یہ جولائی 1977ءکی ایک صبح تھی،
میرے ماموں اجمل خان نے مجھے سائیکل کے آگے اوربڑے بھائی عامراقبال خان
کوپیچھے بٹھایا اورہینڈل کے ساتھ تھیلے کولٹکایاجس میں روٹی تھی ۔اپنے
گھرسے دس منٹ کافاصلہ طے کرنے کے بعدہم کوٹ لکھپت جیل کے سامنے تھے ۔انہوں
نے وہ کھاناوہاں ایک باوردی اہلکارکودیااور ہم جیل کے اندرڈیوڑھی میں چلے
گئے جہاں فوجی آمرضیاءالحق کے انتقام کانشانہ بننے والے میرے والدنے مجھے
اپنے سینے سے لگالیا ۔یوں مجھے ان دنوں جیل کوباہراوراندرسے دیکھنے کااتفاق
ہواجس عمرمیں کچھ واقعات دماغ کے کورے کاغذپرنقش ہوجاتے ہیں اورکچھ فراموش
ہوجاتے ہیں۔ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان ضیائی آمریت کے اندھیروں میں
ڈوباہواتھا ۔فوجی آمرخواہ بنیادپرست ہویاروشن خیال ،ان کے دورآمریت میں
عوام کی آنکھوں سے روشنی اورہونٹوں سے مسکان چھن جاتی ہے۔پھرکئی برس بعد اس
وقت کوٹ لکھپت جیل جاناپڑاجب سابق سٹوڈنٹ لیڈراورمنجھے ہوئے نوجوان
سیاستدان ریاض فتیانہ پرویزی آمریت کے ابتدائی دنوں میں نیب کی گرفت کے تحت
وہاں قید تھے ۔کوٹ لکھپت جیل کے باہرکاڈسپلن دیکھ کرمجھے سپرنٹنڈنٹ کی
صلاحیتوں کااندازہ ہوگیا ۔جوآفیسریااہلکاراپنے کام سے مخلص اوروفادارہوتے
ہیں ان کاکام بولتا ہے۔سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں داخل ہوئے میاں فارو ق نذیرنے
بڑے پرتپاک اندازمیں ملے ۔کچھ دیربعدبرادرم ریاض فتیانہ بھی وہاں آگئے
اورسپرنٹنڈنٹ کے دفترمیں ان سے کافی طویل نشست میں مختلف قومی
ایشوزپرسیرحاصل گفتگوہوئی۔ریاض فتیانہ جرم بیگناہی کی سزابھگت رہے تھے
مگران کے ہم عصرسیاستدانوں نے فوجی آمرپرویزمشرف کے ہاتھوں پربیعت کرلی تھی
۔ریاض فتیانہ نے مجھے ایک سیاستدان کیلئے خصوصی پیغام دیا جومیں نے اس
سیاسی شخصیت تک پہنچادیا اورپھران کے جواب سے ریاض فتیانہ کوآگاہ کردیا ۔
ریاض فتیانہ نے بڑی جوانمردی سے قیدوبندکاسامنا کیا اورسرخروہوکررہاہوئے جس
پران کے اہلیان حلقہ نے ایک بارپھراپنا مینڈیٹ ان کے نام کرتے ہوئے ان کی
بیگناہی پرمہر ثبت کردی۔ان دنوں وہ پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے
چیئرمین اورایک فعال سیاستدان ہیں ،یقینا انسانی حقوق کے حوالے خدمات انجام
دے رہے ہوں گے مگران کاکام میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل ہے وہ اس بات پربھی
غورکریں۔
اس دوران میاں فاروق نذیرسے کئی بار ملاقات ہوئی اورہرباران کے ڈسپلن
اوراپنے فرض منصبی کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ نے مجھے بیحدمتاثرکیا،پھرانہیں
پرموٹ کرکے ملتان ٹرانسفر کردیااوران سے رابطے میں کمی آگئی۔ان کے ملتان
جانے کے جاویدہاشمی پرویزی آمریت کیخلاف علم بغاوت بلندکرنے کی پاداش میں
