سال 2011 جب شروع ہوا تب بھی
اکثریت کی یہ رائے تھی کہ یہ سال عوام اور پاکستان کےلئے بہت مشکل اور کٹھن
ہوگا۔مشکلات اور کٹھن مراحل ضرور آئے مگر ایسے نہیں کہ جن سے عوام کی غیرت
جاگ جائے!پورا سال مہنگائی،حملے،دھماکے اور نجانے کیا کُچھ برداشت کرنے کے
باوجود نئے سال کی آمد پر ایسے جشن منائے گئے جیسے کُچھ ہوا ہی نہ ہو اور
یہ قوم اور ملک خوشحال ہوں۔یہی وہ چیز ہے جو حکمرانوں کو اُن کی کرسیوں کے
ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔نئے سال2012کے آغاز سے ہی پھر سے وہی پریشانیوں اور
مشکلات کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے لئے یہ سال
مشکل ہوگا ،عوام پر مزید بم گرائے جائیں گے ،عین ممکن ہے کہ عوام ہوش آجائے
مگریقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ۔کیونکہ جس قوم کو اپنے ضمیر کی صفائی کا
خیال نہ ہووہ ملک سے گندے حکمرانوں کا صفایہ کیسے کر سکتی ہے۔
سال 2012کے بارے میں بین الاقوامی خیال یہ بھی ہے کہ اس سال دُنیا کا خاتمہ
ممکن ہے۔مگر یہ انتہائی بیہودہ خیال کے علاوہ کُچھ بھی نہیں۔جدید سائنس
جتنی بھی ترقی کرلے دُنیاکی تباہی اور قدرتی آفات کی آمد کے بارے یقین سے
کوئی رائے قائم نہیں کر سکتی۔عین اِسی طرح کسی شخص یا کسی قوم اور ملک کے
بارے میں اُس کے خاتمے کی پیشگوئی کرنا غلط ہوگا۔جس شخص کو اپنی زندگی کے
ایک پل کا بھی نہیں پتہ کہ وہ اگلے پل زندہ رہے گا یا مر جائے گا وہ کسی کے
بارے میں پیشگوئی کیسے کر سکتا ہے۔پھر کوئی ایک ملک جسے اپنی ہی معیشیت اور
عوام کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو وہ پوری دُنیا کی تباہی
کا ذکر اُسی صورت میں کر سکتا ہے کہ دُنیا بھر کی عوام کو بھی پریشان کیا
جائے اور باقی ممالک کو بھی اس فکر میں مبتلا کیا جائے کہ جلد تباہی آنے
والی ہے۔اس سال 2012میں پاکستانی سیاست کی صورتحال کے بارے میں بھی کئی قسم
کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔سیاسی میدان کے اُتار چڑھاﺅ کے بارے میں رائے
قائم کرنا اس لحاظ سے غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ سیاسی سیلاب کی آمد کا اندازہ
موجودہ عوامی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔خیر اس سال میں پاکستان سیاسی
لحاظ سے تبدیلی کا منہ ضرور دیکھے گا مگر یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ
یہ تبدیلی عوامی مفاد میں ہوگی یا پھر وہی ہوگا جو پچھلے چونسٹھ سالوں میں
ہوتاچلا آرہا ہے۔بظاہر صورتحال سے تو یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی،ن لیگ،ق
لیگ،جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی پارٹیاں جو حکومت میں پہلے اپنے کارنامے
دیکھا چکی ہیں،وہ اقتدار میں آتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔مگر مشرف کی پارٹی ایک
نئے نام اور بھرپور عوامی تائید کے ساتھ میدان میں اُترتی ضرور نظر آرہی
ہے۔اس کے علاوہ عمران خان اس وقت ملک میں ایسی سیاسی پارٹی کی قیادت کر رہے
ہیں جسے نوجوان نسل کی تائید حاصل ہے اورتحریک انصاف اس وقت ایسی سیاسی
پارٹی ہے جس پر عوام نسبتاًباقی تمام پارٹیوں سے زیادہ بھروسہ کرتی نظر آتی
ہے۔بظاہر یہ سیاسی پارٹی صرف جلسوں میںہی میدان نہیں مار رہی بلکہ عوام میں
مقبولیت اور عوام کی پسندیدہ پارٹی بھی بنتی چلی جا رہی ہے۔مگر یہ ہر گز
نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے ساتھ کیا سلوک
کرے گی۔ |