پاکستان کا سپریم لاءاور صدارتی استثنائ

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہونے والی ایک ایسی مملکتِ خداداد ہے جس کی بنیادوں میں بے شمار فرزندانِ اسلام کا لہو بھرا ہوا ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان دنیا بھر کے اسلامی ممالک کیلئے ایک رول ماڈل ہوتالیکن تماشا یہ ہے کہ اس کے بنیادی آئین میں اسلام کو سپریم لاءکی حیثیت توحاصل ہے لیکن پاکستان کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد سے ہی وطنِ عزیز حقیقی عوامی نمائندوں کی بجائے اُن تاجروں،جاگیرداروں ،اور پیٹ کے پجاری شکاریوں کی آماجگاہ بن گیا جنہوں نے پاکستان کی عوام کو اپنی ذاتی رعایا سے زیادہ ترجیح نہ دی اور اس کے بے پناہ وسائل کو شیرِمادر سمجھ کر خوب لوٹا اورآئین و قانون کی وہ مقدس کتاب جس کی مدد سے ملکی نظم و نسق چلایا جاتا ہے عوام کیلئے گدڑئیے کی وہ چھڑی بن کررہ گئی جو بھیڑبکریوں کو ہانکنے کے کام آتی ہے پی پی کاحالیہ دورِحکومت اس مکروہ روش کی بدترین مثال ہے جب بدنامِ زمانہ این آراوکے ذریعے اقتدار کے ایوانوں پربراجمان ہونیوالی زرداری اینڈکمپنی نے آتے ہی سب سے پہلے قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈبنک جیسے صیہونی اداروں کے چنگل میں پھنسا دیا جن کو اس سے قبل ایک ڈکٹیٹر گڈبائی کہہ چکاتھا لیکن ''قصرِسفید''کے اشارے پر اِن اداروں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے خزانوں کے دروازے پاکستان کیلئے کھول دئیے اور حکومت بھی عوام کے ''غم''میں ہلکان آئے روز قرض کی مے پیتی رہی اس سے عوام کی حالت توبدلنی تھی اور نہ ہی بدلی البتہ ہرپاکستانی تقریباََتیس ہزارروپے کا مقروض ضرور ہوگیااور اس کے نتیجے میں مہنگائی ،غربت اور بدامنی کا وہ طوفان برپا ہوا کہ الامان والحفیظ۔خیر بات ہورہی تھی کہ پاکستان میں اسلام کو سپریم لاءکی حیثیت حاصل ہے لیکن عوا م آئے روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ جہاں مقتدر طبقے کے مفادات کی بات آتی ہے وہاں اُن کیلئے نہ تو آئین ایک کاغذکے ٹکڑے سے زیادہ حیثیت رکھتا ہے اور نہ ہی انہیں اسلامی تعلیمات کے سپریم ہونے کا خیال آتا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ '' سپریم'' سے تو انہیں ویسے ہی چڑ آتی ہے۔عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگراسلام کو آئین میں سپریم لاءکی حیثیت حاصل ہے تو اسلام تو ہمیں واضح طورپردرس دیتاہے کہ اللہ کے نزدیک کسی انسان کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں اورالزام عائد ہونے پر امیرالمومنین کو بھی عدالت میں کھڑاکرتا ہے یعنی امیرالمومنین کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے تو صدر زرداری کو کیسے ہوسکتا ہے اصل بات یہی ہے کہ پاکستان میں آئین و قانون پرعمل کی بجائے اسے اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کیلئے حکمرانوں کو ہردور میں وافرمقدار میں درباری قانون دان میسر آتے رہتے ہیں جواپنے آقاؤں کو تحفظ دینے کیلئے آئین ِ پاکستان سے یاتو چوردروازے نکال لیتے ہیں یاپیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ایسا ہی کچھ زرداری کے بیرون ملک 60ملین ڈالر زکے حوالے سے کیس کو ری اوپن کرنے کے لئے سوئس عدالت کوخط لکھنے کے معاملے میں نظرآرہا ہے ماہرقانون دان اعتزازاحسن جوکچھ عرصہ قبل پیپلزپارٹی کو یہ نصیحت کرتے نظرآتے تھے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سوئس عدالت کوخط لکھ دے اور 2007ءمیں وکلا تحریک کے دوران اعلیٰ عدالت میں دیاگیا اُن کا یہ بیان آج بھی ریکارڈ پر ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ''اگر امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو عدالت میں بلایا جاسکتا ہے تو صدرمشرف پرمقدمہ کیوں نہیں چلایاجاسکتا'' لیکن اب جب پرویزمشرف کی بجائے اُن کی پارٹی کے قائدزرداری صاحب عہدہ ءصدارت پر براجمان ہیں ایسے میں وہ خود ہی یو ٹرن لے کرحکومتی موقف کی حمائت میں خم ٹھونک کر سامنے آگئے ہیں 19جنوری کو جب وہ سپریم کورٹ کے سامنے زرداری کے حق میں دلائل دے رہے تھے تو جب عدالت نے ان سے استفسارکیا کہ اگر کورٹ یہ ثابت کردے کہ صدر کواستثنیٰ حاصل نہیں ہے تو کیا حکومت خط لکھ دے گی ؟تو اس کا حکومت اور اعتزاز احسن کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔یہاں اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی قوانین سے ہٹ کر موجودہ جمہوری دنیا میں بھی صدارتی استثناءکی مثال نہیں ملتی مثلاََآپ امریکہ کی طرف ہی دیکھ لیں کہ بل کلنٹن کے دور میں مونیکالیونسکی کیس میں صدرکو استثنا نہیں دیا گیا اور آج بھی امریکی صدر اوباماجب اپنی جائے پیدائش کے حوالے سے اہلیت کیس کا سامنا کررہے ہیں توامریکی ریاست جارجیاکی عدالت نے اوباما کو کسی قسم کا استثناءدیئے بغیر خود عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیایادرہے اوباما پریہ الزام ہے کہ وہ امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے لہٰذا امریکی قانون کے مطابق وہ امریکی صدر بننے کے بھی اہل نہیں ہیں۔بہرحال یکم فروری کو اس حوالے سے سماعت ہونے جارہی ہے امید ہے کہ حکومت محاذآرائی اور سیاسی شہادت یا ہلاکت کے شوق کی تکمیل کی جانب جانے کی بجائے اس معاملے پرسپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی تشریح کو قبول کرکے(جویقیناََ اسلام کوسپریم لاءدیکھتے ہوئے کی جائے گی) اداروں کے مابین کسی قسم کی محاذآرائی سے گریزکرے گی
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.