دھاندلی

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اپنے اصول ہونگے ، ممکن ہے کچھ کسی حد تک لاگو بھی ہوتے ہوں ، مگر یہ بات یقینی ہے کہ وزیراعظم پر ان کا نفاذ قطعاً نہیں ہوتا۔ اس کا عملی ثبوت ایک ضمنی الیکشن میں اس وقت دیا گیا جب ملتان کی ایک تحصیل جلالپو ر پیر والامیں یہ معرکہ برپا ہوا، ن لیگ کی طرف سے نغمہ مشتاق امیدوار تھیں تو دوسری طرف ان کے مقابلے میں وزیراعظم اپنے بھائی کو لے آئے، الیکشن مہم کے دوران وزیراعظم نے ذاتی طور پر وہاں کے لوگوں سے فون پر رابطے رکھے اور ایک روایت کے مطابق اسی دوران بیرونِ ملک دورے کے دوران وہاں سے بھی موصوف گھنٹوں مذکورہ حلقے کے خواص سے رابطے میں رہے۔

وزیراعظم کا اپنے بھائی کے لئے الیکشن مہم چلانا ایک مجبوری تھی، چلیں فون پر بات کرنا شاید الیکشن کمیشن کی گرفت میں نہ آتا ہو، مگر وہاں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے گئے، جہاں تصور نہیں جاسکتا ، وہاں سوئی گیس چلی گئی، جہاں راستہ نہیں جاتا تھا وہاں بجلی پہنچ گئی ، کچی سڑکوں کو پختہ کردیا گیا، ملازمتوں کی سبیلیں بھی لگادی گئیں، وزیراعظم کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے سرکاری دفاتر میں دھکے کھانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ سڑکوں ، گلیوں اور کھیتوں میں ہی دفاتر قائم تھے اور ہر چیز کی منظوری وہیں ہورہی تھی۔ اوپر سے ایک اور بڑاکام یہ ہوا کہ پنجاب کے حکمرانوں نے اپنی امیدوار کے حق میں جلسہ کرنا بھی مناسب نہ جانا ، وہ خود ہی اپنے زور ِ بازو پر الیکشن لڑی اور چند ہزار کی لیڈ سے وزیراعظم اپنے بھائی کو جتانے میں کامیاب ہوگئے، اگر میاں برادران میں سے کوئی ایک بھی آخری وقت میں یہاں جلسہ کرجاتے تو نتیجہ مختلف ہوتا، اوروزیراعظم کے برادرِ خوردکی مقبولیت کا پول کھل جاتا۔

تب بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خاموشی کا روزہ افطار نہ کیا ، اور ساتھ ہی میاں برادران نے بھی جہاں الیکشن مہم میں حصہ نہ لیا وہیں وزیراعظم کی طرف سے کی جانے والی سرکاری مشینری کے استعمال اور مداخلت پر کوئی احتجاج نہ کیا ، اپنی سیٹ قربان کردی مگر گیلانی سے فرینڈلی اپوزیشن کے تاثر کو مزید تقویت بخش دی۔ ایک ایسا ہی معرکہ ایک مرتبہ پھر برپا ہے،شاہ محمود قریشی کی خالی ہونے والی سیٹ( حلقہ این اے 148) پر وزیراعظم نے اپنے دوسرے بیٹے کو ٹکٹ عنایت کر(یا کروا)دی ہے۔ اپنے خاندان اور اہل وعیال کو عوامی نمائندے بنوانا ان کا جمہوری حق ہے،ابھی ان کا ایک بیٹامیدان سیاست سے باہر ہے، ان کی بیٹی خار زارِ سیاست میں قدم رکھ چکی ہیں۔ وہ سب کو ہی انتخابی میدان میں لے آئیں اورعوام انہیں اعتماد کا ووٹ دیتے ہیںتو کسی دوسرے کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ اگرچہ یہاں بھی ایک بے اصولی ہورہی ہے کہ جمہوریت میں وراثت کا کیا کام ؟ مگر پاکستانی جمہوریت میں ایسا سب چلتا ہے، بڑے بڑوں سے لے کر چھوٹے چھوٹوں تک اپنی اولادوں کو پینا فلیکسوں کی زینت بناتے اور اپنے ہاتھوں سے عوام کے کندھوں پر بٹھاتے ہیں۔

وزیراعظم بھلے اپنے تمام اہل خانہ کو ہی اسمبلیوں میں لے آئیں، مگر سرکاری وسائل اور کروڑوں کے بجٹ سے ترقیاتی کاموں کے ذریعے ان کی انتخابی مہم تو نہ چلائیں، انھوں نے قوم کو نئے سال کا تحفہ یہی دیا کہ ملتان کے نواح میں قادر پور راں میں ایک ضمنی الیکشن کے موقع پر کروڑوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا ،کیونکہ ان کا بیٹا یہاں امیدوار ہے۔ ایک چھوٹے قصبے میں پاسپورٹ کا ریجنل آفس قائم کیا ،فلائی اوورز ، سڑکوں کی کشادگی اور سولنگوں اور نالیوں تک کے لئے بجٹ مہیا کیا ۔ اس سے قبل بھی وہ جنوبی پنجاب کا زیادہ بجٹ ملتان میں ہی لگا چکے ہیں۔ کیا یہ اخراجات وہ اپنی جیب سے اداکررہے ہیں؟ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن پارٹیاںخوابِ غفلت سے کب بیدار ہونگی، یہ کھلی دھاندلی کب اور کیسے ختم ہوگی؟ کیا الیکشن کمیشن ،ن لیگ اور تحریک انصاف والے (کہ یہ سیٹ PTIکی خالی کردہ ہے) اس پر غور کریں گے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.