تبدیلی کے سونامی سے مسائل کے سونامی تک
(Muhammad Kamran Shahzad, )
بچپن سے ایک کہاوت سنتے تھے کہ :ہر
چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ؛ مگر یہ کہاوت آج کل کچھ ماند پڑتی نظر آتی ہے
کیونکہ آج کل عمران خان کی سیاست خوب چمک رہی ہے اور ہر شخص اُس کی جماعت
میں شامل ہونے کے لئے بے چین ہو رہا ہے۔بلکہ اُس کو تانگہ پارٹی کہنے والے
بھی اُس کو تبدیلی کا سونامی قرار دے رہے ہیں۔یہ ہیں سیاست کے نرالے رنگ
کیونکہ کل تک عمران خان اکیلا تھا اور آج اُس کے ساتھ سیاست دانوں اور عوام
کا سونامی تبدیل کی آس اُمید لیکر چل پڑا ہے۔سوچنے اور دیکھنے کی بات یہ ہے
کہ کیا عمران خان عوام کے آزمائے ہوئے اور اپنی پارٹیوں میں مس فٹ افراد کے
ساتھ عوامی توقعات پر پورا اُتر بھی سکتے ہیں یا تبدیلی کا یہ سونامی منتخب
ہونے کے بعد اپنی ترجیحات اور انقلابی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے
روا یتی ا ندازِ حکومت اپنانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔کچھ لوگ ہو سکتا ہے
میرے اس اندازِسوچ سے اختلاف کریں گے اور مجھے پرانی اوررجعت پسند سوچ کا
مالک قرار دیں مگر میرے سامنے ایسے تبدیلی کا نعرہ لیکر کئی ایک لوگ آئے
مگر حکومت ملنے کے بعد وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل گئے اور اُن کے بلندو بانگ
دعو ے اور نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے اس لئے کہ دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی
پھونک کر پیتا ہے۔اگر حقیقت پسندی سے سوچا جائے تو اس ملک کے سیاست دانوں
کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ عوام کو ڈلور کر کے دکھائیں اگر خدانخواستہ
اس بار بھی سیاست دان اور جمہوریت ناکام ہوئی تو پھر کبھی بھی عوام اِن
سیاست دانوں پراعتماد نہیں کرے گی کیونکہ موجودہ حکومت نے جس طرح سے عوام
کو سبز باغ دکھا کراُنکے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اس کی وجہ سے عوام کا
اعتماد سیاست دانوں نے متزلزل کر دیا ہے۔موجودہ حکومت نے عوامی مسائل کو حل
کرنے کی بجائے اُن کو مزید اُلجھا دیا ہے۔جس طرح وزیروں مشیروں نے لو ٹ مار
کا بازار گرم کیا ہے اب عوام اس جمہوریت سے خوف زدہ ہے۔ اس کی نظریں عمران
خان پر مرکوز ہیں ۔کیونکہ عوام ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو اِن کے مسائل
حل کرے اور اِن کو سُکھ اور چین کی زندگی گذارے کا موقع دے۔کیونکہ عوام کا
مسئلہ یہ نہیں کہ میمو کس نے لکھا ؟اُسامہ کو امریکہ نے کس دشمنی کی بھینٹ
چڑھایا؟سینٹ الیکشن میں کس جماعت کو اکثریت ملتی ہے؟بلکہ عوام چاہتی ہے کہ
آٹا اور چینی سستی ملے اور ہر وقت ملے۔اس کے ایٹ جو حکومت مقرر کرے اُسی
ریٹ پر دستیاب ہویہ نہ ہو کہ حکومتی ریٹ ٹھاہ ایجنٹ اور ذخیرہ اندوز مافیا
واہ واہ۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمت عالمی منڈی کے ساتھ منسلک ہو وہاں قیمت
بڑھے تو یہا ں بھی بڑھے ورنہ قیمت نہ بڑھے۔گیس اور بجلی کی قلت کو دور کرنے
کے لئے رینٹل پاور پلانٹ جیسا لوٹ منصوبہ نہ ہو بلکہ عوام کی استطاعت کے
مطابق اسکا دیرپا حل نکالا جائے کیونکہ پاکستان کے پاس اِس مسئلے کو حل
کرنے کے لئے اپنے وسا ئل بہت زیادہ ہیں۔ اور آئے دن بجلی اور گیس کی قیمت
نہ بڑھائی جائے بلکہ کچھ بوجھ حکومت اپنے کندھوں پر بھی اُٹھائے تاکہ گذشتہ
ادوار میں عوام کے ناتواں کندھوں پر بہت زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے جس کی وجہ
