مسلم مذہبی رہنماؤں اورلیڈاران کی جے ہو

یوپی اسمبلی انتخابات میں سیکڑوں پارٹیاں
مسلم مذہبی رہنماؤں اورلیڈاران کی جے ہو

عالمِ جمہوریت کے سب سے بڑے تہوارالیکشن کی آمد سے بے شمار ایسے منظر نامے مربوط ہوتے ہیں ، جس کی توقع اس سے قبل کی ہی نہیں جاسکتی ہے ۔ زمانہ الیکشن کی ہی کرشمہ شازی ہوتی ہے کہ ارباب ِسیاست بدحال مسلم بستیوں کا بھی بخوشی طواف کرتے ہیں ۔ غربت وافلاس کے شکار افراد سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں ، ان سے اس انداز میں ملتے ہیں مانو وہ ان کے ہمدرد ہیں ، غمگسار ہیں اور بہی خواہ بھی ۔ سماجی اورمذہبی پروگراموں کے تئیں فراخ دلی کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں جس کی مثال گزشتہ پانچ برسوں میں دور تک نہیں ملتی ہے ۔ اسی طرح مذہبی رہنماﺅں کی قدم بوسی اوران سے تعلقات ومراسم نبھانے کا انداز واقعی نرالا ہوتاہے اور قابل دید بھی ۔ طرہ اس پر یہ بھی کہ مسلم لیڈران اس مکارانہ چال اور سیاستدانوں کی قربت پر پھولے نہیں سماتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جتنی زیادہ پارٹیاں سیاسی گلیاروں میں طبع آزمائی کریں گی ، اتنی ہی ان کی آمدو رفت مسلم مذہبی لیڈرا ن کے یہاں تیز ترہوگی ۔

ریاست اترپردیش میں 2012میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے تقریباً200پارٹیاں طبع آزمائی کرنے جارہی ہیں ۔ریاستی چیف الیکشن کمشنرامیش سنہا کے مطابق موجودہ انتخابات میں 178رجسٹر ڈ جماعتیں قسمت آزمائی کے لئے تیار ہیں ۔ 1969کے اسمبلی انتخابات میں کل 17رجسٹرڈ جماعتیں تھیں ۔ 1974میں 16، 1977 اور 1980میں سات سات ، 1985میں صرف 2،1989میں 26، 1991میں 23،1993میں 25، 1996میں23، 2002میں 75، اور2007میں112پارٹیوں نے سیاسی گلیاروں کے اسٹیج پر جلوے بکھیری تھیں ۔ تمام گزشتہ انتخابات سے قطع نظر 2007کی رجسٹرڈ نمایاں پارٹیاں کچھ اس طرح ہیں امبیڈکرانقلاب پارٹی ، آدرش لوک دل ، آل انڈیامانارٹیج فرنٹ ، بھارتی شہر ی پارٹی ، بم پارٹی ، جس ستا پارٹی ، مانڈر یٹ پارٹی اورترقی پارٹی وغیرہ ،جمہوری کانگریس ، بھارتی جن شکتی پارٹی ،جن مورچا، خوداری پارٹی اوراترپردیش یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو ایک ایک نشست پرکامیابی ملی تھی ۔ تاہم گزشتہ انتخابات کے برخلاف یوں تو سب سے زیادہ پارٹیاں اس مرتبہ ہیں ہی ،مزید ان کے سربراہان بھی چند قابل ذکر افراد ہیں ۔ بندکھنڈ میں بندیل کھنڈ کانگریس کے فلمی اداکارہ راجہ ، مشرقی اترپریش میں سماجی کارکن جٹا شنکر سوراج ، ڈاکٹر سجنے چوہان جنوادی ، مختار انصاری کے بڑے بھائی سابق ممبر پارلیمنٹ افضل انصاری قومی اتحاد پارٹی اور ذاتی راج کتاب تصنیف کرکے ہنگامی ماحول بنانے والے نوکرشاہ لکشمی کانت شکل میدھا پارٹی سے اس بار انتخابی میدان میں طالع آزمائی کرنے جارہے ہیں ۔ سابق وزیر اعلی مسٹر کلیان سنگھ کی جن کرانتی پارٹی ، ممبر پارلیمنٹ امر سنگھ کی لوک منچ اورلوک سبھا میں طاقت دکھانے والے ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کے علاوہ راشٹریہ پیس پارٹی اور راشٹریہ علماءکونسل بھی سامنے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں کا اضافہ ووٹوں کے انتشار کا سبب ہے ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹیوں کی کثرت جہاں بہت سی جماعتوں کے لئے باعث تشویش ہے وہیں بے شمار کے لئے نیک شگون بھی ۔ کیونکہ ایک حلقہ میں متعدد پارٹیوں کے امیدوار قسمت آزمائی کریں گے تو ووٹوں کی بندر بانٹ ہوگی ، اس بندربانٹ سے انتخابی نتائج بھی غیر متوقع آئےں گے ۔ بسااوقات قدآور لیڈروں کی کامیابی کا ستارہ غروب ہوجائے گا ، یعنی ’گردش میں کتے بھی گھیر لیتے ہیں شیرکو ‘۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ مسلم مگر پارٹیوں کی کثرت سب سے زیادہ مسلمانوں کے لئے باعث تشویش ہے ،ہرپارٹی کی نگاہ مسلم ووٹ بینک پر ہوتی ہے ، چنانچہ مسلم ووٹرس کو لبھانے کے لئے مسلم امیدواروں کو اتارنا ہی پڑے گا۔ ایک ہی حلقہ سے متعدد مسلم امیدوار طبع آزمائی کریں گے ، اس وقت پارٹی سے زیادہ ”خاندان “کا پتہ چلے گا ، اس طرح مسلمان پارٹی بھنور سے نکل کر ”خاندانی “ سمندر میں ہچکولے کھانے لگیں گے ۔ اس صورتحال میں کوئی مسلمان کامیاب ہونے سے رہا ۔ پارٹی اورمسلم امیدواروں کی کثرت سے اس وجہ کر بھی مسلمانوں کا نقصان ہوگا کہ پارٹی کے نظماءو صدور کی آمد ورفت مسلم مذہبی لیڈران کے ”غریب خانوں “پر تیز ترہوجائے گی ، وہ ان سے مستقبل کے تئیں مراعات کے حوالہ سے گفتگو کریں گے ، مسلم مسائل حل کے جال میں انہیں پھانس کر اپنی حمایت کے لئے راضی کریں گے ، بعید ازمکان نہیں کہ وہ بھی ان کے دام فریب میں پھنس کر مسلمانوں کی رہنمائی غلط سمت کربیٹھیں۔مادیت اورفریب کے ا س دور میں بھی مسلم مذہبی لیڈران کا اپنا اپنا پر اعتماد حلقہ ہے ، ان کی باتوں پر لبیک کہنے والے مسلم معاشرہ میں لاتعداد ہیں ۔

