تین دسمبر ۱۱۰۲ کو سعودی شہزادے
طلال بن عبد العزیز نے اپنی رہائش گاہ پر تین سعودی اہم شخصیات سے ملاقات
میں ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا کہ قطر سعودی عرب کو تقسیم کرنا چاہتا ہے
اورقطر کو اس حوالے سے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ذرائع کے
مطابق سعودی شہزادے کا کہنا تھا: سعودی عرب اور قطر کے درمیان عنقریب
خونریز جھڑپوں اور شدید جھگڑوں کا آغاز ہونے والا ہے۔ شہزادہ امیر طلال بن
عبدالعزیز نے قطری حکام کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا : قطر
کا حکمران خاندان عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پالیسیوں پر
عملدرآمد کررہا ہے اور امریکہ نے خطے میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے
قطر کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں سعودی
عرب کو تقسیم کر کے اردن کے حوالے کیا جائے گا جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کو
رکھا جائے گا۔ سعودی شہزادے طلال کے مطابق اس امریکی منصوبے کے تحت سعودی
عرب کو صرف مکہ اور مدینہ پر مشتمل ایک چھوٹی سی ریاست میں تبدیل کر دیا
جائے گا۔
شہزادہ طلال نے سعودی عرب میں جاری حالیہ مظاہروں کو بھی قطر کی سازشوں سے
جوڑنے کی کوشش کی اور کہا :سعودی عرب میں آل ثانی کی سازشیں ایسے وقت میں
سامنے آرہی ہیں کہ بعض علاقوں میں تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
دریں اثناءمڈل ایسٹ آن لائن میں شائع ایک رپورٹ میں بھی شہزادہ طلال بن
عبدالعزیز کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا :قطری شیخ کو امریکہ،
اسرائیل اور برطانیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پیرس میں ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ امیر قطر نے دو
فرانسیسی اہلکاروں کے ساتھ ایک ضیافت میں کہا : ان کا خاندان آل ثانی یہ حق
رکھتا ہے کہ سعودی عرب میں اقتدار سنبھالے۔ ضیافت کے شرکاءسے مخاطب ہوتے
ہوئے شیخ آل ثانی کا کہنا تھا : ان کے آباﺅ اجداد نجد کے رہنے والے تھے اور
حمد آل ثانی نے نجد سے ہجرت کی تھی چنانچہ ان کی اولاد اور پوتوں پڑپوتوں
کو یہ حق حاصل ہے کہ ہر ممکنہ روش سے سعودی عرب کا اقتدار حاصل کریں۔
قطر کی جانب سے نجدی حکمرانوں کے خلاف سازش بے نقاب ہونے کے بعد نجدی
حکمران قطری شیخ پر غضبناک ہوئے ہیں اور انھوں نے قطر کے اندر ہی آل ثانی
خاندان کے لئے اشتعال انگیز اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔
دریں اثناءآل سعود کے اندرونی حلقوں میں بعض سعودی شہزادوں پر بھی الزام
لگایا گیا ہے کہ وہ آل سعود کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی علالت سے
ناجائز فائدہ اٹھا کر امریکہ کے اشاروں پر قطر کے آل ثانی خاندان کی پیروی
کررہے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آل ثانی خاندان نے وہابیت سے اپنی وفاداری کا
اعلان کرکے نجدی حکمرانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا ہے۔ امیر قطر شیخ حمد
آل ثانی نے دوحہ میں قطر کی سب سے بڑی مسجد کے افتتاح کے موقع پر وہابیت کا
پرچار کرتے ہوئے ہوئے کہا :دنیائے اسلام کو وہابیت کے تجربے سے استفادہ
کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ دوحہ میںحال ہی میں بننے والی مسجد کو وہابی مسلک کے پیشوا
”محمد بن عبدالوہاب النجدی“ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ایک لاکھ پچھتر
ہزار مربع میٹر کے رقبے پر تعمیر ہونے والی مسجد محمد بن عبدالوہاب کا
افتتاح کرتے ہوئے قطر کے شیخ نے کہا: ریاست قطر کے بانی اور ہمارے جد امجد
جو عالم دین بھی تھے اور حاکم بھی تھے، ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے محمد
بن عبدالوہاب کی دعوت قبول کرلی اور اس کو قطر اور بیرونی دنیا میں رائج
کیا اور اپنے آپ کو ہندوستان میں وہابیت کی تبلیغ و ترویج کا ذمہ دار قرار
دیا۔
مسجد کے افتتاح کے موقع پر شیخ آل ثانی نے مزیدکہا : آج اسلامی امت کو اپنے
عقائد پر نظر ثانی کرنے اور دین کے تحفظ کے حوالے سے وہابیوں کے عزم و
اہتمام سے سبق لینا چاہئے اور وہابیت کی برکت سے رونما ہونے والی تبدیلیوں
کو مدنظر رکھ کر وہابیت کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
دریں اثناءقطر کے عوام کی رائے یہ ہے کہ یہ مسجد جو قطر کے قومی دن کے موقع
پر عوام کے لئے کھولی گئی ہے ریاست قطر کے بانی شیخ جاسم بن محمد آل ثانی
کے نام سے منسوب کی جانی چاہئے تھی کیوں کہ قطری عوام کے مطابق شیخ جاسم بن
محمد آل ثانی کے نظریات محمد بن عبدالوہاب کے نظریات و عقائد سے متصادم رہے
ہیں۔جبکہ شیخ آل ثانی نے عوام کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے
ہوئے کہا: ہم نے اس مسجد کو مسجد محمد بن عبدالوہاب کا نام اس لیے دیا ہے
کہ محمد بن عبدالوہاب ایک عظیم مصلح، بڑے عالم اور اپنے زمانے کے مجدد تھے
۔ ہمارے اس اقدام کا مقصد ان علماءکی تکریم و تعظیم بھی ہے جو ان کے تفکرات
کو بدستور فروغ دے رہے ہیں اور اسلام و مسلمین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
قطر کے حاکم شیخ حمد بن جاسم آل ثانی نے سعودی عرب کے شہزادے طلال بن عبد
العزیز کی جانب سے قطر پر لگائے گئے الزامات کی تردید کے بجائے اپنے حالیہ
انٹرنیٹ پر دیے گئے بیان میں بھی اس بات کا تذکرہ کیاہے : امریکہ اور اس کے
حواری علاقے میں سعودی عرب کی حکمرانی کو ختم کر کے علاقے میں قطر کا اثر و
رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں ۔ یہی نہیں قطر کے حاکم کا یہ بھی کہنا تھا : بہت
جلد سعودی عرب میں عوامی انقلاب نمودار ہوگا۔
ان تمام اطلاعات سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ دونوں ممالک علاقے میں اپنا
اثر و رسوخ بنانے اور امریکہ کا منظور نظر بنے رہنے کے لیے ایک دوسرے کے
خلاف سازشوں میں مصروف ہیں جس کا فائدہ بہرحال استعمار کو ہی ہوگا اور جلد
یا بدیر دونوں حکمران خاندان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ |