ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور بے غیرت حکمران

حضرت ابو طلحہ ؓ کسی کام سے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ آپ ؓ کی عدم موجودگی میں آپ کا بیٹا انتقال کر گیا۔ آپ کو اپنے بیٹے سے بے انتہا محبت تھی۔ جب حضرت طلحہ ؓ سفر سے واپس آئے تو آتے ہی اپنی ذوجہ محترمہ جن کا نام ام سلیم ؓ تھا۔ ان سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا:”وہ آرام کر رہا ہے“یہ سن کر حضرت طلحہ ؓ سکون سے بیٹھ گئے اور آپ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد حضرت ام سلیم ؓ جو کہ بڑی عقلمند اور باہمت خاتون تھیں۔انہوں نے آپ سے فرمایا: ”میں آپ سے ایک اہم مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں“حضرت ابو طلحہ ؓ نے فرمایا:”پوچھو“وہ بولیں ”مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے میرے پاس اپنی کوئی امانت رکھوائی ہوا ور کچھ عرصے بعد وہ مجھ سے اپنی امانت واپس طلب کرے تو مجھے کیا کرنا چاہیے“حضرت ابوطلحہ ؓ نے فرمایا ”یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے جس کی امانت ہو وہ جب بھی طلب کرے اس کو فوراً ہی واپس لوٹانی چاہیے “وہ بولیں ”جب امانت واپس کر دی جائے تو اس کا کوئی غم بھی کرنا چاہیے یا نہیں ؟“آپ نے فرمایا”بالکل غم نہیں کرنا چاہیے“ حضرت ام سلیم ؓبولیں ”اگر یہ بات ہے تو پھر میں آپ کو اصل بات سے آگاہ کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو امانت ہمارے پیارے فرزند کی صورت میں دی تھی وہ واپس لے لی ہے۔ ہمارا پیارا بیٹا فوت ہو چکا ہے۔ اب ہمیں غم کی بجائے صبر کرنا ہو گا۔“یہ سن کر حضرت ابو طلحہ ؓ نے صبر کر لیا۔ رات ختم ہوئی تو اگلے دن فجر کے وقت آپ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے پیارے بیٹے کے انتقال کا سارا واقعہ جا سنایا۔ ساری بات سن کر حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ”اے ابو طلحہ ؓ آج کی رات اللہ تعالیٰ تیرے لیے برکت والی کرے“چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کو ایک اور بہت ہی خوبصورت بیٹا عطا فرمایا۔ حضرت ابو طلحہ ؓ خوشی خوشی اپنے بیٹے کو لے کر بارگاہ نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بیٹے کو دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا اور اس بچے کی پیشانی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کا نام خود ہی عبداللہ بھی رکھا۔ حضرت عبداللہ ؓ کی پیشانی حضور نبی کریم ﷺ ± کے دست مبارک پھیرے جانے کی برکت سے بے انتہا روشن اور چمکیلی دکھائی دیتی تھی اور یہ چمک تاحیات ان کی پیشانی مبارک پر رہی۔

قارئین صحابہ کرام ؓ کے یہ واقعات پوری امت مسلمہ کے لیے تاقیامت ہدایت کی روشنی لیے ہوئے ہیں ہمارے معاشرے میں ایک بڑی غلط روایت موجود ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ واقعات سنائے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جناب جن لوگوں کے واقعات آپ ہمیں سنا رہے ہیں وہ بہت برگزیدہ لوگ تھے اور ہم انتہائی گناہ گار بندے ہیں ہم بھلا ان جیسی نیکیاں کیسے کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے صحابہ ؓ ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کروگے ہدایت پاﺅ گے۔ یہ تمام واقعات میرے اور آپ سمیت ہم سب کے لیے سراپا ہدایت ہیں۔

قارئین نعمتوں کے چھن جانے پر صبر کرنا ایک بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں مانگتے ہوئے اگلی نعمت کا حصول کرنا بھی زندہ روایتوں کا حصہ ہے۔ آج کے کالم میں ہم جس بات زیر بحث لانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا ہوا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم مشکل ترین حالات سے گزرے وطن عزیز کو تین جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1971 ءمیں ہمارا ملک دو لخت کر دیا گیا ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کو سازشوں کا نشانہ بناتے ہوئے کبھی اقتدار اور کبھی زندگیوں ہی سے محروم کردیا گیا۔ ہمارے رہنماﺅں کو کبھی ملک بدر کر کے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور ہوتے ہوتے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب طبلے والی سرکار بلی مارکہ کمانڈو جناب جنرل پرویز مشرف جن کی وردی بقول ان کے جن کی کھال تھی انہوں نے امریکہ کے ساتھ بے غیرتی کے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے کہ جس کی بدولت ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی با عصمت خاتون سمیت ہزاروں دین دار پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کو فروخت کر دیاگیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انکل سام کی بھڑکائی ہوئی ”صلیبی جنگوں“میں پاکستانی افواج کو بھی اترنے پر مجبور کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی بہادر افواج اپنے ہی بھائیوں کے خلاف قبائلی علاقہ جات میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئیں اور پھر پورے پاکستان میں خود کش دھماکوں کی وہ فصل اگی کہ جس کی نذرہو کر چار ہزار سے زائد پاکستانی فوجی اور چالیس ہزار کے قریب پاکستانی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

