”اعتزاز احسن نے سینیٹ کی سیٹ کی
خاطر اپنا موقف تبدیل کر لیا ۔۔۔یو ٹرن لے لیا۔۔۔زرداری اور گیلانی کی
کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے میدان میں آگئے۔۔۔این آر او کے مقدمے میں بھاری
فیس حکومتی خزانے سے وصول کریں گے۔۔۔گویا اعتزاز احسن ایک قلابازیاں کھانے
والا ،لالچی ،مالی مفاد اور عہدوں کے پیچھے بھاگنے والا ،بدعنوانیوں کو
تحفظ دینے والا ۔۔۔ بے اصول شخص وغیر ہ وغیرہ ۔ حیرت کی بات ہے کل کا قومی
ہیرو آج غدار اور زیرو کے طورپر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔اس پر تفصیلی تحریر
اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ بالفرض اعتزاز احسن کی شخصیت کے حوالے سے اس
پروپیگنڈے کودرست بھی مان لیا جائے تو پھر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آسمان
سے کوئی فرشتے ہی لے آئیں۔۔اس وقت اعتزاز احسن کی شخصیت کی بجائے میری
تحریر کا مرکزی نقطہ وہ پس منظر ہے جس سے گوشہ عافیت میں بیٹھے اعتزاز احسن
یہ سارے الزامات اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو گئے ۔
حکومت کے وکیل اورغیر اعلانیہ ترجمان بابر اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس
ملا ۔موصوف نے عدالت سے باہر آکر پنجابی فلموں کے ہیروسلطان راہی (مرحوم )
کی طرح عدالت کو اس طرح للکارا ”نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا۔کیوں سوہنڑیا دا
گلاں کراں۔میں تے لکھ واری بسم اللہ کراں“ ایک یہ سوچ ہے اور دوسری طرف
وزیر اعظم کو 16جنوری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا تو عدالت میں اس
موقع پر موجود وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے کوئی بھڑک مارے بغیر
انتہائی سنجیدگی اور تشویش کے ساتھ میڈیا کے سامنے بات کرتے ہوئے کہاکہ
”وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کا نوٹس معمولی بات نہیں ۔ اس معاملے پر مشاورت
کے بعد رد عمل دیا جائے گا۔“بات صرف اتنی ہے یہ ایک اورسوچ تھی جس کی سرشت
میں بھڑکیں ،گالیاں اور لڑائی سرے سے موجود ہی نہیں۔17جنوری عدالت عظمی نے
بابر اعوان کی وکالت کا لائسنس عارضی طورپر معطل کیا توموصوف اپنی گاڑی میں
بیٹھے اور سیدھے ایوان صدر پہنچ گئے ۔سرکاری میڈیا جتنی مرضی تردید کرے مگر
یہ سچ ہے کہ”ڈاکٹر“ بابر اعوان نے اپنی زبان کی چالاکی سے صدر زرداری کو اس
بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ عدلیہ کو ”زوردار“جواب دینے کے لیے ناگزیر ہے
کہ انہیں وزیر قانون بنا دیا جائے۔قصہ یوں ہے کہ وزیر قانون مولا بخش
چانڈیو کو ایوان صدر طلب کرکے بتایا گیا کہ وسیع تر ”قومی مفاد“ میں آپ
وزارت قانون سے مستعفی ہو جائیں۔جس پر انہوں نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے لبیک
کہا۔دوسری جانب ایک اور سوچ کام کر رہی تھی جس کی نمائندگی اعتزاز احسن
،رضاربانی ،قمر الزمان قائرہ،خورشید شاہ،مخدوم امین فہیم،آفتاب شابان
میرانی،یوسف تالپور اور اس قبیل کے بہت سے دوسرے لوگ کر رہے تھے۔ وزیر اعظم
اپنے وکیل اعتزاز کے ساتھ بیٹھے تھے کہ انہیں یہ خبر ملی مولا بخش چانڈیو
مستعفی ہو رہے ہیں اور بابر اعوان کو دوبارہ وزیر قانون بنایا جا رہا
ہے۔وزیر اعظم اور صدر کے درمیان ممکن ہے کہ اختلاف رائے ہوتا رہا ہو مگر اب
کی بار وزیر اعظم پہلی بار صدارتی حکم کی ”نافرمانی “ کا فیصلہ کر چکے
تھے۔انہوں نے بذریعہ فون صدر صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ فیصلہ
عدلیہ اور حکومت کے درمیان انتہا کوپہنچے ہوئے تناﺅ کے ماحول پرمزید تیل
چھڑکنے کے مترادف ہوگاجس کے نتیجے میں کوئی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔اس
کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے صدر کو صا ف لفظوں میں بتا دیا کہ اگر واقعی ہی
مولابخش چانڈیو نے استعفیٰ دے دیا ہے تو وہ بحیثیت وزیرا عظم بابر اعوان کے
علاوہ کسی بھی معقول شخص کا بطور وزیر قانون نوٹیفکیشن جاری کرسکتے ہیں۔اس
ساری کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سینٹ کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے وزیر
قانون کو پیغام دیا گیا کہ وہ اجلاس سے اٹھ کر فوری طور پر پارلیمنٹ ہاﺅس
کے باہر کھڑے میڈیا کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں اپنے مستعفی ہونے کی تردید
کریں اور ایسا ہی ہوا۔اس سے ہر گز یہ تاثر نہیں لینا چاہیے کہ وزیر اعظم
اور صدر کے درمیان کوئی محاذ آرائی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے سے
پیپلز پارٹی کے سنیئر اور سنجیدہ رہنما ان کوششوں میں مصروف تھے کہ کسی طرح
ایوان صدر کے ”شاہینوں “کی اداروں کے ساتھ اور خاص کر عدالت عظمیٰ کے ساتھ
تصادم اور محاذ آرائی کی روش کوختم کر کے حکومت کو مسخرے قسم کے ترجمانوں
کے شر سے محفوظ بنایا جائے ۔
بالآخر پارٹی کا سنجیدہ طبقہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوا اور محاذ آرائی کے
بجائے وزیر اعظم احترام کے ساتھ عدالت عظمی میں پیش ہوئے ۔دنیا کو کم از کم
یہ تاثر تو گیا کہ ایک ملک کا وزیر اعظم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا اپنی
صفائی پیش کر رہا ہے۔اگر اس جگہ پر پرانے ”جادوگر “ ہوتے تو شاید ہماری
تاریخ کا بد ترین سانحہ جس کی بہت سے لوگ توقع لگائے بیٹھے رو نما ہوجاتا ۔
کاش پارٹی کے جو چہرے اورسوچ 19فروری کو سپریم کورٹ میں نمائندگی کرر ہے
تھے۔ چار سال پہلے انہیں وہ مقام دے دیا جاتا تو آج پیپلز پارٹی جس رسوائی
سے گزر رہی ہے کم از کم اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ |