محکمہ تعلیم کی حالت

ارکان پنجاب اسمبلی اپنے وزیرتعلیم پر برس پڑے، وجہ اس بارش کی یہ ہوئی کہ وزیرتعلیم پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے چار سالوںمیں 33میں سے 13سوالات کے جوابات نہیں دیئے، اورجن کے دیئے ، وہ بھی اکثر غلط تھے ۔ ایک معزز ممبر نے کہا کہ وزیر موصوف سے پوچھے گئے سوال گندم جواب چنا ہیں، وزیرتعلیم کو اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیئے۔ ایک رکن نے کہا کہ ہم بچوں کے لئے سائنس لیبارٹری نہیں بنائیں گے تو بچے خاک پڑھیں گے۔ دیگر ارکان نے بھی جوابات غلط دینے پر برہمی کا اظہار کیا، اس ماحول میں وزیر تعلیم بے بس نظر آئے ۔وزیرتعلیم نے اسمبلی کو یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں 18ہزار سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے، جس کے لئے 150ارب کی خطیر رقم درکار ہے ۔

ارکان خوب جانتے ہیں کہ وزیرتعلیم پر مختاری کی تہمت ہی ہے، اول تو عرصہ دراز تک پنجاب میں تعلیم کا سرے سے کوئی وزیرہی نہ تھا، پھر آہستہ آہستہ غیرمحسوس انداز میں مجتبیٰ شجاع الرحمن کا نام آنے لگااور اب یہی نام وزیرتعلیم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اگر موصوف کو گزشتہ چار برس کے حساب سے ارکان کی جلی کٹی سننی پڑی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ، وہ انہوں نے اپنے قائد پر ہونے والے وار اپنے سینے پر سہے ہیں، کیونکہ اس سے قبل یہ وزارت خود میاں شہباز شریف کی جیب میں ہی تھی۔ اگر وزیرتعلیم نے جوابات نہیں دیئے ، یا غلط دیئے ہیں، تو اس سے پنجاب حکومت کی محکمہ تعلیم کو دی جانے والی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور اسی رویے کو دیکھتے ہوئے تعلیم اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کا اندازہ لگانا بھی آسان ہو جاتاہے۔

سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ وزیرتعلیم ذمہ داران کے خلاف انکوائری کروائیں اورکاروائی کریں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایوان خود یہ کام کرے گا۔ وزیرتعلیم نے یہ بھی بتایا کہ 2010-11ءسائنس لیبارٹری کی مد میں ایک ارب روپے مختص کئے گئے تھے، ایک ہزار سکولوںمیں لیبارٹری بنانے کامنصوبہ تھا، سیلاب کی وجہ سے یہ فنڈز لیبارٹریوں کے لئے استعمال نہیں ہوسکے، تاہم رواں مالی سال میں اس کے لئے کوئی فنڈز نہیں رکھے گئے۔کیا کسی اور محکمے یا خود حکومتی عیاشیوں میں کٹوتی کرکے بھی کوئی رقم سیلاب زدگان پر لگائی گئی؟ انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ جہاں لیبارٹری نہیں وہاں عارضی بندوبست کیاگیا ہے(شاید یہ بات بھی غلط جواب کی ذیل میں ہی آتی ہو)۔ ارکان کے جذباتی ہونے پر وزیرتعلیم نے کہا کہ معزز ارکان اپنے فنڈز سے بھی اپنے حلقے کے سکولوں کی اپ گریڈیشن کا کام کرسکتے ہیں۔

ویسے تو یہ 18ہزار سکولوں میں سہولیات کے فقدان والا بیان بھی درست معلوم نہیں ہوتا، یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹھیکیداری کلچر کی آڑ میں کمیشن مافیا سرگرم رہتا ہے، کمیشن خور افسران کی بلا سے جتنی رقم اصل کام پر خرچ ہو، ان کا حصہ بروقت اور اصل مقدار میں موصول ہونا چاہیئے، دوسری طرف ٹھیکیدار کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنی ناقص سے ناقص چیز لگائی یا مہیا کی جائے وہ بہتر ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچت ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک ہو یا کمرہ، فرنیچر ہو یاکمپیوٹرلیب، بننے کے چند روز بعد ہی اس کے بخیئے ادھڑنے لگتے ہیں، اور جو چیزیں مہیاکی جاتی ہیں ان کے نمونہ جات بھی ”ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور“ والا معاملہ ہوتا ہے۔

محکمہ تعلیم کے افسران بھی بسااوقات بہتی گنگا میں اشنان کرنا ضروری خیال کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ناقص اشیاءطالب علموں کے مقدر کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض چیزیں خود ”اوپر“ سے آتی ہیں، مثلاََ کمپیوٹر لیب، تو اس میں اول تو لاڈلاسپلائر خوب کمائی کرلیتا ہے، دوسرے یہ کہ اگر وہ اشیاءمعیاری بھی ہوں تو سکولوں میں ان کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور کچھ ہی عرصہ بعد کروڑوں کی لیبارٹری یالائبریری گردوغبار میں دب کر رہ جاتی ہے ، یا اس کے قیمتی پرزہ جات چوری ہوناشروع ہوجاتے ہیں اور وہ لیبارٹری جس کا چند ماہ قبل کسی وزیر شزیر یا کسی اور وی آئی پی شخصیت نے افتتاح کیا ہوتا ہے، کرپشن اور نااہلی کی بھینٹ چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435718 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.