قارئین یہ سب پس منظر بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج کے کالم کی اہم ترین بات اور خون رلا دینے والی حقیقت ہم آپ کے ساتھ شیئر کریں اور سوچیں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہو گا ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق یہ اطلاعات آئی ہیں کہ وہ امریکی عدالت کی طرف سے 87 سال قید کاٹنے کے لیے جیل میں موجود ہیں اور کینسر میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ مبینہ جنسی زیادتیوں کی وجہ سے حاملہ ہو چکی ہیں۔ ان اطلاعات پر ہم گریباں چاک کریں، سرمیں خاک ڈالیں یا خون کے آنسو روئیں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا بے غیرتی کی آخری باﺅنڈری لائن بھی ہم عبور کر چکے ہیں۔ اب بھی خود ساختہ روشن خیال لوگوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا جنرل پرویز مشرف کے جرائم قابل مواخذہ ہیں یا نہیں اس قومی مجرم نے قوم کی غیرت علی الا اعلان فروخت کی ہے اور اب بھی باز نہیں آرہا آئے روز برطانیہ میں بیٹھ کر جنرل مشرف پاکستان اور دیگر معاملات پر بیان داغتے رہتے ہیں کوئی نہیں ایسا کہ جو اس کی زبان بند کرے یا اس کا احتساب کرنے کے لیے بات کرے۔ شرمناک ترین بات تو یہ کہ جنرل مشرف کی برطانیہ میں سکیورٹی بھی پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی جارہی ہے۔ بقول غالب
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم وراہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذہ روز حشر سے
قاتل اگر رقیب سے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق ناشناس ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید وماہ ہو
ابھر ا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
جب میکدہ چھٹا، تو پھراب کیا جگہ کی قید
مسجدہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقا ہ ہو
غالب بھی گرنہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب!اور مرا بادشاہ ہو

قارئین اب ہم دیکھتے ہیں کہ ”غیرت بریگیڈ“کہلانے والے قلم کار کا قلم کچھ تحریر کرتا ہے یا بقول حبیب جالب ازار بند ڈالنے ہی کے کام آتا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ غیرت اور خوداری کے نعرے لگانے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیا بولتے ہیں ہم جائزہ لیں گے کہ ”ببر شیر مارکہ“مسلم لیگ ن کے شریف قائدین کے حلق سے شیر کی دھاڑ برآمد ہوتی ہے یا بلی جیسی میاﺅں میاﺅں۔۔۔۔۔۔۔ہم دیکھیں گے کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے کا نعرہ لگا کر مخصوص مسکراہٹ رکھنے والے جناب کھپے والی سرکار اور ان کی پارٹی اقتدار کے ایوانوں سے کیا اعلان کرتی ہے اور اسی طرح ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ منبر رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھے علماءکرام اور ان کی مذہبی جماعتیں جن کے مجاہد ونگز کو کسی دور میں انکل سام ہی نے تربیت دے کر روس کے خلاف جہاد کروایا تھاان کے منہ سے بھی کلمہ حق نکلتا ہے یا حلوے کی صدا بلند ہوتی ہے ۔ اس وقت ڈوب مرنے کا مقام ہے کہاں گئے محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد ۔۔۔۔۔؟کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کے پیروکار ۔۔۔۔۔۔۔؟یہاں سب میرجعفر اور میر صادق کے نام لیوا دکھائی دیتے ہیں۔

آخر میں حسب روایت لطیف پیش خدمت ہے۔
ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ شادی کارڈ پر ج۔م۔س۔ف۔جو لکھا ہوتا ہے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے
دوسرے نے جواب دیا کہ یہ بھی کوئی مشکل سوال ہے اس کا مطلب ہوتا ہے ”جوتوں سے مرمت فرمائیں۔“

قارئین ہمارے حکمران آگرہ اور لکھنو کی تہزیب رکھنے والے نوابوں سے کم نہیں ہیں یہ اپنے غیر ملکی حکمرانوں اور انکل سام کو ہمیشہ ادبی انداز میں یہی دعوت دیتے رہتے ہیں کہ ”ہماری قوم کی جوتوں سے مرمت فرمائیں۔“پوری قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر گھروں سے باہر نکلے ورنہ اللہ کا عذاب گھروں کے اندر آ کر ہمیں پکڑ لے گا۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 341331 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More