وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے
توہین عدالت کے کیس میں 19 جنوری 2012ءکو سپریم کورٹ کے روبرو ذاتی طور پر
پیش ہونے کو ماہرین قانون نے خوش آیند قرار دیا ہے۔ اس اقدام سے اداروں کے
درمیان ٹکراﺅ کا تاثر وقتی طور پر ختم ہوگیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس تاریخ
ساز سماعت کے بعد ایک طرف صدارتی استثناء پر گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے تو
دوسری جانب توہین عدالت کے کیس میں وزیراعظم گیلانی کو یکم فروری تک سکون
کا سانس لینے کا موقع مل گیا ہے، لیکن ان کے سر پر تلوار بدستور لٹکی ہوئی
ہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے حوالے سے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں آئندہ
حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے
پر عمل درآمد نہیں کیا تو اس کی بنیاد آئین کی شق 248 ہے، جس کے تحت صدر کو
استثناءحاصل ہے، اس لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا۔ حکومت نے گزشتہ دو سال
میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں اس موقف کا اظہار کیا ہے۔ ورنہ عدالت نے کئی
مرتبہ اُسے اپنا موقف واضح کرنے اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کو کہا لیکن
حکمران چُپ کا روزہ رکھے رہے۔ اس سے قبل این آر او کیس کے فیصلے کے خلاف
دائر نظر ثانی کی اپیل میں حکومتی وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی کبھی یہ
موقف نہیں اپنایا کہ صدر کو استثناءحاصل ہے۔ وکالت کا لائسنس معطل ہونے کے
بعد صدر کے مشیر خاص بابر اعوان موجودہ منظر نامے سے غائب ہوگئے ہیں۔ اور
اب ان کی جگہ اعتزاز احسن نے لے لی ہے۔
اب یکم فروری کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کاروائی سے قبل استثناءکے
معاملے پر بحث ہوگی، اس پر جو بھی فیصلے آئے گا وہ مثال بن جائے گا۔ اس کے
بعد عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا وزیراعظم سپریم کورٹ کے احکامات پر
عمل درآمد نہ کر کے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں اور کیا انہیں اس کی سزا
ملنی چاہیے؟
اگر ہم آئین پاکستان کا حصہ بننے والی قرار داد مقاصد کا جائزہ لیں تو اس
کے مطابق ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی ہوسکتی ہے اور نہ ہی
اس سے متصادم کوئی آئینی شق برقرار رہ سکتی ہے۔ جبکہ صدارتی استثناءکا
معاملہ قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔ اگر مسلمانوں کے خلیفہ اور وقت کے
حکمران حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بدو قمیض پر لگنے والے اضافی
کپڑے کی وضاحت مانگ سکتا ہے اور انہیں اس کی صفائی پیش کرنا پڑتی ہے تو آج
کے حکمران کس طرح استثناءطلب کرسکتے ہیں؟
توہینِ عدالت کے کیس میں وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ سوئس
حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کا کوئی کیس نہیں بنتا اور اگر خط
لکھنے پر سوئس حکام نے استثناءکے باعث کارروائی سے انکار کیا تو سپریم کورٹ
کی سبکی ہوگی۔ جب کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا
کہ حکومت سوئس حکام کو خط لکھنے کی پابند ہے اور اسے یہ خط لکھنا پڑے گا۔
اس کے برعکس 19 جنوری کو عدالت میں پیشی کے موقع پر انہوں نے بالکل ہی
متضاد موقف اپنایا جس سے ان کی ساکھ مجروح ہوئی۔ اس لیے جب وہ عدالت سے
باہر آئے تو ان کی میڈیا سے گفتگو کے دوران وکلاءکی ایک بڑی تعداد نے
”حکومت کا جو یار ہے، وہ آئین کا غدار ہے۔“ اور ”چیف کے جانثار، بے شمار بے
شمار“ کے نعرے لگائے۔
وزیراعظم کو یہ گلہ ہے کہ این آر او کے خالق کو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا لیکن
کیا وہ یہ بھول گئے کہ اُنہیں گارڈ آف آنر دے کر مکمل عزت و اکرام کے ساتھ
باہر بھیجنے والے بھی وہ خود ہیں۔ این آر او جس نے ملکی سیاست میں ہلچل
مچائی ہوئی ہے اس کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
قومی مفاہمتی آرڈیننس سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007ءکو جاری کیا جس
کے تحت یکم جنوری 1986ءسے 12 اکتوبر 1999ءکے دوران سیاسی کارکنوں اور
بیوروکریٹس کو بدعنوانی، غبن اور دہشت گردی ایکٹ کے تحت قائم ہونے والے
مقدمات میں معافی دی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چودھری نے اس
آرڈیننس کے اجراءکے فوری بعد 12 اکتوبر 2007ءکو اس صدارتی حکم کو معطل کرنے
کا اشارہ دیا تھا لیکن 3 نومبر 2007ءکو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے
ایمرجنسی لگاکر چیف جسٹس کو برطرف کردیا اور ان کی جگہ لینے والے چیف جسٹس
عبدالحمید ڈوگر نے 27 فروری 2008ءکو یہ معافی نامہ برقرار رکھا۔ نومبر
2009ءمیں پہلی بار وزیراعظم کے حکم پر این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی
فہرست جاری کی گئی اور (8041) افراد میں اکثریت بیوروکریٹس کی تھی، جبکہ 34
سیاست دان اور 3 سفیر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بعد پاک و صاف
ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے معزول ججوں کی بحالی کے بعد دوبارہ اس کیس کی سماعت
شروع ہوئی تو حکومت نے اِس کا دفاع نہ کیا، عدالت عظمیٰ نے 16 دسمبر
2009ءکو اسے معطل کردیا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ یہ آرڈیننس آئین سے
متصادم ہے لہٰذا تمام مقدمات 5 اکتوبر 2007ءسے قبل کی پوزیشن پر بحال کیے
جائیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکام نظر انداز کردیے اور پھر نظر ثانی کی
اپیل دائر کردی جسے اعلیٰ عدلیہ نے 25 نومبر 2011ءکو مسترد کرتے ہوئے، اپنا
سابقہ فیصلہ برقرار رکھا۔
اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ عدالت کا احترام کرتے ہیں، استثنا کے حوالے سے
عدالتی فیصلہ قبول کریں گے۔ لیکن اب صرف زبانی دعوؤں سے بات نہیں بنے گی۔
کیونکہ صرف این آر او ہی نہیں بلکہ ایسے مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے جس
میں حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا جس میں حج
اسکینڈل کیس، این آئی سی ایل، پاکستان اسٹیل، بینک آف پنجاب اسکینڈل اور ری
ایمپلائمنٹ کیس وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ لاہور ہائیکورٹ میں دو نیب ریفرنسز
میں سزا کے خلاف عبدالرحمن ملک کی اپیل خارج ہوئی تو صدر زرداری نے اپنا
آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے انہیں معافی دے دی۔ سپریم کورٹ نے ان تمام
مقدمات میں بارہا احکامات جاری کیے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ
رینگی۔ حکومت کے اسی مخاصمانہ رویے کے باعث معاملات گھمبیر ہوتے چلے گئے
اور وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔ اب معاملات ٹریک پر
لانے کے لیے حکومت کو محاذ آرائی والا رویہ ترک کرنا ہوگا ورنہ خود اس کی
مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔کیا واقعی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں
پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے گی ،اس کا فیصلہ بہت جلد ہوجائے گا۔ |