عوام الناس کو جن نامساعد و
ناموافق حالات کاسامنا رہا ہے ان میں روز افزوں بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری
اہم ترین مسائل ہیں ۔ بجلی ، گیس ، ٹیلی فون ، موبائل فون ، دودھ، اسکول
فیسوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں نے بلاشبہ غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے
مگر ایک بات جو اس دھرتی پر مرض مزمن کی ہیئت اختیار کر چکی ہے وہ کرپشن کی
بلند ترہوتی خطرناک شرح ہے اور یہ وطن بڑھتی بد دیانتی اور کرپشن کی دلدل
میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے ، تو پھر مجھے کہنے دیجیے کہ ”کرپشن “اور”لوٹ
مار“ہی مملکت خداداد کا اصل ”ٹریڈ مارک“ بن چکی ہے ۔چند روز پیشتر ایمنسٹی
انٹر نیشنل پاکستان کے چیئر مین سید عادل گیلانی کی ہو شربا پریس کانفرنس
نے تہلکہ مچادیا ہے ، ان کے مطابق پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار میں
سرفہرست پارلیمنٹ ہے اور اس کے بعد محکمہ پولیس ، کسٹم ، انکم ٹیکس اور
عدلیہ کا نمبر ہے ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2011ءمیں
320ارب کی ریکارڈ کرپشن ہوئی ہے جس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، اس
آرگنائزیشن کے مطابق پارلیمنٹ ،لینڈ ایڈمنسٹریشن، عدلیہ ، پولیس ، واپڈا ،
ریلویز ،کسٹم ، انکم ٹیکس کرپشن کی دوڑ میں بازی لے گئے ہیں اور سٹیل ملز ،
نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ(این آئی سی ایل) ، پنجاب بنک ، رینٹل پاور
پلانٹس ، وزارت حج ، کے ای ایس سی ، پی آئی اے کرپشن کے مضبوط پنجوں میں
جکڑے جا چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حکومت کا غیر سنجیدہ طر ز عمل اور احتساب
کی کمی کی وجہ سے قومی ادارے لوٹ مار کی نظر ہو رہے ہیں ،عدالت عالیہ کی
جانب سے کئی اعلیٰ شخصیات کے کرپشن کیس نیب کو بھجوائے گئے مگر ان کے خلاف
کارروائی ندارد۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے اوراپنے گردو پیش پر نظردوڑانے
کے بعد اس دلدل سے نکلنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ، ہر حکومتی
ادارے پر ہی لٹیروں اور ابن الوقتوں کاراج ہے ، واپڈا، پی آئی اے ، ریلوے،
ہیلتھ، محکمہ تعلیم ۔۔۔غرض کس کس کا نام لیا جائے ۔۔۔؟اب اسی ریلوے کو ہی
دیکھ لیں کہ کرپٹ عناصر کی کر م فرمائیوں کی وجہ سے یہ اہم ترین عوامی
محکمہ اپنی زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہاہے ، غلام احمد بلور کی سربراہی میں
بد عنوان وزارت ریلوے اور افسران بالا کے غاصبانہ تسلط نے غریب عوام سے یہ
سستا ترین ذریعہ سفر بھی چھین لیا ہے ، بد دیانتی اور بد عنوانی کی ایک
تاریخ ہے جو رقم کی جارہی ہے ، کرپٹ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے اس محکمے
کو تباہی کے اس موڑ پر جا پہنچایا ہے جہاں سے واپسی کی کوئی امید بر نہیں
آتی ، ایک معاصر کا کہنا ہے کہ ریلوے میں اعلیٰ سیاسی شخصیات کی مداخلت پر
ریٹائرڈ ہونے والے افسروں و دیگر ملازمین کو دو بارہ بھاری بھرکم تنخواہوں
اور دیگر مراعات کے عوض دوبارہ بھارتی کر لیا گیا ہے ۔ حج کرپشن سکینڈل کی
باز گشت ابھی تک تھمی نہیں اور لوگ اب بھی پوچھتے ہیں کہ آخر حامد سعید
کاظمی صاحب کو وہ کون سے سرخاب کے پر لگے تھے جنہوں نے انہیں پلک جھپکتے ہی
چندمرلے کے گھر سے اٹھا کر کروڑوں روپے مالیت کے پینتالیس کنال کے وسیع و
عریض محل میں پہنچا دیا تھا ۔۔؟ کرپشن کے خاتمے کی تگ و دو میں مصروف عمل
ایک اور ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ
کرپشن اور اقربا پروری کو قرار دیا ہے، اسی فورم نے اس ضمن میں ایک چھوٹی
سی مثال دی ہے کہ اصولی طور پر ایک مسافر ایر بس پر پینتیس افراد کی
تعیناتی کافی ہوتی ہے مگر پی آئی اے نے دھاندلی کے ذریعے سے اپنوں کو