راقم کو یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ بیشتر مسلم مذہبی لیڈران ہی مسلمانوں کی سیاسی زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں ، سیاسی پارٹیوں سے ان کا خفیہ رابطہ مسلم ووٹوں کے انتشار کا سبب ہے ، پارلیمنٹ اورریاست میں مسلمانوں کی گھٹتی شرح نمائندگی ان کی ہی ناعاقبت اندیشی کی دلیل ہے ۔ اس موقع سے پارلیمنٹ اور صرف دو ریاست یوپی بہار کی مسلم نمائندگی کے تناسب کا تذکرہ کرنا خارج از موضو ع نہیں ہوگا ۔

آزادی کے بعد سب سے پہلے الیکشن میں کل 17مسلمان ہی پارلیمنٹ پہونچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 1957میں31،1962میں 20، 1967میں 28، 1971میں 25، 1977میں 30،1980میں 46، 1984میں سب سے زیادہ47، 1989میں 31، 1991میں 20، 1996میں 24، 1998میں 28،1999میں 31اور 2009میں کل 29مسلمانوں کو ہی پارلیمنٹ پہونچنے میں کامیابی مل سکی ۔ اسی طرح ریاست بہار کی مسلم نمائندگی کی بات کریں تو وہ بھی مایوس کن ہے ۔ 1952میں7.2، 1957میں7.84فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کا تناسب رہا ، یعنی اول الذکر میں 24اورموخرالذکر الیکشن میں 25سیٹیں انہیں ملیں ۔ 1967میں سب سے کم 5.66اور1969میں 5.97، 1972میں 7.72ان کی نمائندگی رہے ۔ 1980میں ذاربہتری آئی کہ 28سیٹوں کے ساتھ یہ فیصد8.89تک پہونچا ۔ 1985میں سب سے زیادہ ان کی نمائندگی 34نشستوں کے ساتھ 10.50رہی ، مگر یہ واضح ہوکہ اس وقت جھارکھنڈ الگ نہیں ہواتھا ، لیکن 1990میں پھر اتنی کمی آئی کہ سمٹ کر20سیٹوں کے 6.19، 1995میں وہی حالت نازک کہ 19نشستوں کے ساتھ 5.88کافیصدرہا ، جہانتک 2002کا تعلق ہے تو اس میں فیصدی تناسب 9.87اور2005میں پھر کمی آئی کہ 16نشستوں پر مسلمان قابض ہوئے جو کہ 6.58کا تناسب ہے ۔ 2010کی بات کی جائے تو اس میں 22سیٹیں مسلمانوں کو ملیں جس کا فیصدی تباسب 9.5ہے۔