کوٹ لکھپت جیل آگئے توان کے ساتھ تقریباً ہردوسرے دن ملاقات کیلئے کوٹ
لکھپت جیل جاناپڑتا۔ان دنوں جاویدلطیف کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے ،ایک
باریش جیل سپرنٹنڈنٹ کانمازکے ساتھ لگاﺅمیرے نزدیک دلچسپ اورقابل قدر
تھا۔جاویدہاشمی کی رہائی کے بعدکوٹ لکھپت جیل جانے کااتفاق نہیں ہوالیکن
ایک دوبار کیمپ جیل لاہورجانے کااتفاق ہواجہاں ان دنوں گلزاربٹ سپرنٹنڈنٹ
تھے ،ان کی اصلاحات اوران کے اقدامات سے کیمپ جیل کے ماحول میں نمایاں
بہتری آئی تھی مگرانہیں وہاں سے ہٹادیا گیا۔ایسے لوگ جواس دورمیں اپنی قوت
ارادی کے بل پراداروں کایاپلٹ دیں ان کادم غنیمت ہے۔مگراس دورمیں وہ لوگ
کامیاب ہیں جواپنے کام کے ساتھ وفادارہوں نہ ہوں مگرشاہ سے زیادہ شاہ کے
وفادارضرورہوں۔جس آفیسر کے پیچھے کوئی زوردارسفارش نہیں وہ خوشامدکرنے کافن
جانتا ہو،وہ اس زنگ آلودنظام کے ساتھ زیادہ دیراوردورنہیں چل سکتا۔
مئی 2004ءمیں راقم کو 3ایم پی اوکے تحت گھر سے گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل
منتقل کردیاگیا ۔میاں شہبازشریف نے11مئی2004ءکووطن واپس آناتھا مگرمجھے
6مئی کوتین ماہ کی نظربندی کے احکامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔کوٹ لکھپت جیل
میں رانامشہوداحمدخاں ایڈووکیٹ اور میاں راشدمرحوم اورمیں بیرک میں ایک
ساتھ تھے ۔8مئی کورات تقریباً دوبجے ہمیں نیند سے اٹھاکرسامان باندھنے
کاکہا گیا اورہمیں ہتھکڑیاں لگاکرپولیس وین میں بٹھادیاگیا۔پولیس وین روانہ
ہوئی توہم نے اندازے لگاناشروع کردیے کہ شایدہمیں کیمپ جیل منتقل کیا جارہا
ہے مگرگاڑی کارخ ملتان روڈ کی طرف ہوگیا جوملتان کی سنٹرل جیل کے گیٹ
پرجاکررک گئی وہاں مجھے گاڑی سے اتارلیا گیا اورباقی دونوں میں سے ایک
کوبہاوالپوراوردوسرے کوڈیرہ غازیخان جیل لے گئے ۔12مئی کومیانوالی سے سابق
ممبرقومی اسمبلی انعام اللہ خان نیازی کوبھی مال روڈلاہور سے گرفتارکرکے
سنٹرل جیل ملتان منتقل کردیا گیا ،انہیں وہاں دیکھ کرمجھے افسوس بھی
ہوااورخوشی بھی ہوئی ۔جہاں ہمیں قیدکیا گیا تھا وہ جیل کے اندرایک اورجیل
تھی یعنی سکیورٹی سیل تھا جہاں خطرناک قیدیوں کورکھا جاتا ہے۔وہاں ہمیں
شدیدگرمی کے باوجودپینے کے ٹھنڈے پانی اور گھرسے کھانامنگوانے کی سہولت
نہیں تھی اورنظربندی کے تحت ہمارے کسی عزیزیادوست کوہم سے ملاقات کرنے کی
بھی اجازت نہیں تھی۔18مئی کولاہورہائیکورٹ کے حکم پرہمیں سنٹرل جیل ملتان
سے رہاکردیا گیااوراس دوران جیل انتظامیہ کے معاملات اورقیدیوں کے مسائل سے
آگہی ہوئی۔پنجاب کی جیلیں مختلف انتظامی اورسماجی مسائل سے دوچار ہیں
اورقیدیوں کودرپیش مسائل کے سدباب کیلئے دوررس اصلاحات کی ضرورت ہے
۔حکمرانوں کی اداروں میں بیجامداخلت سے ان کی کارکردگی پرانتہائی منفی
اثرپڑتا ہے۔
ہمارے ہاںحکمران طبقہ اہم عہدوں پر سرکاری آفیسرزکوتعینات کرتے وقت
سمجھداری اورایمانداری کی بجائے ان میںوفاداری اورتابعداری والی صفات کو
زیادہ پسندکر تاہے ۔پھروہ آفیسرعہدہ ملنے کے بعدڈیلیور نہیں کرتا بلکہ
ارباب اقتداراوراپنے ارباب اختیار کے اشارے پرقانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے
۔ہمارے ملک میں قابلیت ،اہلیت اورمیرٹ کی بجائے حکمرانوں کی پسندناپسندکے
مطابق منصب ملتا ہے ۔برابری تونہیں مگرجوبرادری سے تعلق رکھتے ہیں انہیں
ضرورپسندکیاجاتا ہے اورہمارے ہاںیہ سب سے بڑامیرٹ ہے۔پچھلے دنوںمیاں فاروق
نذیر نے اپنے حق کیلئے اصغرعلی گل ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہورہائیکورٹ میں
ایک پٹیشن دائر کی تھی جس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس عمرعطاءبندیال نے چیف
سیکرٹری پنجاب ناصرسعید کھوسہ کوطلب کیااورمعاملہ نمٹانے کاحکم دیا ۔چیف
سیکرٹری پنجاب ناصرسعید کھوسہ نے اس ایشوکا منصفانہ حل تلاش کرنے کیلئے تین
ارکان کی ایک کمیٹی بنائی جو ہوم سیکرٹری شاہدخان ،سینئرممبربورڈآف
ریونیوسمیع سعیداورچیئرمین پی اینڈڈی پنجاب جاویداسلم پرمشتمل تھی ۔اس
کمیٹی کے ارکان نے میاں فاروق نذیراورندیم کوکب وڑائچ دونوں کوسنا مگرابھی
کمیٹی کافیصلہ آناتھا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے حکم پر میاں
فاروق نذیر کوآئی جی جیل خانہ جات لگادیاگیا ۔اگروہ یہ جسارت نہ کرتے
تواپنے حق سے محروم رہ جاتے ۔میاں فاروق نذیر کی یہ جسارت اورجیت عدلیہ کی
آزادی کامظہر ہے۔اگرپاکستان کی عدلیہ آزاداورفعال نہ ہوتی شایدمیاں فاروق
نذیر کبھی اپنے حق کیلئے انصاف کادروازہ نہ کھٹکھٹاتے ۔ان کے عدلیہ
پراعتماد ،ان کی سنیارٹی ،استقامت اورجسارت نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا
اورآج وہ صرف اورصرف میرٹ کی بنیاد پرآئی جی جیل خانہ جات کے منصب
پربراجمان ہیں۔مگران کااصلی امتحان تواب شروع ہوا ہے ۔دیکھنا تویہ ہے کہ وہ
پنجاب کی ایک ایک جیل سے کرپشن ،تشدد،منشیات کی خریدوفروخت سمیت اس کے
استعمال،موبائل فون کے ناجائزاورمجرمانہ استعمال ،قیدیوں پرتشدد کے واقعات
پرکس طرح قابوپاتے ہیں اورقیدیوں کومعیاری کھانوں کی فراہمی کس طرح یقینی
بناتے ہیں۔وہ تنہا زیادہ ڈیلیورنہیں کرسکتے لہٰذاانہیں جیل کلچر میں
انقلابی تبدیلیوں کیلئے ایک انتھک اور مخلص ٹیم کی ضرورت ہے۔ کوئی جیل اس
وقت تک اصلاح گھرنہیں بنے گی جس وقت میزبانوںاورمہمانوں کے درمیان
جیلراورقیدی کارشتہ بحال نہیں ہوگا ۔کیونکہ بااثرقیدیوں کیلئے جیل میں بھی
پکنک کاماحول ہوتا ہے جبکہ کمزورقیدیوں کیلئے جیل کسی جہنم سے کم نہیں
ہوتی۔ |