پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا اور
ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد جہاں تمام مکتبہ ہائے فکر کے چیدہ چیدہ لوگ اور
راہنما اکثر میڈیا سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں یہ چسکا کافی
حد تک وکلاءکو بھی لگ چکا ہے، خصوصاً وکلاءتحریک کے دنوں میں جہاں کسی چینل
کا کیمرہ مین اپنے کیمرے کو ”آن“ کرکے کھڑا پایا جاتا تھا وہاں نوجوان
وکلاءکا جم غفیر نعرے لگاتا پہنچ جایا کرتا تھا۔ تحریک کی ہی بدولت پاکستان
کے عوام وکلاءکے بڑے بڑے ناموں سے آشنا بھی ہوئے اور انہیں جلسوں، جلوسوں،
عدالتوں کے باہر اور ٹاک شوز میں محو گفتگو بھی دیکھنا شروع کیا۔ مشرف دور
میں جب پرویز مشرف کی صدارتی اہلیت کو چیلنج کیا گیا تو اس وقت دنیا جہان
کا میڈیا سپریم کورٹ کے باہر موجود ہوا کرتا تھا اور اکثر صحافی حضرات
سپریم کورٹ میں جاتے ہوئے اور دلائل دے کر آتے ہوئے بڑے بڑے وکیلوں سے
چھوٹے چھوٹے انٹرویو بھی لیا کرتے تھے۔ اسی طرح وکلاءتحریک میں ایک وقت
ایسا بھی تھا جب تحریک کی لیڈر شپ کے ایک اشارے پر ہزاروں وکیل اکٹھے
ہوجایا کرتے تھے، بلا شبہ اس لیڈر شپ میں اعتزاز احسن ایک بڑا نام تھے۔
وکیلوں کا مجمع ہو اور اعتزاز احسن تقریر کررہے ہوں اور ان سے ان کی مشہور
زمانہ نظم سنانے کا تقاضہ نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اعتزاز احسن
بھی بڑے ذوق و شوق سے اپنی آزاد نظم ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی....“ سنایا
کرتے تھے اور پورا مجمع ان کے ساتھ ساتھ گنگنایا کرتا تھا۔ 19 جنوری کو
سپریم کورٹ کے باہر جس طرح کے نعرے لگائے گئے اور اعتزاز احسن کو بات نہ
کرنے دی گئی وہ کوئی اچنبھا نہیں بلکہ اس کے پیچھے کافی سارے عوامل کارفرما
ہیں۔وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناءپر ایسا ہوا، اس کے لئے کچھ زیادہ ماضی
میں جانے کی ضرورت نہیں، صرف پچھلے چند سال کی تاریخ ہی کافی ہے۔
وکلاءتحریک کا پہلا سنگ میل، پہلا لانگ مارچ تھا جس کی تیاریوں کے سلسلہ
میں اعتزاز احسن نے پورے ملک کے طول و عرض کا دورہ کیا ، سول سوسائٹی اور
وکیلوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اعتزاز احسن اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں
لانگ مارچ کی بھرپور تیاری کرنا چاہئے اور سارے وکیل اس نیت سے اسلام آباد
جائیں گے کہ اگر ہمیں چیف جسٹس سمیت معزول ججوں کی بحالی کے لئے ”دھرنا“
دینا پڑے تو ہمارے پاس مکمل ساز و سامان ہونا چاہئے جس میں گڑ اور چنے بھی
شامل ہوں، ایسی باتیں کہتے وقت وہ چینی رہنما ماﺅزے تنگ کے لانگ مارچ کی
مثالیں بھی دیا کرتے تھے ۔ اعتزاز احسن اس وقت بہادری کاا ستعارہ بن چکے
تھے اور لوگ 89 ءمیں ان کی طرف سے بھارت کو سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں فراہم
کرنے کو بھی بھول چکے تھے۔ ان کے کٹر مخالف بھی ان کے گرویدہ ہوچکے تھے
لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اپنے نوجوان وکیلوں کو دھرنے کے لئے تیار
