دستور ہند میں سیکولر ازم کے
خلاف صف آراءان ٹیم کا سکوت3فروری کو ٹوٹنے کے قریب ہے جبکہ اتر پردیش کے
آئندہ اسمبلی انتخابات میں 8فروری سے 4 مارچ کے دوران 403رکنی ریاستی
اسمبلی چننے کیلئے 7مرحلوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی روایتی ساکھ تو داؤ
پر لگ ہی چکی ہے۔ تاہم ان جماعتوں میں نصف درجن سے زائد ایسے رہنما
ءفرزندان بھی شامل ہیں جن کاوقار بھی دھار پر رہے گا۔ہندوستان کی نسل
پرستانہ روایت کے ان امینوں میں سب سے پہلا نام آتا ہے کانگریس کی صدر
سونیا گاندھی کے بیٹے اور پارٹی جنرل سیکریٹری راہل گاندھی کاجبکہ ان کے
بعد ہیں سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو کے بیٹے اکھلیش یادو! سابق
مرکزی وزیر اور بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ مےنکا گاندھی کے بیٹے ورون
گاندھی ، قومی لوک دل کے صدر اجیت سنگھ کے بیٹے جینت چودھری ، کانگریس کے
سابق صدر جتےدر پرساد کے بیٹے اور مرکزی وزیر جتن پرساد اور بی جے پی کے
سابق صدر راج ناتھ سنگھ کے بیٹے پنکج سنگھ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ
گزشتہ چند سال سے اتر پردیش میں اپنی اور پارٹی کی زمین ہموار کرنے میں
مصروف کار ر ہے ہیں۔
دریں اثناءراہل تو آئے دن اتر پردیش کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے دورے
ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن انتخابی موسم میں اگر ان کا دورہ ہو تو
وہ نہایت معنی خیز ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں ریاست کا پانچ دنوں کا دورہ کرنے
کے بعد راہل نے نہ صرف کانگریس کا انتخابی نقارہ پیٹ کے رکھ دیا ہے بلکہ
ریاست کے سیاسی میدان کا درجہ حرارت بھی آسمان پر پہنچادیاہے‘وہیں اکھلیش
نے انقلاب یا ’کرانتی رتھ‘ پر سوار ہوکر پوری ریاست کا دورہ کیا۔ وہ سماج
وادی پارٹی کے ریاستی صدر بھی ہیں۔ سماج وادی پارٹی سے امر سنگھ کی وداعی
کے بعد سے ہی وہ اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں مصروف ہیں۔کافی حد تک اس
میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ سیاسی حلقوں میں اکثرتذکرہ ہوتا رہتاہے کہ
راہل کا اتر پردیش میں اصل مقابلہ تو اکھلیش سے ہی ہوگا۔حالانکہ سیاسی
میدان میںجینت ابھی نئے ہیں لیکن وہ نوجوان ہیں اور پرجوش ہیں۔ وہ بھی
پارٹی کے بااثر علاقوں میں گلی در گلی اوردربدر گھوم کرفروغی مہم میں غرق
ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ متھرا پارلیمانی حلقہ سے
منتخب ہوکر آئے۔
آئندہ انتخابات میں ان رہنما ءشہزادوں میں کس کی کتنی ساکھ باقی رہے گی‘ اس
کے بارے میںذرائع ابلاغ میں شائع سیاست کے ماہرین کی آراءکافی دلچسپ ہیں۔
جی وی ایل نرسمہا راؤ کے مطابق راہل ہوں یا اکھلیش یا پھر جینت اور ورون سب
سے بڑا وقار کا مسئلہ تو راہل گاندھی کا ہے۔ کیونکہ انہیں پارٹی کے سب سے
بڑے چہرے کے طور پر صف اول میں رکھا کیا گیا ہے جبکہ مستقبل کے وزیر اعظم
بھی سمجھے جارہے ہیں لیکن دیگرصاحبزادگان کے ساتھ ایسامعاملہ نہیں ہے۔
اکھلیش اور جینت سے وابستہ ان کی پارٹی اور والد کی توقعات بھی کم نہیں ہیں
جس پر کھرا اترنا آسان نہیںہے ۔یوں اکھلیش کچھ سال سے مسلسل محنت کر رہے
ہیں اور اپنی شناخت قائم کرنے میں مصرف ہیں لیکن اس سطح پر نہیں پہنچے ہیں
کہ ان کے وقار کو داؤ پرلگنا شمار کیا جاسکے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سماج سائنس شعبہ میں پروفیسر آنند کمار کے
بقول اتر پردیش کے انتخابات میں صحیح معنوں میں سیاسی جماعتوں کی عزت داؤ
لگی رہے گی۔ جہاں تک سیاسی قائدین کے بیٹوں کا سوال ہے ، ان کی ساکھ اس بات
پرجانچی جائے گی کہ کون وراثت سنبھالنے کے معاملے میں اپنی قابلیت ثابت کر
پاتا ہے۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ اتر پردیش کے انتخابات میں راہل ، اکھلیش
، جینت ، پنکج پہلی بار اپنا دم خم اور جوہر دکھائیں گے۔ ایسے حالات میں یہ
منظر انتہائی دلچسپ ہوگا کہ وہ کس طرح خود کو ثابت کرتے ہیں جبکہ میدان انا
کے خوف سے بھی خالی ہے۔انا تحریک کے بارے میں مبصرین کی رائے خواہ جو بھی
ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تحریک نے سیاسی طبقے میں خوف کا جذبہ
ضرور پیدا کر دیا۔ایک ایسے نظام پر اپنا قابو کھو دینے کا خوف جس پر وہ کئی
دہائیوں سے قابض ہیں۔ اس لئے حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ 74 سالہ سماجی کارکن
کے فی الحال ’سبکدوش‘ ہو جانے سے متعدد سیاستدانوں کی خودعتمادی میں قوت
آئی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ 2011 میں چڑھے ہوئے بخارسے راحت حاصل کرنے
کیلئے انہیں کوئی تریاق مل گیا ہو۔
اتر پردیش کے سیاسی اکھاڑے میں انتخابی مہم کانقارہ پٹنے کے بعد سے ہی
مسلسل طور پر یہ لگ رہا ہے کہ انا کی تحریک کا اثر اب بھی کسی حد تک برقرار
ہے۔ ایک مایاوتی کو ہی لیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے وقفے میں لکھنو کے اقتدار پر
قابض وزیر اعلٰی نے بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے 20 وزراءکو باہر کا
راستہ دکھا دیا ۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ مایاوتی نے اپنے دبدبے کا مظاہرہ
کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی لیکن جس طرح انہوں نے اپنی کابینہ میں
’صفائی مہم ‘چھیڑی ، اس سے یہی لگتا ہے کہ بی ایس پی سربراہ بخوبی جانتی
ہیں کہ بدعنوانی کے الزامات نے ان کی شبیہہ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔
دلت ووٹ بینک کی وجہ سے خوداعتمادی سے لبریز مایاوتی نے برسوں تک اس قسم کے
الزامات کی کبھی پروا نہیں کی کہ وہ ایک بدعنوان حکومت کی سرپرست ہیں لیکن
انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں ، لگتا ہے کہ اب مایاوتی بھی بدعنوان
لیڈروں کے تئیں عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت کو نظر انداز کرنے کا خطرہ نہیں
مول لے سکتیں۔بہر کیف‘ اتر پردیش میں مایاوتی کے کٹر سیاسی حریف سماج وادی
