میاں نواز شریف کا یہ بیان ایسے
ہی لگا جیسے گھنٹوں سے گئی ہوئی بجلی اچانک لوٹ آئے، اگرچہ مہنگائی ،
بدامنی اور غیر یقینی جیسی کیفیات نے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کررکھا ہے،
مگر سیاستدانوں کی مہربانی ہی ہے کہ وہ اس قسم کے بیانات جاری کردیتے ہیں،
یاجوش خطابت میں ایسے اقوال زریں چھوڑ جاتے ہیں کہ لوگوں کے چہروں پر بے
ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اب یہ کام خاص سیاسی رہنما ہی نہیں کرتے ،
بلکہ ملک کے مقبول ترین لیڈر بھی ایسی باتیں کررہے ہیں، جو ایک دفعہ تو غم
بھلادیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں غم بھلانے کی ضمانت مستقل نہیں، کیونکہ بعض
اوقات غم عارضی طور پر غلط ہوتا ہے، بعدمیں کرب کی صورت میں پھر نازل
ہوجاتا ہے۔
سابق وزیراعظم نے ایک ہی جلسہ میں کئی اہم اور دلچسپ باتیں کیں، انہوں نے
کہاکہ ”ماضی میں آمروں کا ساتھ دینے والے ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیئے“
میاں صاحب کا مطالبہ عوام کے دل کی آواز ہے، اگر وہ اس کے ساتھ آمروں کے
احتساب کی بات بھی کردیتے تو بھی عوام کو مزید خوشی ہوتی۔ عوام تو ایسے
احتساب کے منتظر ہیں، مگر ”نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا“ کے مصداق
عوام ایسی خواہشات کی تکمیل سے میسر آنے والی خوشیوں سے مستقل محروم ہیں۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان ججو ں کا تو احتساب ہو جنہوں نے آمروں کا ساتھ
دیا تھا ، ان سیاستدانوں کا احتساب کیوں نہ ہو جنہوں نے آمروں کا ساتھ دیا
تھا۔ اگرمعیار یہی ہے کہ آمروں کا ساتھ دینے والوں کا احتساب درکار ہے تو
پھر بہت سے سیاستدان بھی احتساب کے قابل ہیں۔
معاملہ صرف آمروں کی حمایت تک ہی محدود نہیں، خود میاں صاحب کی سیاسی اٹھان
ہی آمریت کی گود میں ہوئی ، تربیت بھی وہیں سے پائی، ادھر ہی پاؤں پاؤں
چلنا سیکھا اور وہیں سے سیاسی لڑکپن اور جوانی میں قدم رکھا۔ ان کی سیاسی
جوانی بھی اسی آمریت کی چھتری تلے گزری، آمریت ختم ہوئی تو خود کو ان کا
وارث قرار دیا پھر حالات بدل گئے، وراثتیں بھی ختم ہوگئیں، موقف بھی تبدیل
ہوگئے، لیکن یہ کبھی نہ ہوا کہ اپنی سرپرست آمریت کی مخالفت کی ہو، یہ مروت
کی ایک اچھی علامت ہے۔ البتہ یہ بات قرین انصاف نہیں کہ ایک آمریت کے
احتساب کی بات کی جائے اور اپنی سرپرست آمریت کے لئے احتساب کے معاملہ میں
خاموشی کی بکل مار لی جائے۔
میاں نواز شریف نے ایک اور بات بھی بڑی دلچسپ کی، ”اگر ہمارے مستعفی ہونے
سے حکومت جاتی ہے تو ہم ابھی تیار ہیں“۔ بہت محتاط رہے ، صرف اعلان کیا،
عمل کا ارادہ نہیں کیا۔ کیا نواز شریف کو نہیں معلوم کہ ان کی پارٹی کے
مستعفی ہوجانے کے بعد اسمبلی کے حالات یکسر تبدیل ہوجائیں گے، اتنی بڑی
تعداد میں سیٹیں خالی ہونے سے حکومت ضمنی الیکشن کروانے کی پوزیشن میں نہیں
ہوگی، وہ بھی ایسے موسم میں جب ہر جانب زوال اور خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے
ہیں، ایسے میں تو گرتی ہوئی دیواروں کو ایک معمولی سا دھکا ہی کافی ہوتا
ہے۔ ان کے استعفوں سے ایک تحریک برپا ہوسکتی ہے، مگر میاں صاحب ایسا نہیں
کرتے، اوپر سے یہ ضد بھی ہے کہ ہم فرینڈلی اپوزیشن نہیں۔
ن لیگ نے ”گو زرداری گو“ کا ترانہ بھی کچھ روز تک خوب الاپا، نہ جانے کیوں
آخر خاموش ہورہے، زرداری کو (کہیں) بھیجنے کی خواہش تو بہت کی مگر منصوبہ
بندی اور عمل کی طرف توجہ نہ کی ، شاید ایسا چاہتے ہی نہ تھے۔ خوش قسمتی سے
میاں نواز شریف اس وقت بھی ملک کے مقبول ترین رہنماگنے جاتے ہیں، مگر ان کے
اعمال وافعال میں تضاد ہوتا ہے، حکومت کے خلاف بیان بازی کرنے میں دونوں
بھائی اپنی توانائیاں خوب صرف کرتے ہیں، مگر عمل کے وقت جمہوریت بچانے کے
دعویدار بن کر حکومت کا ساتھ دینے کے پر مجبور ہوجاتے ہیں، صاف کیوں نہیں
کہتے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلے۔ایک طرف اپنے بارہ سال ضائع
ہونے کی بات ہے تو دوسری طرف مشرف کے خلاف ابھی تک پراسرار خاموشی؟میمو کے
خلاف تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیا، ایک جمہوری حکومت ختم کرنے کے جرم
کاارتکاب کرنے والے مشرف کے خلاف عدالت نہیں گئے۔ خدایا! ہمارے قائدین تضاد
بیانی کب ختم کریں گے؟ |