کرنے والے اعتزاز احسن نے میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد دھرنا نہ دینے کا
اعلان کردیا۔ مجھ سمیت وکلاءکی اکثریت کا پہلا تاثر یہی تھا کہ ”ہمارے ساتھ
ہاتھ ہوگیا“ اسی وجہ سے اس وقت نوجوانوں وکلاءکا ایک گروپ ایسا بھی تھا جس
نے اعتزاز احسن کا کہا ماننے سے صاف انکار کردیا لیکن چونکہ وکلاءکی اکثریت
اپنے ”قائد“ کے احکامات کی پابند تھی اس لئے وہ لانگ مارچ ”ناکام“
ہوگیالیکن پہلے لانگ مارچ کی ناکامی سے اکثر وکلاءکے دلوں میں ایک گرہ پڑ
گئی ۔ اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا اور چشم فلک کو یہ نظارہ بھی دیکھنا
پڑا کہ وہی وکیل جو اعتزاز احسن کے سٹیج پر آنے کے بعد ہمہ تن گوش ہوجایا
کرتے تھے اور ”پن ڈراپ خاموشی“ چھا جایا کرتی تھی جیسا کہ الطاف حسین کے
جلسوں میں ہوتی ہے، وکلاءکی اکثریت نے اسی اعتزاز احسن کی بات سننے تک سے
انکار کردیا۔
سرگودھا کا وکلاءکنونشن مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب علی احمد کرد کے بعد
اعتزاز احسن کو خطاب کی دعوت دی گئی تو وکلاءنے آصف زرداری کے خلاف نعروں
سے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اعتزاز احسن کی تقریر سننے سے انکار کردیا اور
چیف جسٹس کو خود سٹیج پر آکر وکیلوں کو سمجھانا پڑا۔ وجہ کیا تھی، ایک تو
لانگ مارچ سے دھرنے کے پروگرام کو نکالنا اور دوسرا پیپلز پارٹی کی حکومت
کے بارے میں نرم رویہ رکھنا اور وکلاءکو ”گو زرداری گو“ کے نعروں سے روکنا
تھا۔پھر دوسرے لانگ مارچ کی داغ بیل ڈالی گئی اور اسے گوجرانوالہ پر ختم کر
دیا گیا، جج بحال ہوگئے لیکن شکوک و شبہات ختم نہ ہوسکے۔ بلاشبہ دوسرے لانگ
مارچ میں بھی اعتزاز احسن نے ایک قائدانہ کردار ادا کیا البتہ یہ الگ بات
ہے کہ جنرل حمیدگل نے مجھ سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ پہلے لانگ
مارچ میں بھی اعتزاز احسن اور میاں نواز شریف نے غداری کی اور دوسرے میں
بھی کیونکہ دونوں ہی اس سسٹم کو بچانے کے لئے سرگرم تھے ورنہ اگر دوسرے
لانگ مارچ میں وکلاءاور عوام انقلاب کے جذبات کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جاتے
تو شائد حقیقی معنوں میں یہ قوم آزاد ہوجاتی۔ بہرحال عدلیہ کی بحالی بھی
عوام، وکلاءاور میڈیا کی ایک بڑی فتح تھی کیونکہ اس سے پہلے کم از کم
پاکستان میں ایسا کوئی ”رواج“ موجود نہیں تھا ۔
اعتزاز احسن جب چیف جسٹس کے وکیل تھے اس وقت یہ کہا کرتے تھے کہ آئین اور
قانون کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے جس سے انکار نہیں لیکن مشرف کو کوئی
اخلاقی گراﺅنڈ حاصل نہیں ہے ، وہ اس وقت مشرف کے بطور صدر استثنیٰ کے بھی
اس طرح قائل نہیں تھے بلکہ سپریم کورٹ میں حضرت عمر ؓکے عدالت میں پیش ہونے
کی مثالیں بھی دیا کرتے تھے۔ بعد ازاں این آر او عملدرآمد کیس میں بھی وہ
اپنی رائے دے چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تابع حکومت کو ہر حال میں
سوئس عدالت کو خط لکھنا پڑے گا اور حکومت خط لکھنے سے انکار نہیں کرسکتی