پارٹی کا بھی مثال لیں۔ گزشتہ ہفتے سماج وادی پارٹی کے شہزادے اکھلیش یادو
نے کچھ ایسا کیا جو ان کے والد ملائم سنگھ یادو شاید کبھی نہیں کر پاتے۔
انہوں نے ڈی پی یادو ، جنہیں کبھی مغربی اتر پردیش کا غیرمتنازع ڈان مانا
جاتا تھا ،اسی ’ڈان‘ کوانھوں نے سماج وادی پارٹی میں شامل کرنے سے انکار کر
دیا اور ڈان کی اندراج کی وکالت کرنے والے پارٹی کے ترجمان موہن سنگھ کو
بھی ان کے عہدے سے بے دخل کر دیا۔ اکھلیش نے بڑی معصومیت سے عوامی طور پر
یہ بھی کہا کہ سماج وادی پارٹی میں اب مافیا کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جرائم پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کے الزامات سے داغداردامن کی حامل کسی
پارٹی کیلئے صاحبزادہ اکھلیش کا یہ قدم ایک اہم حکمت عملی میں تبدیلی کی
جانب اشارہ کرتا ہے۔ ملائم - امر سنگھ کے زمانے میں سماج وادی پارٹی
کو’'نقد لو اور آگے بڑھو‘ پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو دولت مندی
اورطاقت کے استقبال کرنے کو ہمیشہ بخوشی تیار رہتی تھی۔ اب ڈی پی یادو کو
پارٹی میں شامل نہ کرکے قائد کے بیٹے اکھلیش ‘عوام کویہ پیغام دینے کی سعی
کر رہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی اپنے ماضی کو بھلا دینے کے فراق میں ہے۔جو
کوشش اکھلیش یادو اتر پردیش میں اب کر رہے ہیں ، وہی عمل یوراج راہل گاندھی
کافی عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے انتخابی مہم کے دوران اپنی
ہر تقریر میں راہل زور دے کر کہہ رہے ہیںکہ دو دہائی سے اتر پردیش کو
کاسٹcast(ذات پات ‘مذہب و ملت) ، کرپشنcorruption(بدعنوانی ‘رشوت خوری) اور
کرائمcrime(جرائم) کے پھندے نے جکڑ رکھا ہے جس سے اسے آزاد کرانا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ شفافیت ایک ایسی انتخابی حقیقت ہے جس سے کوئی پارٹی انکار نہیں
کر سکتی لیکن محض مجرمانہ پس منظر والے امیدواروں کو ٹکٹ نہ دے کر کیا راہل
یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ اوران کی پارٹی ان الزامات سے بری ہو جائیں گے جس
کا سامنا کانگریس زمینی سطح پر کر رہی ہے ۔بابری مسجد سے متھرا کی عیدگاہ
تک نہ جانے کتنے ایسے مسائل ہیں جنھیں کانگریس کے یوراج جانتے توہیںلیکن حل
نہیں کرتے جبکہ ان کی پارٹی کیلئے اتر پردیش میں صرف ایک ہی نکتہ سے
امیدلگائے بیٹھی ہے اور وہ یہ کہ وہ رائے دہندگان کو باور کرواسکیں کہ مرکز
میں ہوئے تمام ناانصافیوں‘بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کے باوجود اتر پردیش میں
کانگریس آج بھی ’سب سے کم بدعنوان‘ سیاسی جماعت ہے۔بی جے پی بھی یہی یقین
دہانی کروانے کے فراق میں تھی لیکن بابوسنگھ کشواہا اس کیلئے زہر ثابت
ہواجبکہ شمولیت گویاخودکشی بن گئی ۔ پارٹی کے اندر اور باہراس کی اتنی شدید
نکتہ ہوئی کہ بی جے پی کو بالآخر ایک عجیب و غریب قدم اٹھانا پڑا کہ
بابوسنگھ کشواہا خود کو اس وقت تک کیلئے پارٹی سے ’معطل‘ کر دیںتاوقتیکہ ان
پر لگے ہوئے الزامات غلط ثابت نہیں ہو جاتے۔ شاید کچھ عرصہ قبل بی جے پی کو