ہندوستان کی مسلم آبادی 13سے لے کر 15فیصد ہے ، اگر اس کی نمائندگی آبادی کے لحاظ سے ہوتو کم از کم کوئی 80,90ارکان پارلیمنٹ ہوں گے ۔ اگر بہار کی بات کی جائے تووہاں مسلم آبادی 17فیصد ہے ، اس لحاظ سے وہاں کی اسمبلی میں 45ممبران ہونے چاہئے ، مگر وہاں ہمیشہ ان کی نمائند گی کی شرح اکثر 7فیصد ہوتی ہے اور ایک مرتبہ بڑھ کر 10فیصدہوئی ۔ بالکل یہی صوتحال اراکین پارلیمنٹ کا بھی ہے ۔

جہانتک یوپی کی مسلم آبادی کے لحاظ سے اسمبلی میںان کی نمائندگی کے تناسب کا تعلق ہے تو وہ بھی انتہائی مایوس کن ہے ۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 3کروڑ 7لاکھ 40ہزار 158ہے ، جو اترپردیش کی کل آبادی کا 18.5فیصدی حصہ ہے ۔ گزشتہ تمام انتخابات سے قطع نظر 2007کی ہی بات کریں تو مسلم ایم ایل اے کی کل تعداد 56رہی جو کہ کل سیٹوں کا 13.89فیصد حصہ ہوتی ہے ، حالانکہ آبادی کے اعتبار سے کوئی 80ایم ایل اے مسلم ہونے چاہئے ۔ یہ بھی واضح ہوکہ 42مسلم امیدوار ایسے تھے جو معمولی فرق سے ودھان سبھا پہونچے سے قاصر رہے ۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی نمائندگی کیوں نہیں ہوپاتی ہے ؟ اس کا واضح اور واحد جواب ہے عمومی مسلم لیڈران کی ناعاقبت اندیشی و اناپسندی اور مذہبی لیڈاران کی انتشار پسندی ۔ ان ہی دونوں کی کوتاہی کے نتیجہ میں مسلم نمائندگی باعث تشویش ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہوتا آخر دیگر مذاہب کے رہنماؤں سے زیادہ مسلم مذہبی رہنما اربابِ سیاست کی نظر میں کیوں محبوب ہوتے ہیں ؟ زمانہ الیکشن میں ان کے غریب خانوں کا چکر لگانا انہیں کیوں بہت اچھالگتا ہے ؟ مسلم مذہبی لیڈران کے علاوہ رفاہی تنظیم کے نظماءوصدور یعنی خود ساختہ قائد بھی زمانہ الیکشن میں مسلم ووٹوں کے سودا گر بن جاتے ہیں اور بغرض ذاتی مفاد ہر ایرے غیرے پارٹی سے تعلقات نبھانے لگ جاتے ہیں ، ان کی ثناخوانی میں منہمک ہوجاتے ہیں، اس طرح مسلم ووٹرس ان کی جانب بڑھنے لگتے ہیں ۔ یہ افراد تو زمانہ انتخاب میں مسلم ووٹوں کے دشمن ہوتے ہیں مگر انتخاب کے بعد مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی مسلمانو ں کے ووٹوں کا کچھ بھی پا س و لحاظ نہیں رکھتے ، انہیں صرف پارٹی سے ہی سروکار ہوتا ہے ، مسلم مسائل سے نہیں ، مگر زمانہ الیکشن میں انہیں مسائل کو مدعہ بنا کر ووٹ بٹورتے ہیں ۔