لیکن 19 جنوری کا دن اعتزاز احسن کی زندگی کا ایک نیا موڑ ہے اور ان
وکلاءکی، ان سول سوسائٹی کے متحرک لوگوں کی زندگیوں کا بھی جن کے دلوں میں
اعتزاز احسن کے وہی جملے گونجتے تھے کہ ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی....“۔
اعتزاز احسن ایک وکیل کے طور پر کسی کا کیس بھی لے سکتے ہیں اور عدالت کے
سامنے اپنے موکل کے حق میں اور اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی دلائل
دے سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اعتزاز احسن آج سے پہلے صرف ایک وکیل
ہی تھے؟ کیا انہوں نے عدلیہ بحالی تحریک میں صرف ایک وکیل کا کردار ادا کیا
تھا؟ اگر وہ صرف ایک وکیل کے طور پر چیف جسٹس کی وکالت کرتے تھے تو ان کی
گاڑی ڈرائیو کرنا اور پورے ملک میں وکیلوں کے بڑے بڑے جلسوں، جلوسوں اور
ریلیوں کا انعقاد تو ان کی ذمہ داری ہرگز نہیں تھا، کیوں انہوں نے ایک طرف
چیف جسٹس کی وکالت کی اور دوسری طرف مشرف کو للکارتے بھی رہے، کیا یہ ایک
وکیل کا کام تھا؟ اگر یہ ایک وکیل کا کام نہیں تھا تو کیوں وہ تحریک چلائی
گئی جس کے نتیجے میں ساہیوال کے وکلاءآگ سے بھون دئے گئے، جس کی پاداش میں
طاہر پلازہ کو جلا کر انسانوں سمیت ملیا میٹ کردیا گیا اور جس کی وجہ سے 12
مئی کے دن پچاس سے زیادہ نہتے انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگر
انہیں صرف وکالت ہی کرنی تھی تو کیوں چیف جسٹس کو پاکستان بھر کی سڑکوں پر
لئے پھرتے تھے؟ اگر اس وقت اعتزاز احسن نے ایک وکیل سے بڑھ کر اس قوم کے
ایک بڑے لیڈر کا کردار ادا کیا تھا تو آج بھی یہ قوم ان سے اسی کردار کی
متقاضی تھی۔ وہی سپریم کورٹ کہ جس کی بحالی کے لئے سینکڑوں جانوں کو قربان
کیا گیا، اسی سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھا جائے، سوئس
بنک میں اسی ریاست کے اربوں روپے شب خون مار کر لیجائے گئے ہیں جن کی واپسی
کا تقاضا پوری قوم کررہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے خون
میں شامل ہے جس کا اظہار انہوں نے مجھ سمیت بہت سے لوگوں سے اکثر کیا ہوا
ہے لیکن یہ قوم اپنے اس راہنما سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ
اعتزاز احسن! آپ بھی اندر سے صرف ایک جیالے ہیں؟ آپ بھی بالآخر ایک شخص کی
کرپشن کو استثنیٰ کے ”کمبل“ میں چھپانے کی کوششوں کا حصہ بن ہی گئے، ہمیں
کسی ”جیالے“ اعتزاز سے کوئی گلہ نہیں ، گلہ ہے تو دھرتی کے اس بیٹے سے، وطن
کے اس سپوت سے جو ریاست کو ماں کا درجہ دیا کرتا تھا اور اب وہ انہیں لوگوں
کی وکالت کرے گا، ان کو بچانے کے لئے اپنا زور لگائے گا، اپنی وکالت کے
جوہردکھائے گا جنہوں نے اس دھرتی ماں کو لوٹا ہے، جنہوں نے اس ریاست کو
اندر سے کھوکھلا کررکھا ہے اور اس کے بدن سے بوٹیاں تک نوچ رہے ہیں۔ سوئس
بنکوں میں پڑے ہوئے کروڑوں روپے اس ریاست اور ریاست کے سپوتوں کے ہیں۔ پلیز
اعتزاز صاحب! آئندہ صرف وکالت کرنا، مجرموں کو، چوروں کو، لٹیروں کو بچانے
کی کوشش کرنا، اس ریاست کی، اس دھرتی ماں کی اور اس کے بے یار و مددگار
بچوں کی بات کبھی نہ کرنا....پلیز! |