اس طرح کے اعتراضات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن’ صاحبزادگان‘ کی موجودگی
میں اب وہ قطعی برداشت نہیں کر سکتی کہ اسے ’بدعنوانوں کو تحفظ دینے والی
پارٹی‘ کے طور پر دیکھا جائے۔
البتہ ان سب واقعات میں سے کسی کو بھی منتخب عوامی نمائندوں کے معیار میں
ڈرامائی تبدیلی لانے والی نہیں پیش رفت تسلیم نہیں کیاجا سکتا ، خاص طور
پرطویل عرصے کے دوران انتخاب میں اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے لیکن سیاست کا
مطلب محض حقیقت پسندی نہیں بلکہ اتباع حق بھی ہے۔ اور یہیں سے دقیاوسی
روایات پر ضرب پڑتی ہے۔اتر پردیش کے 35 سال سے کم عمر والے متعددرائے
دہندگان جن میں سے بعض تو شاید پہلی مرتبہ ہی ووٹ دے رہے ہوں گے ،
عالمیگیریت سے نبرد و آزما ماحول میں مثبت تبدیلی کیلئے بے چین ہیں۔ یہ
سیٹلائٹ ٹی وی نسل گزشتہ تقریبا ایک سال سے موقع پرست بلکہ نسل پرستی پر
مبنی‘ نا انصافی اور عدم مساوات کی حامل سیاسی قائدین کی کھیپ کو جھیل رہی
ہے۔ اس نسل کو لوک پال کے بارے میں بھلے ہی زیادہ علم نہ ہولیکن عوامی
مسائل کو حل کرنے میں ناکام ابن الوقت بدعنوان لیڈروں کو شکست سے دوچارہوتے
ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔حق پرستی حالانکہ محدودہے لیکن سیاسی طبقے کے سامنے
راہ راست پرچلنے والوں کی متعددمثالیں ہیں۔ چھ ماہ قبل بی جے پی کو اس لئے
اتراکھنڈ میں انتخابات سے پہلے اپنا وزیر اعلٰی تبدیل کرنے کو مجبور ہونا
پڑا تھا۔ بی جے پی-اکالی دل اتحاد کو پنجاب میں اسی لئے شدید چیلنجوں کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دریں اثناءاتر پردیش میں 8فروری سے شروع ہونے والے
چناؤ پروگرام کے ساتھ ہی ٹیم انا نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ وہ تین فروری
سے ریاست میں مہم شروع کرے گی ۔ تا ہم بدعنوانی مخالف کارکن انا ہزارے کی
اس مہم میں شرکت غیر یقینی ہے کیونکہ انا ابھی حال ہی میں پنے کے ایک
اسپتال سے رخصت ہوئے ہیں لیکن ڈاکٹروں نے انہیں ایک مہینے آرام کا مشورہ
دیا ہے۔ٹیم انا کے اہم ممبروں کا کہنا ہے کہ وہ چند دنوں میں اپنی مہم
منصوبے کا اعلان کریں گے ۔ اس مہینے کے شروع میں ٹیم کے اہم ممبروں نے کہا
تھا کہ وہ پنجاب ، اتر پردیش اوراتر اکھنڈ جیسی ریاستوں میں ہونے والے چناؤ
میں کسی ایک پارٹی کونشانہ نہیں بنائیں گے نیز کمزور لوک پال بل لانے پر
کانگریس کو سزا دینے کیلئے سخت مہم چلا ئیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش
میں ہر پارٹی اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں دولت اور عہدوں
کی پرستش ہو‘ بدعنوانی اور نا انصافی سے اجتناب نہ برتا جاتا ہو ایسی
جمہوریت کے نقاب سے لوگ کیسے دھوکہ کھالیں گے؟جبکہ اس سے بھی شدید بحران
سیاست میں کنبہ پروری کے تسلط کی وجہ سے پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔ سیاست اب
بھی شفاف نہیں ہے۔ اس کیلئے حق پرستی پر مبنی شفاف تحریک کی ضرورت پڑے گی‘
صاحبزادگی کی نہیں۔ |