شام کی نصیری گورنمنٹ کے سربراہ
بشارالاسد کے خلاف عوامی تحریک دسویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے اور
سیکیورٹی فورسز نے تازہ کارروائیوں میں چالیس کے قریب احتجاجی مظاہرین کو
ہلا ک کر ڈالا ہے ،شام کے شمال مغربی علاقہ ادلب میں بھی تازہ جھڑپوں میں
کئی افراد کو قتل کر دیا گیا ہے،عرب لیگ کا ایک پچاس رکنی نگران مشن شام کے
دورے پر ہے ،اس وفد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے بغیر اطلاع کے جا
سکتا ہے ، یہ عرب تجزیہ نگار اس بات کا کھوج لگارہے ہیں کہ کیاشامی حکومت
عرب لیگ کےساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کر رہی ہے یا نہیں؟ گزشتہ دنوں
یہ نگران مشن دارالحکومت دمشق کے قریب میں واقع باغیوں کے مرکز زبادانی کا
دورہ بھی کر چکا ہے ،مشن کے سربراہ مصطفی الدابی السوڈانی نے کہا ہے کہ وہ
شام کی صورتحال پر بہت دل گرفتہ ہیںتاہم ہمیں امید ہے کہ ہم جلد امن بحال
کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، نگران مشن کے تبصروں ، تجزیوں سے لگ رہا ہے
کہ شام کی حکومت مسلسل معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخالفین کے خلاف
ظالمانہ ہتھکنڈے جاری رکھے ہوئے ہے ،عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العرابی
نے مصر کے ایک ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر شامی
صدر فی الفور اقتدار سے الگ نہ ہوئے تو ملک ایک طویل خانہ جنگی کی لپیٹ میں
چلا جائے گا ، قطر کے وزیر اعظم شیخ حماد بن قاسم نے عرب لیگ کے مجوزہ پلان
کےمطابق شامی صدر سے پرامن طریقے سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے ، اسی
طرح قطر کے امیر کا یہ مطالبہ بھی پہلی بار سامنے آیا ہے کہ اپوزیشن کی مدد
کے لیے عرب فوج شام میں تعینات کی جائے ۔ سعودی عرب ، قطر ، اردن ، بحرین
اور متحدہ عرب امارات شام کو بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ مظاہرین کے
خلاف طاقت کا استعمال تر ک کر ے ۔ سعودی عرب کے آل سعود ، قطر کے شیخ حماد
بن خلیفہ الثانی ، متحدہ عرب امارات کا انیہان خاندان ، اردن کے شاہ عبد
اللہ اور بحرین کے خلیفہ حماد بن عیسیٰ اس ضمن میں پیش پیش ہیں اور شام کے
سخت گیر حکمرانوں کے پنجہ استبداد سے وہاں کے مظلوم مسلمانوں کو خلاصی
دلانے کے لیے سرگرم عمل ہیں ، یہی ممالک احتجاجی طور پر شام میں اپنے
سفارتخانے بند کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں ۔ترکی کے صدر طیب اردگان بھی
اس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہیں ،ترک صد ر متعدد بار اپنے بیانات میں واضح
طور کہہ چکے ہیں کہ شامی عوام کے حقوق کے لیے جاری تحریک کی حمایت ہر صورت
جاری رکھی جائے گی،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی بیروت
میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بشارالاسد اورا ن کے ساتھی عوام
کا قتل عام بند کریں کیونکہ ان کے اس اقدام سے تبدیلی کی ہوائیں بند نہیں
ہو ں گی مگر شام کی غاصب نصیری گورنمنٹ عالمی برادری اور عرب لیگ کو خاطر
میں نہ لاتے ہوئے وہاں کی اسی فیصد واضح اکثریت کااستحصال کر رہی ہے اور
ٹینکوں ، توپوں کی مدد سے عوامی مظاہروں کو کچلنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں،
دوسری جانب شامی صدر بشار الاسد نے اچانک ایک سواسی ڈگر ی کی قلابازی لگا
کر باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے عالمی برادری میں اپنا امیج
بہتر بنانے کی ناکام کوشش کی ہے ، بشار الاسد کے اس اعلان نے دنیا کو حیران
اور مبہوت کر ڈا لا ہے اور مبصرین سوچتے ہیں کہ کیا کوئی قاتل بھی مقتول کے
لیے عام معافی کا اعلان کر سکتا ہے ؟ کیونکہ شامی صدر کے حکم پر اس کی
سیکیورٹی فورسز گزشتہ دس ماہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سات ہزار کے
قریب احتجاجی شہریوں کو ہلا ک کر چکی ہیں ، آمر صدرکے حکم پر آبادیوں کو
تہہ تیغ کیا جا رہا ہے اور مسجدوں میں گھس کر نمازیوں تک کو ذبح کرنے کی
خبریں آرہی ہیں،بشار الاسدکو خون ریزی اور مہم جوئی اپنے والد سے وراثت میں
ملی ہے ، حافظ الاسد کے بارے میں عام رائے ہے کہ وہ ہمیشہ طاقت کی زبان
استعمال کر تا تھا ، اسی حافظ الاسد نے انتہائی ظالمانہ طریقے سے اخوان
المسلمین کے ہزاروں کارکنوں اور راہنماﺅں کو ابدی نیند سلادیا تھا یہی وجہ
ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کے دلوں میں آج بھی اس آمر خاندان کے خلاف شدید
نفرت پائی جاتی ہے ۔ دو کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی سرزمین شام میں
اسی فیصد مسلمان ، چھ فیصد عیسائی، پانچ فیصد دیگر مذاہب اور پانچ فیصد
نصیری فرقے کے لوگ ہیں اور دراصل یہی موخر الذکر فرقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے
شام کے سیاہ وسفید کا مالک بنا ہو اہے اور تمام اہم قومی اداروں کی باگ ڈور
اسی کے ہاتھ میں ہے ، نصیریوں کو سب سے زیادہ پرخاش وہاں کی واضح اکثریتی
کرد سنی آبادی سے ہے وہ غیر مسلموں کے ساتھ باہم شیر و شکر ہیں مگر وہاں کے
کردمسلمانوں کو قطعا کسی رو رعایت کے مستحق نہیں سمجھتے ،آ ج شامی حکومت کے
خلاف عوامی مظاہروں کو ایک سال ہونے کوا ٓرہا ہے مگر شامی حکومت کی ڈھٹائی
دیکھیے کہ وہ ٹس سے مس تک نہیں ہو پارہی اورا س کی یہ پوری کوشش ہے کہ کس
طرح نصیریوں کا اثرو نفوذ تادیر قائم رکھا جا سکتا ہے؟ ، ملک کے طول و عرض
میں مسلح کارروائیوں اورعوامی مظاہروں کا دائر ہ کار مسلسل بڑھ رہاہے اور
عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، سرزمین شام اپنے محل
وقوع اور معاشرتی نشیب وفراز کے حوالے سے دنیا کے اہم ترین نقشے پر واقع ہے
، اگر ایک طرف اس کی سرحدمشرق وسطیٰ میں سب سے اہم مسلم ملک فلسطین کے ساتھ
ملتی ہے جسے دنیا امت مسلمہ کی مظلوم سرزمین کے نام سے پہنچانتی ہے تو
دوسری جانب اس کی سرحدیں ترکی ، عراق ، لبنان اور اردن سے بھی مل رہی ہیں ۔
اس وقت پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اسی قطعہ ارضی پر لگی ہوئی ہیں جہاں
گزشتہ کئی ماہ سے صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی مظاہروں اور جلاﺅ گھیراﺅ
جاری ہے ، شام کا یہ سلگتا ہوا مسئلہ پوری مسلم امہ اور بالخصوص عرب دنیا
کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے ، عرب راہنماءاس کوشش اور جتن
میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح اس مسلم ملک پر دوبارہ امن کا پرچم لہرایا جا
سکتا ہے اور وہاں کے عوام کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل
اپنایا جاسکتا ہے اس ضمن پر عرب لیگ پیش پیش ہے اور وہ شام کے حالات کا
گہرا مشاہدہ کررہی ہے۔شام کے سخت گیر حکمرانوں کے خلاف شدید عوامی تحریک
اور پھر عالمی دباﺅ کے بعد اب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ شام کے دست راست
ایران اور روس جیسے ممالک بھی بشار الاسد کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ،شامی
فوجیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اب صدر کے خلاف جاری تحریک میں شامل ہورہی ہے
، سرزمین شام پر عرب لیگ کے نگران مشن کی آمد، ایران و روس کی بشار الاسد
کی حمایت سے دست برداری ، شامی فوج میں پھوٹ جیسی لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی
صورتحال کے باعث اب وہاں کے عوام نے بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پھر سے
تیز کر دیا ہے اور سکیورٹی فورسز نے بھی عرب لیگ ساتھ معاہدے کو ردی کی
ٹوکری میں ڈالتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا
ہے ،احتجاجی جلسے ، جلوسوں اور فوج کے ہاتھوں عوام کے قتل عام کو اب عرب
لیگ کا یہ نگران مشن براہ راست دیکھ رہا ہے اور یوں عرب مبصرین کی تعیناتی
اور تحقیقاتی عمل سراسر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جارہاہے ، نگران مشن
نے حمص شہر کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میںسڑک پر جا بجا خون میں لت پت
لاشیں بکھری پڑیں ہیں اور ٹینک ان لاشوں کو روندتے ہوئے شہریوں پر گولے داغ
رہے ہیں، شامی گورنمنٹ کی یہ پوری کوشش ہے کہ ان مبصرین کی آنکھوں میں دھول
جھونک کر مخالفین کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے مگر یہ مبصرین بڑی
باریک بینی سے حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، ان کی سیکیورٹی فورسز پر کڑی
نظر ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی افسوسناک واقعہ وقوع پذیر ہوتا ے یہ ٹیم بڑی
سرعت کے ساتھ وہاں پر پہنچ کر اپنی رپورٹ مرتب کر رہی ہے جس سے نصیری حکومت
کو شدید کرب اورخفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔حالات و واقعات کے اس پس منظر
میں ایسا لگ رہا ہے کہ اب یہ باغی تحریک واقعی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو
گئی ہے اور دراصل یہی نگران مشن بشار الاسد کے تابوت میں آخری کیل ثابت
ہوگا ،شام کے مظلوم و مقہور عوام کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں ، زوال
بشار الاسد کے در پر دستک دے رہا ہے اور بہت جلدوہاں کے مسلمان ”نصیریوں
“کے چنگل سے آزادی پانے والے ہیں۔ |