جیالے کی خود کشی

اس نے اپنے کمرے میں ہر طرف اپنے قائدین کی چھوٹی بڑی تصاویر آویزاں کررکھی تھیں، ذوالفقار علی بھٹو،نصرت بھٹو اوربے نظیر بھٹو کی تصاویر سے کمرہ بھرا پڑا تھا۔ یہ تصاویر دراصل اس کے ذہن اوردل کی عکاسی کرتی تھیں، یہ اس کے جیالا ہونے کا مظہر تھیں، وہ جیالا جو اپنی پارٹی اور قائدین پر دل وجان سے فداتھا، اس کا ذہن بھٹو اور روٹی ، کپڑااور مکان والی پیپلز پارٹی میں اٹکا ہوا تھا، اس نے اسی دنیا کو اپنے خوابوں میں سجارکھا تھا، وہ تصورات کی دنیا میں جیتا اور اسی دنیا کی خواہش رکھتا تھا۔ حالات مگر اور ہی ڈگر پر چل نکلے، بے نظیر تک تو اس کی امیدوں کا دیا جلتارہا، پھرمایوسی نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ، لیکن اس نے ہمت سے مایوسی کو شکست دی۔

بے نظیر کے سانحہ ارتحال کے بعد اس کا دل ٹوٹ گیا ، اس کی امیدوں کے چراغ گل ہوگئے، اس کی آس کے دیئے بجھ گئے، اس کی تمنائیں خاک میں ملنے لگیں، اس کی خواہشات کا خون ہوگیا، اس کی آرزوئیں ہوا ہوگئیں۔ لیکن جو جیالا پن اس کے خون میں رچ بس چکا تھا، اسے نکالنا اس کے اپنے بس میں بھی نہ رہا تھا، ان مایوسیوں اور تاریکیوں کے باوجود اس نے پارٹی کا دامن نہیں چھوڑا، ہزار وسوسوں کے باوجود اس نے وفا کے چراغ جلاکر ناامیدیوں کو ہی مایوس کردیا، پارٹی کے ٹمٹماتے دیئے سے ہی روشنی حاصل کرتا رہا۔ لیکن تابہ کے؟ آخر پیمانہ صبر لبریز ہوگیا، اور امید کا دیا آخری مرتبہ بھڑکا اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔

جنوبی پنجاب کے دور دراز تاریخی قصبے اچ شریف سے تعلق رکھنے والے جیالے نے اس صبح اپنے گلے میں پھندہ ڈال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ، جس روز پارٹی اپنی لیڈر کی چوتھی برسی منانے کے لئے اس کی قبر پر جمع تھی ، حکومتی پارٹی ہونے کے ناطے پارٹی کے شریک چیئرمین( جو کہ مرحومہ کے شوہر نامدار بھی ہیں) سے لے کر عام کارکنان تک گڑھی خدابخش پہنچ کر اپنی قائد کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے، پھولوں کی چادریں چڑھا رہے تھے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور ان کے علم کو اٹھانے کے عزم کا اعادہ کررہے تھے، اسی روز اچ شریف کا جیالا ریاض احمد راہی مایوسیوں اور پریشانیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پھندے سے جھول گیا۔

ریاض احمد راہی کا مطالبہ یہ تھا کہ بے نظیر کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، اگر حکومت میں ہوتے ہوئے بھی یہ کام نہیں ہوسکتا تواس کی نوبت کب آئے گی؟ لیکن اس کا مطالبہ کون سنتا، اس کی آواز کہاں تک جاتی؟ اس کی معاشی حالت بھی پریشان کن تھی، اگرچہ وہ برگر کی ریڑھی لگاتا تھا ، مگر اس کا گزر بسر مشکل ہورہاتھا، نوبت فاقوں تک آچکی تھی۔ وہ بیمار بھی رہنے لگاتھا، پارٹی عہدیداروں کی طرف سے مسلسل نظر انداز کئے جانے کے رویوں سے وہ نالاں تھا۔ جہاں وہ بے نظیر کو یاد کرکرکے روتا تھا، وہاں وہ اپنے قائدین کے منفی اور خشک رویے سے بھی پریشان اور مایوس تھا۔

بادشاہوں سارہن سہن رکھنے والے حکمران کیا جانیں کہ غربت اور فاقہ کشی کیا ہوتی ہے، ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیئے ، ان کی عیاشیاں جاری ہیں، ان کے لاکھوں روپے روزانہ کا خرچہ ان کی جیب سے ادا نہیں ہوتا ۔ جو حکمران اپنی پارٹی کے ایک ایسے جیالے کو بھی دو وقت کی روٹی اور علاج معالجے کی سہولت نہیں دے سکے ، جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی پارٹی سے محبت کو قرار دے رکھا تھا، جس نے پارٹی کی محبت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے شادی بھی نہیں کی تھی ،اس کو پارٹی خودکشی سے نہیں بچاسکی تو پوری قوم کا کیا حال ہوگا؟ اس عوام کا پرسان حال کون ہوگا جو نظریاتی یا سیاسی طور پر پی پی کے خلاف ہیں؟نظام سلطنت چلانے میں اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات حکمرانوں کی نظر میں آتے بھی نہیں، نہ ان پر کوئی توجہ دیتا ہے، کہ حکمرانوں کی توجہ مالِ غنیمت سمیٹنے پر ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 439354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.