سیاست دان قوم کو لوٹنے کے یک نکاتی فارمولے پر متفق

حکومت نے گیس بم گراکر شہریوں کو سال نو کا تحفہ دے دیا۔ سوئی نادرن گیس نے 2 ہزار سے زائد کارخانوں کو گیس کی فراہمی غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کردی ہے جبکہ باقی 2 ہزار صنعتوں کو بھی آج سے گیس سپلائی معطل کردی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوگئے ہیں اور وہ سراپا احتجاج ہیں جبکہ تاجروں نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور حکومت کی جانب سے آج سے پیٹرول مزید مہنگا کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ایک عرصے سے پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد اضافہ کرنا حکومت کی مستقل پالیسی بن چکی ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے منہ سے آخری نوالہ چھیننے کے لیے یہ فارمولا وضع کرلیا ہے کہ اگر بنیادی ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں بڑھادی جائیں تو باقی چیزوں کی قیمتیں بھی خود بخود بڑھ جائیں گی۔

توانائی بحران، صنعتوں کی بندش، کئی کئی گھنٹے بجلی و گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری کی نئی اٹھنے والی لہر سے موجودہ حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا توحکومت کے استحکام کو زبردست خطرات لاحق ہوگئے ہیں لیکن اس صورت حال پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی معنٰی خیز ہے۔ حزب مخالف کی جماعتوں کی عوام سے لاتعلقی اور بیزاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بھی قوم کو ریلیف دلانے اور حکمرانوں پر دباﺅ بڑھانے کے لیے آواز نہیں اٹھار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے بھی بجلی و گیس بحران پر قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کرکے رسمی سا احتجاج کیا اور اس کے بعد پھر خاموشی چھاگئی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگانے والے وزرا سے کوئی تو پوچھے کہ آپ نے توانائی بحران سے نمٹنے، صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کرنے، لاکھوں مزدوروں کو بیروزگار کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے قبل پارلیمنٹ کے ارکان سے مشاورت کیوں نہیں کی؟اگر پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے ہی سارے فیصلے کرنے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کی بالادستی کی نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں؟

موجودہ حکمرانوں نے عوام کے لیے بنیادی سہولیات کا حصول اتنا پیچیدہ کردیا ہے کہ عام شہری کی سمجھ میں نہیں آرہا وہ اپنا گھر اور کاروبار زندگی کیسے چلائے۔ آئے روز مہنگائی کا ایک نیا سونامی غریبوں کی امیدوں اور حسرتوں کو اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔ موجودہ توانائی بحران حکمرانوں کی کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تحت ہونے والے حالیہ سروے میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت کی سیاسی ہمدردیوں سے پاکستان میں کرپشن کا گراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان ریلوے، پی آئی اے اور اسٹیل مل سمیت دیگر قومی اداروں کو حکمرانوں کی لوٹ مار نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ کرپشن و بدعنوانی کا زہر پوری قوم کے رگ و ریشے میں اترچکا ہے جبکہ حکومتی سطح پر بھی احتساب کے فقدان کے باعث صورت حال دگرگوں ہوتی جارہی ہے، لیکن حکمران اس پر قابو پانا چاہتے ہیں اور نہ ہی کرپشن کی روک تھام کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

آج یکم جنوری 2012ءکا سورج طلوع ہوا ہے۔ اگر ہم موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک اور ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے۔2011ءکا اختتام وطن عزیز کو اس دور کی یاد دلارہا ہے جب انسان لکڑی اور کوئلے کا استعمال کرتے تھے۔ جب لوگ ذرائع آمد و رفت سے نابلد تھے۔ آج موجودہ حکمرانوں کے کرتوتوں کے باعث وطن عزیز کو پتھروں کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔ عوام باالخصوص غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہا ہے۔ اس قوم کا محنت کش مہنگائی کی چکی میں مسلسل پستا چلاجارہا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ، سی این جی اسٹیشنوں کی بندش اور ملک کے صنعتی اداروں کو گیس کی فراہمی معطل کرنا، یہ سب حکمرانوں کی طرف سے قوم کے لیے 2012ءکے تحفے ہیں جس کی وجہ سے عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن بنادیا گیا۔ لیکن راہنمایان قوم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ملک زوال کے انتہائی درجے پر پہنچ چکا ہے۔ ہمارے حکمران عوام کے مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور ان کی توانائیاں اپنی کرسی بچانے پر صَرف ہورہی ہیں۔ اُنہیں غریب کے بھوکے پیاسے بچے نظر نہیں آتے۔ اُنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک کی آبادی کا کتنا بڑا حصہ بے روزگار ہے۔ اُنہیں قوم کے بڑھتے مسائل سے بھی کوئی غرض نہیں۔ یہ لوگ اقتدار کے نشے میں مست ہوچکے ہیں۔ وہ سوچ اور فکر جو خلافت راشدہ کے حکمرانوں کا وصف رہا ہے، جو اپنی رعایا کا دکھ درد محسوس کرسکتے تھے، اس وصف سے ہمارے عہد کی تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ عاری نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ دعوائے ہمدردی تو ایسے جتاتے ہیں جیسے قوم کے سب سے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ یہی ہیں۔ جیسے انہیں اپنے شہریوں کی فکر دامن گیر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والے تمام سیاست دان قوم کو لوٹنے کے یک نکاتی فارمولے پر متفق ہوچکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک عوام کے در پر جا جاکر اُن سے ووٹ کے لیے بھیک مانگتے تھے اور آج اُنہیں کی بدولت اقتدار پر براجمان ہیں۔ یہ لوگ ہمارے ہی دیے ہوئے پیسوں سے اپنے کاروبار چلاتے اور عیاشیاں کرتے ہیں۔ انہیں زندگی کی تمام سہولیات اور آسائشیں حاصل ہیں۔ ان کا سرمایہ بیرون ملک بینکوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ انہیں اس بات کی کیا فکر کہ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں کتنی مہنگی ہورہی ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم روز بروز تنزلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے جلسے کرنے والے انقلاب کے نعرے لگارہے ہیں اور ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں لیکن جو لوگ اپنے جلسوں کی ابتدا اور انتہا موسیقی کے ساتھ کرتے ہوں وہ کیا خلافت راشدہ کا کلچر پیش کریں گے؟ وہ اس ملک میں کیا اسلامی انقلاب لائیں گے؟

جب تک ہم ان سیاست دانوں کا بائیکاٹ نہیں کریں گے، جب تک حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے لیے اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں گے، یہ ہمارا استحصال کرتے رہیں گے۔ اگر آج سے تمام وزرا، مشیروں، بیوروکریٹس، ارکان اسمبلی، ارکان سینیٹ سمیت دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز بھاری تنخواہیں وصول کرنے والوں کے تمام مراعاتی فنڈ بند کردیے جائیں، ہمارے حکمران اپنے شاہانہ اخراجات کو لگام دیں، غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے جھونکنا چھوڑدیں، بیرون ملک سے اپنے اثاثے پاکستان لے آئیں، کرپشن کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ملک کے قدرتی ذخائر کو استعمال کرنے کے منصوبے شروع کردیں پھر ہمیں غیروں سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر وہ دن دور نہیں رہے گا جب پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کے درمیان چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے، جو قوم سے مخلص ہو، جو لوگوں پر حکمرانی کی بجائے ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہو۔ جو قوم کا دکھ درد محسوس کرسکے۔ جو دعوے کم اور کام عمدہ کرے۔ کاش! کوئی تو ایسا حکمران ہو۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.