گزشتہ کئی دنوں سے ملکی سیاسی
حالات میں تیزی سے تبدیلی کے باعث پاکستان میں جمہوری تبدیلی کے آثارات
کافی نمایاں ہوچکے ہیں ۔یہ بات طے ہے کہ فوج کسی بھی غیر آئینی اقدام کا
مرتکب ہونے کو قطعاً تیارنہیں ،اور موجودہ حکومت کو قانونی طریقے سے چاروں
شانے چت کرنے کی خواہش مند ہے ۔حالانکہ پیپلزپارٹی نے انتہائی ٹکراؤ کے
حالات پیدا کرکے فوج کے لیے کافی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کی ہیں ، تاکہ
فوج مجبوراً کسی بھی غیر آئینی طریقے سے ان کی حکومت کو ختم کرکے انہیں
سیاسی شہادت کا رتبہ عطا ءکردے ۔ لیکن فوجی حکام اب تک نہایت صبر اور
استقامت سے کام لیتے ہوئے ان کے خواہشوں پر پانی پھیرتے چلے آئے ہیں ۔پاکستان
پیپلز پارٹی جس نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں بدترین کرپشن اور
لاقانونیت کے جھنڈے گاڑے ہیں ،اہم ملکی اداروں کو تباہ کرنے سمیت مہنگائی
بے روزگاری کے ریکارڈ قائم کرچکی ہے ۔وہ اپنی پانچ سالہ مدت حکومت کو پورا
کرنے میں ہچکچارہی ہے ۔اور مختلف سیاسی چالوں کے ذریعے ایڑی چوٹی کا زور
لگا کر سیاسی شہادت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے ،تاکہ آئندہ انتخابات میں
عوام کے پاس جانے کے لیے ان کے پاس کوئی بہانہ میسر آسکے ۔ملکی سیاسی حالات
کے تبدیلی کے زمرے میں آئندہ کے چند ماہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں ،سپریم
کورٹ میں زیر سماعت NRO عمل درآمد اور میمو گیٹ جیسے بدنام زمانہ حکومت
مخالف مقدمات کے فیصلے آنے کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے اپنی حکومت کو برقرار
رکھنا نہایت مشکل ہوگا ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 2012ءپاکستان میں
تبدیلی کا سال ہے ،اور آئندہ الیکشن مقررہ وقت سے قبل ہونے کے واضح اثرات
موجود ہیں ،جبکہ اس سلسلے میں خودپیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان نے عندیہ
دیا ہے کہ عام انتخابات اکتوبر میں ہونگے ۔لیکن صرف جمہوری تبدیلی سے کسی
بہتری کی امید رکھنا محض خام خیالی ہے ،کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں
گزشتہ 65سالوں سے عوام اس طرح کی کئی تبدیلیاں دیکھ چکی ہیں ،بدقسمتی سے ہر
بار اس ملک کے سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور اسٹبلشمنٹ نے عوام کو مایوسی ،بھوک
افلاس غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ہے ،بار بار
آزمائے گئے ان نام نہاد سیاستدانوں نے عوام سے ان کے جینے کا حق تک چھین کر
انہیں خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے ، انہیں پوری دنیا میں حقیر ،ذلیل و
رسواکر کے تنہا کر دیا ہے ۔ کیا اب کے بارکی تبدیلی عوام کے قسمتوں کو بدل
دے گی یا پھر یہ تبدیلی بھی حسب روایت عوام کو مزید ذلت میں مبتلا کرے گی ؟اس
امر کا انحصار عوام کے کیے گئے اجتماعی فیصلوں پر منحصر ہے کہ عوام کیا
چاہتے ہیں ،کیونکہ اللہ تعالٰی ان قوموں کی حالت کھبی نہیں بدلتا جو
خوداپنی حالت نہیں بدلتے ہیں اگر پاکستانی عوام حقیقی اور تعمیری تبدیلی کے
خواہاں ہیں تو انہیں اپنے نفس سے جہاد کرکے ذات پات ،رنگ نسل ،زبان ،مذہب
اور تمام فروغی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اصل طاقت ووٹ کاصحیح
استعمال کرکے ایک ایسی مخلص قیادت کو سامنے لانا ہو گا جو حقیقی طور پر اس
ملک کو بحرانوں سے نکال سکے ۔بصورت دیگر اگر عوام نے حسب روایت لاشعوری اور
جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کرپٹ ،چور لٹیروں ،بھتہ خوروں کو محض سیاسی
وابستگیوں ،رنگ ونسل ،لسانیت اور ڈر و خوف کی بنیاد پر ووٹ دے کر دوبارہ
منتخب کیا تو پھر اس ملک کا حافظ صرف اور صرف خدا ہی ہوگا ۔عوام کے پاس
پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے ایک اہم و سنہری اور شاید اخری موقع
میسر ہے ،اگر عوام اپنی آئندہ نسلوں کامستقبل روشن و تابناک اور موجودہ
بحرانوں ،لاقانونیت کا خاتمہ اور باقی ماندہ دنیا میں عزت اور وقار چاہتی
ہے تو انہیں اپنے ضمیروں کو جھنجوڑنا ہوگا ،اپنے گریبانوں میں جھانکناہوگا
ان کرپٹ سیاستدانوں کامحض زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اختلاف کرنا ہوگا ۔بار
بار ازمائے گئے ان جماعتوں کے جلسوں جلوسوں کو ویران کرنا ہوگا ،ان بے ضمیر
سیاستدانوں کے عہدوپیماں اورجھوٹے وعدوں کو ٹکرانا ہوگا ،ان کے خوف ودہشت
کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ،ان کے مکر وفریب سے ہوشیار رہنا ہوگا ،مذہب ودین
کے حوالے سے اپنے جذبات کو قابو رکھنا ہوگا ،اور اپنے ووٹ بم کو وہاں گرانا
ہوگا ،جہاں سے خوشحالی ،امن اور روزگار کے چشمے پھوٹ پڑے ،جہاں سے قانون
انصاف اور ترقی کی نہریں جاری ہوسکے ،جہاں سے نکلنے والا ،لاوا ان چور
لٹیروں ،بھگوڑوں کو جلا کر راکھ کردے ، اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک
فلاحی مملکت میں تبدیل کردے ۔ |