مذہبی رہنماؤں کے دلوں میں بھی سیاست اپنی نیرنگیاں جلوے بکھیر تی رہتی ہیں ، مگر شفافیت سے دورسیاست میں قدم رنجہ فرمائیں تو کیسے ، سیاست جو آج بدعنوانیوں کی آماجگاہ ہے کا ٹھپہ کیوں لگوا کر عوام کے سامنے اپنی تقدس کو پامال کریں ، لہذا پارٹیوں سے خفیہ سانٹھ گانٹھ کرکے اپنی سیاسی پیاس بجھاتے رہتے ہیں ، دبے لفظوں میں مسلم ووٹرس کو ورغلا کر قیادت کا گلدستہ بھی حاصل کرتے ہیں اور پارٹیوں سے تحفے تحائف بھی ،” اندھے کو کیا چاہئے بس دو آنکھ “،ان کا یہی کردار مسلم نمائندگی کے لئے سم قاتل ہیں ۔جن جن مذہبی لیڈران کو سیاست کی دلفریباں اپنی طرف کھینچتی ہیں یا صحیح لفظوں میں سیاست میں آکر ملک وملت کی رہنمائی کرنااچھا لگتا ہے ، وہ بڑے شوقین سے سیاسی گلیاروں میں آکر قسمت آزمائی کریں ، کھل کر سیاست کریں نہ کہ خفیہ مسلم ووٹوں پر چال بازی ، بدعنوانیوں کو خاطر میں نہ لائیں ۔بعید ازامکان نہیں کہ بہ حالا ت مجبوری سیاست سے الگ رہنے والے مذہبی لیڈران کی نیک نیت سے آمد ”شفافیت“کا کوئی پیام لائے ۔ سیاست میں شفافیت پیدا کرنے کے لئے بڑے بڑے قوانین بنائے جاتے ہیں اور بے شمار تحریکیں سراٹھاتی ہیں ، مگر تحریکیں موثر ہوتی ہیں اورنہ ہی قوانین ، چنانچہ اس صورتحال میں مذہبی لیڈران کاسیاست میں آنا ضروری لگتاہے ، کیونکہ وہ اگر نیک نیت سے کھل کر سیاست کریں گے تو دوسرے سیاستداں بھی (اپنے اپنے مذہبی لیڈران کو دیکھ کر) کچھ سبق حاصل کریں گے، بہ طیب خاظر نہ سہی شرماحضوری میں ہی ضرور اپنی غلط روش ترک کرکے سیاست میں شفافیت پیدا کرنے میں مددکریں گے ، مگرشر ط ہے کریم رہنماؤں کا آنا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذہبی لیڈران کی سچی سیاسی صلاحیت وقوت کا استعمال نہ ہونا بھی مسلمانوں کی سیاسی زبوں حالی کا سبب ہے ۔

