے اس بلا خیز موسم میں کمیشن ملنے کی امید ایک بڑی خبر ہوتی ہے
لیکن سوائے اس کے باپ کے اس کے سبھی گھر والوں نے اسے روکنے کی پوری کوشش
کی۔ماں کی ممتا اپنے حصے کا خراج ادا کر چکی تھی۔بہنیں پہلے ہی ایک بھائی
قربان کر چکی تھیں وہ سوچتیں اب دوسرا بھی۔سوچ ہی کے دل حلق کو آتا
تھا۔غازی باپ نے البتہ بیٹے کی پیٹھ تھپکی اور بیٹے کو اہتمام سے رخصت کر
دیا۔
اس کی سلیکشن اور پاکستان ملٹری اکیڈمی میں اس کی ٹریننگ کے دو سال جیسے
پلک جھپکتے گزر گئے۔اس نے اعزاز کے ساتھ اپنی تربیت مکمل کی اور اسے افواج
پاکستان میں کمیشن مل گیا۔جان جثہ تو اس کا شروع ہی سے خوب تر تھا فوج کی
تربیت نے اسے کندن بنا دیا۔جدھر سے گزرتا لوگ مڑ مڑ کے اسے دیکھا کرتے۔ گھر
آتا تو ماں واری جاتی اور بہنیں قربان۔ یونٹ میں بھی سبھی اس کی صلا حیتوں
اور اخلاق کے دیوانے تھے۔بڑے چھوٹے سبھی اس سے پیار کیا کرتے۔وہ صحیح معنوں
میں ایک قائد تھا۔وہ ہر اس مرحلے سے گزرا تھا جس سے اس کے جوان گزرتے
تھے۔وہ خود ایک سپاہی کابیٹا تھا اس لئے سپاہیوں کے احساسات سے بھی بخوبی
واقف تھا۔وہ اپنے جوانوں کی بات ان کے کہنے سے پہلے جان جاتا تھا۔ان خوبیوں
نے اسے سب کی آنکھ کا تارہ بنا دیا تھا۔
اس نے اپنے کندھوں پہ کپتانی سجائی تو ماں نے ایک دن اس کے سر پہ سہرا سجا
دیا۔ شادی کو ابھی پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی یونٹ کو پاکستان کے
شمال مغربی صوبے میں ذمہ داریاں مل گئیں۔ وہ اپنی بیگم کو گھر چھوڑ کے واپس
لوٹا تو یونٹ کو وار لوکیشن تک پہنچانے میں جت گیا۔جب یونٹ اپنی ذمہ داری
کی جگہ پہ پہنچ گئی تو اس نے اپنے کمپنی کمانڈر سے کہہ کے سب سے مشکل جگہ
پہ اپنی ڈیوٹی لگوائی۔انہی دنوں اسے اطلاع ملی کہ وہ ایک پھول سی بچی کا
باپ بن گیا ہے۔اس کی خوشی دیدنی تھی ۔وہ اڑ کے اپنی بچی کے پاس جانا چاہتا
تھالیکن سرحدوں کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ چھٹی مانگتا۔اس حالت میں جوانوں
کو چھوڑ کے جانا اس کی حمیت کو گوارا نہ تھا۔پھر ایک دن اس کی پوسٹ پہ
میزائیل اور راکٹس کی بارش شروع ہو گئی۔اسے دشمنوں کی جانب سے استعمال کئے
جانے والے اسلحے اور جہازوں سے یہ اندازہ ہو گیا کہ اس پہ حملہ آور دشمن
نہیں ،دوست نما دشمن ہے۔اس نے اپنے پاس موجود اسلحہ سے مزاحمت کی کوشش تو
کی لیکن بندوق اورمیزائل کا کیا مقابلہ۔اس نے اپنے ہیڈ کوارٹر کو اس کی
اطلاع دی اور دوبارہ اپنے جوانوں اور اپنی سر زمیں کو دشمن کے ناپاک قدموں
سے بچانے کی سعی کرنے لگا۔صبح کے اجالے میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کا
سینہ گولیوں سے چھلنی ہے۔اس کی رائفل پہ اس کی گرفت ابھی بھی مضبوط ہے اور
اس کے چہرے پہ ایک ملکوتی مسکراہٹ ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ بھائی کہاں ہیں
میرے نرگس کے پھول۔دیکھو میں نے اپنا عہد پورا کر دیا۔
جب اس کی شہادت کی خبر اس کے گھر پہنچی تو اس کی بچی صرف چوبیس دنوں کی
تھی۔اس کی ماں اور اس کی بیوہ نے کوئی فریاد تو نہیں کی۔کہا تو بس اتنا کہ
کاش اس کی قربانی پاکستان کا مستقبل سنوار دے۔کاش ہم اپنے دشمن پہچان
سکیں۔لگتا ہے اس کی قربانی رنگ لا رہی ہے۔قوم نے اپنے دشمن پہچاننا شروع کر
دئیے ہیں۔اندر بھی اور باہر بھی۔حالات بدل رہے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ
قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔اسکا اور اس کے چوبیس دوسرے ساتھیوں کا خون
پاکستان کو ایک دن قوموں کی برادری میں سر اونچا کر کے کھڑا ہونے کے قابل
بنا دے گا۔وزیر اعظم صاحب! آپ کا ان شہیدوں اور غازیوں کی تنخواہیں ڈبل
کرنے کا شکریہ۔آپ یہ تنخواہیں ڈبل نہ کرتے تو ہمیں ایسے جری کہاں نصیب ہوتے۔
ڈبل تنخواہ مل رہی ہو تو گولی کے آگے سینے تاننا کتنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی
ڈبل تنخواہ پہ موسیٰ گیلانی کو بھی بھیجئے ناں لیکن رہنے دیجئیے اسے تو
ابھی جان کی حفاظت کے لئے کسی نے نوے کروڑ کی بلٹ پروف گاڑی دان کی ہے ۔شہیدوں
کے خون اور غازیوں کے زخموں پہ آپ کی ڈبل تنخواہ کی مرہم کی سخاوت کے لئے
ایک بار پھر شکریہ۔ |