پاک فوج کی سلالہ چیک پوسٹ پر
نیٹو حملے کے بعد پاکستانی رد عمل کی وجہ سے ڈرونز حملوں کا سلسلہ ایک دم
رک گیا تھا لیکن ڈیڑھ ماہ کے سکوت کے بعد ایک بار پھر شمالی وزیرستان پر
ڈرونز حملے ایک تسلسل کے ساتھ کیے جارہے ہیں جن میں اب تک بیس کے قریب
افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ،تازہ ڈرونز حملے 23جنوری کی شب شمالی وزیرستان
کی تحصیل دتہ خیل میں محمد خیل اور دیگان کے دو مختلف مقامات پر حملے کیے
گئے جن سے سات کے قریب لو گ مارے گئے ہیں ، جاسوس گائیڈڈ حملوں کے بعد
علاقہ بھر میں ڈرونز کی پروازیں جاری رہیں اور مقامی آبادی میں خوف وہراس
کے ساتھ ساتھ غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس طرح ان حملوں کے بعد اہالیان
وطن کی وہ خوش فہمی دور ہوگئی کہ ”سلالہ حملے پر حکومت پاکستان نے رد عمل
کے طورپر ڈرونز حملے رکوا دیے ہیں “۔ دھرتی کے سادہ عوام یہ سمجھ بیٹھے تھے
کہ اس رد عمل کے نتیجہ میں امریکہ نے ڈرونز حملوں کا سلسلہ مستقل طور بند
کر دیا ہے حالانکہ شمسی ایر بیس سے انخلاء کے فوری بعد امریکی انٹیلی جنس
حکام نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ جاسوس حملے بہت جلد افغانستا ن سے شروع کیے
جائیں گے ۔ کسی بھی ملک کے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اس کے حکمرانوں کا
اولین فرض ہو تاہے اور اسی مقصد کی خاطر پولیس ، فوج اور دیگر ادارے قائم
کیے جاتے ہیں کہ وہ ملک کے باشندوں کے جان و مال کا تحفظ کریں گے مگر
پاکستانی حکمرانوں کی مغرب نواز پالیسیوں سے لگ رہا ہے کہ انہوں نے اس قوم
کی غیرت ، حمیت اور جان و مال ،سب صیہونی طاقتوں کے ہاں گروی رکھ چھوڑاہے
اور یہ” جمہوری آمریت“ کے پروردہ خاموشی سے بیٹھے اپنے قبائلیوں بھائیوں کا
قتل عام دیکھے جارہے ہیں۔ایک برطانوی نیوز ایجنسی کے اس دعوے نے قوم کو
مزید دکھ اور کرب میں مبتلا کر ڈالا ہے کہ” درون پردہ پاکستان اور امریکہ
میں انٹیلی جنس تعاون اب بھی جاری ہے اور یہ ڈرونز حملے اسی تعاون کا حصہ
ہیں ’ ’ ، اس ضمن میں اخبار کا کہنا ہے کہ دس اور بارہ جنوری کے شمالی
وزیرستان کے ڈرونز حملے اسی سلسلے کی کڑی ہیں ، امریکی حکام کے مطابق بارہ
جنوری کے ڈرونز حملے میں ایبٹ آبادسے تعلق رکھنے والے القاعدہ راہنماءاسلم
اعوان المعروف عبدا للہ خراسانی بھی مارا گیا ہے تاہم طالبان ذرائع نے اس
کی تردید کی ہے ، ایک پاکستانی موقر جریدے نے لکھا ہے کہ اب یہ ڈرونز حملے
افغان دارالحکومت کابل کے نزدیک واقع بگرام ایر بیس سے کیے جارہے ہیں ۔ ان
تازہ جاسوس حملو ں کے بعد پاکستان کے ارباب بست و کشاد کی جانب سے کسی قسم
کا کوئی رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا ، ہاں البتہ ہمارے محترم وزیر دفاع احمد
مختیار کا یہ بیان ضرور منظر عام پر آیا کہ ہم کوششوں کے باوجود بھی ڈرونز
حملے رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ کیا یہ موصوف اپنی حکومت کی ”کوششوں
“پر کچھ مزید روشنی ڈالنا چاہیں گے اور عوام کو یہ بتا پائیں گے کہ انہوں
نے اس ضمن میں کیا تگ و دو کی ؟ جہاں تک ڈرونزکو مارگرانے کی بات ہے تو
ہمارے خیال سے آج تک ہماری فضائیہ نے ایسی کوئی کوشش تک نہیں کی اگر
پاکستان ائیرفورس کے ہوابازوں نے ایسی کوئی کوشش کی ہوتی تو آج قوم کو یہ
دن نہ دیکھنے پڑتے ، جہاں تک ڈرونز کو مارگرانے کی صلاحیت کا ایشو ہے تو اس
کے متعلق سابق اور موجودہ عسکری قیادت واضح طو ر پر کہہ چکی ہے کہ ہمارے
پاس ڈرونز مارگرانے کی صلاحیت اوراستعداد ہے تاہم ہم حکومتی حکمنامے کے
منتظر ہیں ، عام شہری کا یہ ذہن یہ معمہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سلالہ حملوں
کے بعد عسکری قیادت کی جانب سے ہرطرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے
اعلان کے باوجود یہ لوگ ان تازہ ڈرونز حملوں پر کیوں خاموش ہوگئے ہیں ؟ جس
انداز سے پے درپے حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا اور پھر اس پر
پاکستانی قیادت کی گہری خاموشی میں یقینا کوئی راز چھپا ہے اور برطانوی
نیوز ایجنسی کی رپورٹ مبنی بر حقیقت نظر آتی ہے اور لگتا ہے کہ کہیں نہ
کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے اوراگر یہ سچ ہے تو پھر اس پر پوری قوم کے سر شرم
سے جھک جانا چاہئیں کہ سلالہ حملوں میں ستائیس پاکستانی فوجی جوانوں کی
شہادت پر ہماری قیادت کے تابڑ توڑ بیانات محض ہوائی باتیں ہی تھیں جن کا
مقصد صرف اور صرف عوام کو حقیقت سے کوسوں دور رکھ کر ان کی آنکھوںمیں دھول
جھونکنا تھا اور وقتی طور پر ان کے قومی و ملی جذبات کے آگے بند باندھنا
تھا ، اورہاںاس بات کو بھی بعید از قیاس نہیں گردانا جا سکتا کہ ڈرونز
حملوں کے پس پردہ خفیہ معاہدے کے ساتھ ساتھ اب نیٹو سپلائی بحال کرنے کی
بھی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام میں گہرا اثر ،وجود اور
قد کاٹھ رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتوں کو اس اہم قومی ایشو پر یکجا ہو
کر بے ضمیر حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی اور بالخصوص آج کل کے
تازہ منظر نامے پر عوامی حلقوں میں تیزی سے ابھرتے دینی سیاسی جماعتوں کے
اتحاد ”دفاع پاکستان کونسل“ کو اپنی تما م تر تگ و تاز اور توجہ مغربی
سرحدوں کی جانب مبذول کر نا ہوگی تا کہ بے حمیت قیادت کو مزید غلط اقدامات
سے روکا جا سکے ۔ |