سے عوام کی قوتِ برداشت جواب دے چُکی ہے۔بے روزگاری کا خاتمہ ضروری ہے اگر
ھم چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو،ڈاکے چوریاں اور ٹارگٹ کلنگ ، سٹریٹ کرائم
کم ہوں تو ہمیں اپنے ملک میں روز گار کے وافر مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔بجٹ
میں جو رقم جس محکمے کے لئے مختص ہے اُس کا استعمال صاف اور شفاف طریقے سے
ہواور وہ محکمہ اس کا سو فیصد استعمال بھی کرے۔کرپشن کے ناسُور کو جڑ سے
اُکھاڑنا ہو گا ورنہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا خواب تعبیر سے ہمکنار نہ
کیا جا سکے گا۔اس کے لئے فرض شناس ،مخلص اور ایماندار لوگوں کو آگے لانا ہو
گا اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرنی ہو گی۔پٹواری نظام اور تھانہ کلچر کا
خاتمہ دراصل کرپشن خاتمے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔تعلیم اور صحت کے لئے بھی
ہنگامی طور پر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہو گی کیونکہ یہ دونوں عوام کا
بنیادی حق ہیں اور یہ ریاست کی اولین زمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کو اُن کا
بنیادی حق اُن کے مانگنے سے پہلے اُن کو اُن کی دہلیز پر دیا جانا
چاہیے۔اِسی طرح ملک پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھِرا ہوا
ہے۔ایک تو امریکہ کی وار جو ہم نے ا پنے سر لیکر ملک کو غیر مستحکم کیا ہے
اس کا خمیازہ نہ صرف یہ کہ عام آدمی کو اُٹھانا پڑا وہاں اس ملک کی معیشت
کا ستیا ناس ہوا ۔ملک دشمن عناصر نے اس صورتِحال کا خوب فائدہ اُٹھایا اور
ملک کی خود مختاری اور استحکام کےخلاف عالمی سطح پر سازشوں کے جال بن کر
پاکستان کو دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ایسے دشمنوں کی آنکھ
میں آنکھ ڈال کر بات کرنی ہو گی۔جس میں سرِفہرست انڈیا ہے ۔جس نے کمزور
حکومتوں کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کی سا لمیت پر کاری وار کئے اب اس کو
منہ توڑ جواب دینا ہو گا۔ گویا کہ عمران خان کو اگر حکومت ملی بھی تو وہ
ریشم کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہو گا کیونکہ ملک جس قسم کے حالات سے
دوچار ہے وہ اتنے گھمبیر اورپیچیدہ ہیں کہ اِن کو حل کرنے کے لئے دن رات
انتھک محنت اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہو گی۔جس طریقے سے تحریکِ انصاف کے پلڑے
میں لوگ اپنا وزن ڈال رہے ہیںامید ہے کہ عمران خان کو ایک موقع قوم دینے پر
تیار ہے۔مگر عمران خان کو اس میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہونگے
کیونکہ پرانے شکاری بھی نئے روپ دھار کر اس سونامی کا حصہ بننے کے لئے پر
تول رہے ہیں۔لہذا سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر ٹیم منتخب کرنی ہو گی۔کہیں
یہ نہ ہو کہ کل عمران بھی اسی طرح پرانے اور گھاگ کھلاڑیوں کی چال میں آ کر
عوام سے کئے وعدے بھُلا بیٹھے اور قربانی دینے والی عوام پھر اُسی چکی میں
پستی رہے یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اورکوے انڈے کھائیں۔یہ بات سولہ آنے درست
ہے کہ عوام اس وقت عمران کا ساتھ دینے پر کمربستہ ہے۔عمران کا ستارہ عروج
پر ہے اوریہ بات سب نے بھی محسوس کر لی ہے۔ لہذا اب سارے عمران کی طرف
چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں بلکہ دھڑادھڑ اور بے دریغ کھنچے چلے آ رہے
ہیں۔ ایسے میں بس اتنا دیکھنا ہے کہ کہیں کوئی ایسا پتھر نہ آ جائے جو ہیرے
کی شکل میں ہو اور کل جس کی وجہ سے مسائل کے سونامی سے نپٹنے میں ناکامی کا
منہ دیکھنا پڑے۔ |
|