یوپی کی علاقائی یعنی رجسٹرڈ پارٹیوں نے ایک متحدہ محاذ بنام ”اتحاد فرنٹ“قائم کیا ہے ، فی الحال اس اتحاد میں پیس پارٹی ، بھارتیہ سماج پارٹی ، قومی ایکتا دل ، اپنا دل گوڑ دانہ گن تنتر پارٹی ، اتحادملی کونسل ، بندیل کھنڈ کانگریس ، نیشنل لو ک تانترک پارٹی ، انڈین لیگ اور بھارتیہ جن سیواپارٹی وغیرہ شامل ہیں ، راشٹر لو ک دل کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی شمولیت کی امید بھی جتائی جارہی ہے ۔ اس اتحاد فرنٹ نے ریاست کی تمام 403سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ، ان پارٹیوں کا پوپی الیکشن پر کیا اثر ہوگا ، ا س پر گفتگو کرناقبل از وقت ہی ہوگا ۔ اس اتحاد سے کسی کو کوئی خوشی ہوکہ نہ ہو مگر ذاتی طور پر راقم کو اس لحاظ سے خوشی ہوئی کہ اس اتحاد کو عالمی شہرت یافتہ عالم دین سید سلمان حسینی ندوی نے چھ ماہ کی اپنی محنت بتائی ہے ۔ گویا اسلامیات پر ماہر ایک عالم نے کھل کر نیک نیت کے ساتھ سیاست میں دلچسپی دکھائی ہے ، انہوں نے اپنی سیاسی قائدانہ بصیرت سے ملک وملت کو فائدہ پہونچانے کے لئے قدم بڑھایا ، دبے لفظوں میں خفیہ سیاست بازی سے اپنے کو پاک رکھا ہے ، خداکرے ان کی سیاسی بصیرت سے ملک وملت کا فائدہ ہو اوروہ تمام تر مخالفتوں سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے سیاسی میدان میں شفافیت پیداکرنے کی تگ ودو میں لگے رہیں ۔ واقعی آج سیاست کو ضرورت ہے ثابت قدم مذہبی لیڈران کی ، نہ رنگ بدلنے والے !ندوی موصوف کے سیاسی گلیاروں میں قدم رکھتے ہی ایک ہنگامہ بپا ہوگیا ہے، اپنوں اورپرایوں کی طرف سے نشانہ تنقید بن رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی ایسی وضاحت کررہے ہیں جوبے سروپا معلوم ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں ، ہمیں کوئی عہدہ نہیں چاہئے ، سیاست سے کچھ لینادینا نہیں ، صرف اورصرف مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانا ہے ، ان کی اس وضاحت پر سب سے پہلے یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا مسلم ووٹوں سے ”اتحاد فرنٹ“کو کامیابی دلاکر بھاری اکثریت سے اسمبلی پہونچانے میںمسلمانوں کا کیا فائدہ ہوگا ؟کیا واقعی ان پارٹیوں کی طرف مسلم ووٹوں رجحان ہوگا بھی یا نہیں ؟یا یہ ہوگا کہ آپ کی وجہ سے چند مسلمان انہیںووٹ تودیں مگر ان کے سب ووٹ اکارت جائیں ؟ جن جن پارٹیوں کا اتحاد ہواہے کیاوہ مسلمانوں کے تئیں اسی طرح ہمدرد ہےںیا ہمددر ثابت ہوگی ، جس طرح آپ ہیں ؟جواب تو نفی میں ہی ہوگا؟اس لئے مناسب تھاکہ تمام مسلم پارٹیوں کو جوڑ کر ”اتحاد فرنٹ “قائم کرتے ، تاکہ مسلم پارٹیوں سے بہ نسبت ان پارٹیوں کے کچھ بھلائی کی امید کی جاسکتی تھی ۔ ورنہ مسلم ووٹوں کوانتشار سے بچانے کے لئے آپ نے جو قدم اٹھا یا ،اس سے تو بے شمار مسلم پارٹیاں متنفر ہورہی ہیں ۔ ان کی وضاحت پر ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی عہدہ نہیں چاہئے ، جی جناب ! اتحادفرنٹ کی سرپرستی کیا کوئی ”عہدہ“نہیں ہے ؟ اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا !!

مسلم لیڈران کی اناپسندی کی ایک واضح مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پیس پارٹی نے اتحاد فرنٹ میں شمولیت اختیارکی تو راشٹریہ علماءکونسل نے دیگر دوسری پارٹیوں سے اتحادقائم کیا ۔ خفیہ طور پریہ بھی معلوم ہواہے کہ چنددنوںقبل راشٹریہ علماءکونسل نے پیس پارٹی سے مل کرانتخاب لڑنے کا مشورہ کیا تو پیس پارٹی نے اس سے نے منع کردیا ۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ جب تما م مسلم پارٹیوں کا منشاءمسلمانوں کے حقوق کی بازفت ہی ہے ، انہیں سیاسی طور پر مضبوط ہی کرنا ہے تو تمام مسلم پارٹیوںاتحاد کا مظاہر ہ کیوں نہیں کرتی ہے ؟مولانا ندوی کے لئے ضروری تھا کہ سب سے پہلے مسلم پارٹیوں کو جوڑنے کے لئے قدم بڑھاتے نہ کہ صرف مسلم ووٹوں کو۔ اگر مسلم پارٹیوںکا اتحاد نہیںتو مسلم ووٹوں کا کیسے ہوجائے ، انتہائی قابل توجہ مسئلہ ہے یہ ۔

بہرکیف ! پانچ ریاستوں کے انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی گہماگہمی کی فضا بن گئی ہے اور ہر پارٹی ووٹروں کو راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کئے جارہی ہیں ، ایسے میں ضرورت ہے کہ مذہبی لیڈران اورخودساختہ قائد مسلم ووٹرس کو تذبذب میں نہ ڈالیں اور اسی طرح انتخاب کے بعد مسلم منتخبہ ممبران مسلم ووٹوں کاپاس و لحاظ رکھیں اور مسلم مسائل پر لب کشائی کریں ، ورنہ تو بس اللہ حافظ !!
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92465 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More