نوازنے کی خاطر ایک جہاز پر تین سو کے لگ بھگ افراد بھرتی کر کے تعینات کر
رکھے ہیں ۔ پاکستان میں کرپشن کی اس بد تر ہوتی صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ
بھی ہے کہ ہر دور میں برسراقتدار گروہ بڑے پیمانے پر اس”کالے دھندے“میں
ملوث پایا گیا ہے ، یو توں ہر طبقے کی بدعنوانی مکروہ ترین فعل ہے تاہم
بالادست طبقے اور ”اہل اقتدار“ کا لوٹ مار میں خود ملوث ہونا کسی بھی ریاست
کے لیے جان لیوااور مضر ثابت ہو تا ہے ۔کچھ عرصہ قبل ایک مغربی اخبار نے
لکھا تھا کہ پاکستانی حکمرانوں اور بڑے قد کاٹھ کے لیڈروں کے بیرون ملکوں
میں دو سو ارب ڈالر سے زائد اثاثے جمع ہیں اگر یہ سرمایہ پاکستان بھیجا
جاتا توآج وہ خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوتا ۔ امریکا ، برطانیہ ، دبئی
ودیگر ممالک میں پاکستانی لیڈروں کے خفیہ بنک اکاوئنٹس کی ایک الگ کہانی ہے
جس کی تفصیلات میں جانا نہایت تکلیف دہ اور کرب ناک ہو سکتا ہے ۔ بے
روزگاری ، مہنگائی اور کرپشن کی خراب تر ہوتی صورتحال کے پیش نظراس دھرتی
کے عوام بڑی دیر سے کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو انہیں ان مسائل سے نہ
صرف نجات دلائے بلکہ مسائل کھڑے کرنے والوں سے بھی قوم کا حساب چکتا کرے ۔
ان حالات کے پس منظر میں پاکستانی سیاست میں ایک طویل اور صبر آزما مرحلے
کے بعد ایک نئی پولیٹیکل پارٹی سر اٹھا رہی ہے جس کا سب سے پہلا نعرہ اس
ملک اور قوم کو لٹیروں اور کرپٹ لیڈروں سے نجات دلانا ہے ۔” تین جماعتی
نظریے “کے زخم خوردہ عوام اب عمران خان کی تحریک انصاف کے پرچم تلے جمع ہو
رہے ہیں،گو کہ تحریک انصاف چھوٹے بڑے شہروں میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہر
ہ کر رہی ہے مگر دوسری جانب ناقدین عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کے” مہرے “کا
لیبل لگانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان میں اس قدر ہمت ،
طاقت اور صلاحیت نہیں کہ وہ پاکستانی عوام کے چونسٹھ سالہ انتہاءدرجے کے
مسائل حل کر سکیں، کالم نگاروں، تبصرہ نگاروں کی بھی ایک جماعت ہے جو عمران
خان کو مسلسل رگید رہی ہے اور انہیں ”جی ایچ کیو“ کی پچ کا کھلاڑی قرار دیا
جا رہا ہے ۔ان تمام ارباب علم ودانش و بینش سے ایک سوال ہے کہ گرچہ عمران
خان میں سیاست کے لوازمات صحیح طور پر نہیں پائے جاتے مگر کیا اس عوام کو
اتنا بھی اختیار نہیں ہے کہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ’ ’تین جماعتی
نظریے“ کو ہمیشہ کے لیے دریا برد کر کے ایک نئی پارٹی کے ہاتھ میں ملک کی
باگ ڈور تھما دی جائی ؟ تسلیم شد کہ عمران خان میں اس قدر اہلیت و طاقت
نہیں تو کیا اس کا حل پھر یہی نکلتا ہے کہ اقتدار کی ”باریاں“ مقرر کرنے
والوں کو بار بار آزمایا جائے ؟جہاں یہ قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے آزمائے
ہووﺅں کو بار بار آزمائے جارہی ہے اور نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہی
نکلتا ہے آخر وہیں پر عمران خان کو آزمالینے میں کیا حرج ہے ؟اس وقت اٹھارہ
کروڑ عوام کے دل کی بس ایک ہی آواز ہے کہ ایسا شخص مسند اقتدار پر جلوہ فگن
ہو جو رشوت ستانی اورکرپشن و مہنگائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، چاہے وہ عمران
خان ہو یا کوئی اور نجات دہندہ ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک کرپشن اور
بدعنوانی کے اصل منبع اور محور سسٹم کو اکھاڑ پھینکنے کی خاطر نئی قیادت،
نئی پارٹی کا انتخا ب نہیں کیا جاتا بھلا اس سرزمین کو کرپشن ، بے روزگاری
کے عفریت سے کیسے آزادی دلائی جا سکتی ہے ۔۔۔؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
اگر قوم حصول اقتدار کی”باریاں“ مقرر کرنے والے لیڈروںپر ہی اکتفا کیے رکھے
گی تو سدا کی رسوائیاں اور مایوسیاں ہی اس کا مقدر ٹھہریں گی ۔ |