پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
نہ صرف لاہور کا بلکہ پاکستان کا واحد ایسا ادارہ ہے جہاں دِل کے تمام
امراض کا علاج حکومتِ پنجاب کے تعاون سے کِیا جاتا ہے اس کے علاوہ یہاں سے
خادمِ اعلیٰ وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے خصوصی حکم پر غریب،
مستحق اور سفید پوش (مریض)افراد کو مفت ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر
یہاں بغور معائنہ کِیا جائے تو پی آئی سی کا عملہ از حد شفیق اور بااخلاق
ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان دار اور حلال آمدنی پر اکتفا کرنے والا محسوس ہوتا
ہے۔ یہاں کے ڈاکٹر حضرات ماسوائے ہڑتالوں کے کبھی بھی ایمرجینسی کے دروازے
مریضوں پر بند نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے آرام کو تج کر مریضوں کی دیکھ بھال
کو مقدم سمجھتے ہیں۔ مریض، ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد ادویات کی مفت
فراہمی کے کاﺅنٹر پر آتا ہے تو لمبی قطار کر دیکھتے ہی غش کی کیفیت میں
مبتلا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کا عملہ نشستوں کی کمی کے باوجود
مریض کو کہِیں نہ کہِیں "Adjust"کر ہی دیتا ہے۔ مریض کی تمام پریشانی کاﺅنٹر
سے ادویہ لینے کے بعد رفو ہو جاتی ہے۔
الغرض پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، کارڈیوگرافی کے میدان میں اپنی ایک
مخصوص اور مستند پہچان رکھتا ہے، یہ ادارہ عموماً یا خصوصاً کسی تعارف کا
متحاج نہیں۔ لیکن یہ بات نہایت غور طلب اور فکر انگیز ہے کہ جو ادارے کسی
تعارف کے محتاج نہ ہوں، گھپلے اور سکینڈل اسی ادارے یا انتظامیہ کے مقدر
میں ہوتے ہیں۔
چونکہ راقم کے والد گرامی گزشتہ دو برس سے پی آئی سی میں زیرِ علاج ہیں۔ اس
لیے راقم کو کئی بار اس ادارے میں جانے کا موقع ملتا رہا جیسے درج بالابیان
کیے گئے تمام حقائق عیاں ہیں ویسے ہی یہاں کا مضرِ صحت ادویات کے ردِّ
عمل(ری ایکشن) کا سکینڈل بھی کافی شہرت حاصل کررہا ہے۔یہ سکینڈل منظرِ عام
پر کیسے آیا؟
گزشتہ ماہ13دسمبر2011ع کو ڈاکٹرز نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی( پی
آئی سی) میں آنے والے بیج کی تمام ادویات کو( تاحال )ممنوع قراردے دیا جس
سے مریضوں کو ادویات کی ترسیل قریباً روک دی گئی اور ادویات میں شک و شبہ
کا عُنصُر محسوس ہونے لگا۔ ابتداً تو اِس معاملے کو درست انداز سے سمجھا ہی
نہ گیا لیکن گزشتہ آٹھ دس دن کے دوران 27کے قریب ہلاکتیں ہو گئیں اس کے
علاوہ درجنوں افراد کی حالت ازحد تشویشناک ہے۔ ادویات کے ری ایکشن (ردِّ
عمل) سے اب تک200سے زائد افراد ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق
لاہور سمیت مختلف شہروں کے 46ہزار افراد کوپنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
سے مفت ادویہ فراہم کی گئیں۔ جس میں سے صرف لاہور کی سطح پر 27ہزار افراد
ایسے ہیں جن کو ادویات دی گئیں اور اِن میں سے صرف 2ہزار افراد کا تعلق
سَمن آباد ٹاؤن سے ہے،جبکہ باقی کا تعلق مختلف شہروں سے ہے۔
ماہرین نے ادویات کے ری ایکشن (ردِّ عمل) کو بائی سائیٹوبینیا سینڈروم کا
نام دیا ہے۔ جس کے باعث مریض کے پلیٹ لیٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور جسم
پر سیاہ دھبے بننے کے ساتھ ساتھ خون بھی بہنا شروع ہو جاتا ہے۔پلیٹ لیٹس کی
کمی اور متواتر خون بہنا ڈینگی وائرس کی بھی علامت ہے اس لیے ماہرین کو اس
اَمر پر بھی غور کرتے رہے کہ شاید یہ ڈینگی کی ہی کوئی بگڑی قسم ہے۔ بعد از
قیاس ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے مطابق میگا فیکٹری کی دوا غیر معیاری بنائی
گئی کیوں کہ جب دوا خریدی گئی تو بالکل ٹھیک تھی لیکن ہسپتال میں سٹاک کی
صورت میں موجود رہنے سے کچھ عرصے بعد ہی دوا کا ری ایکشن مریضوں پر ظاہر
ہونے لگااور اِن اَدویہ پرکالے اور پیلے نشان بھی پائے گئے،ابتدا میں ڈاکٹر
حضرات اس مرض کو ڈینگی کی بگڑی ہوئی قسم سمجھتے رہے لیکن متاثرہ افراد میں
خاص طور پر دِل کے امراض کی ادویات خریدنے والوں کے ساتھ ری ایکشن نے
پیچیدگی پیدا کر دی۔ تا حال اس ری ایکشن کا علاج تو سامنے نہیں آ سکا لیکن
جعل سازوں کی حرکات نے کئی گھروں کو بے سہارا کر دیا ہے۔ بہرحال یہ تو
ابتدائی تحقیقات ہیں اور بعد ازاں مزید لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ سے ہی معلوم ہو
گاکہ اس معاملے میں تخریبی عناصر کارفرما تھے یا چند روپوں کے لالچ میں
انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جانا مقصد تھایا مزید کوئی ہوش رُبا انکشاف۔
قارئین! خصوصاً پاکستان میں ایسے معاملات سرِ دست سرعت سے رُونما ہوتے ہیں
مگر پھر آناً فاناً آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں کیوں کہ رات کو سوئیں اور
صبح اُٹھتے ہی میز پر اخبار میں ایک نیا مسئلہ اژدھے کی طرح منہ کھولے
دکھائی دیتا ہے جب کہ سابقہ خبر سٹی پیج سے ہوتی ہوئی اخبار سے ہی آﺅٹ ہو
جاتی ہے لیکن ادویات کے ری ایکشن کی سنگینی اِس امر سے ظاہر ہے کہ گورنر
پنجاب، وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے علاوہ وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک وغیرہ اس
معاملے میں کود پڑے ہیں اور سیاسی سکورنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا
اندازہ آپ درج ذیل کمیٹیوں اور لاحاصل تحقیقات سے لگا ہی لیں گے۔
قارئین!آخری اطلاعات موصول ہونے تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد80اور کئی
باوثوق رپورٹس کے مطابق100سے بھی تجاوز کر گئی ہے اور اس فیچر کے زیورِ
طباعت ہونے تک اِس اَمر کاقوی خدشہ ہے کہ اس تعدادمیں سرکاری اعدادوشمار کے
برعکس مزید اضافہ ہو جائے۔ جعلی ادویات کے ری ایکشن سے متاثرہ 26ہزار
لاہوریوں میں سے 2ہزار افراد کا تعلق سمن آباد سے ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے
جو ٹیمیں گھر گھر جا کر ادویات واپس لے رہی ہیں اُن سے پوچھنے پر معلوم ہوا
کہ مریضوں کے ایڈریس نامکمل ہونے کی وجہ سے ان تک ادویات کی تلفی کا پیغام
نہیں پہنچایا جا سکتا لیکن اب تک میڈیا کی تشہیری مہم کے تحت اکثر مریضوں
نے خود ہی ان ادویہ کو تلف کر دیا ہے۔
مزید براں کیمسٹ ایسوسی ایشن، فیصل آبادانسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور کیمسٹ
ریٹیلر ایسوسی ایشن نے امراضِ دِل کی درج ذیل ادویات کی فروخت پر مکمل
پابندی عاید کر دی ہے ۔جن میں
Cardiovestin, Corecant, Solprin, Zofnol, Atenolol, Istotab, Megadip,
Raliance, Mega Yang , Megasar۔
اس کے علاوہ امراضِ دِل کے لیے Angisedنامی دوا جو صرف ہسپتال سے ہی مِل
سکتی ہے اور اچانک دِل کی تکلیف محسوس ہونے پر زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے،
اور میڈیکل سٹور پر بھی دستیاب نہیں ، اس دوا پر فی الحال پابندی عائد نہیں
کی گئی۔حکومتِ پنجاب نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے5,5لاکھ روپے اور
زیرِعلاج مریضوں کے لیے2,2لاکھ روپے کا اعلان کیا،جب کہ ایف آئی اے نے ان
ادویات کے فیکٹری مالکان کو جسمانی ریمانڈپر بھی لینے کی اجازت حاصل کرلی
ہے۔
قارئین!معاملے کی چھان بین اور نہایت باریک بینی سے غوروخوض کرکے اِس عمل
کو روکنا عوام کے حق میں بہتر ہوگا،گو کہ پنجاب حکومت بَروقت ایکشن تو لیتی
ہے لیکن اِس ”بَروقت“میں وقت کافی گزر جاتا ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت ڈاکٹر سعید الہٰی کے مطابق پی آئی سی کی ناقص
ادویات کے تحقیقات کے لیے مزید چھ سب کمیٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔اخباری
ذرائع کے مطابق پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ادویات سے جاں بحق افراد
کی درست تعداد بتانے کی سزا سروسز ہسپتال کی ایم ایس ڈاکٹر ریحانہ ملک کو
ناقص انتظامات کا بہانہ بنا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ گزشتہ روز سیکرٹری
صحت نے میڈیا سے گفتگو کے دوران ادویات کے ری ایکشن سے جاں بحق ہونے والوں
کی تعداد ستائیس بتائی جن کے ساتھ بیٹھے سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز
کے پروفیسر فیصل مسعود نے انھیں فوراً جھوٹا ثابت کردیا اور کہا کہ ا نھیں
جناح ہسپتال کے ایم ایس نے فون پر بتایا ہے کہ 36 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں
جس کے بعد منگل کو ایم ایس ریحانہ ملک کو درست تعداد بتانے کی سزا دی گئی
تاہم بہانہ یہ بنایا گیا کہ ہسپتال میں ناقص انتظامات کی وجہ سے انہیں او
ایس ڈی بنایا جارہا ہے۔
گورنراور وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے فوری حقائق جاننے کے لیے ایکشن لیا لیکن تا
حال تو کسی سراغ تک نہیں پہنچا جا سکا۔ جب کہ حکوت نے پی آئی سی کے زیرِ
استعمال پانچ ادویہ کا بیلجیئم، فرانس، این آئی ایچ اسلام آباد، پنجاب یونی
ورسٹی لیب اور کیمیکل ایگزامینرپنجاب سے تجزیہ کروانے کا فیصلہ کِیا گیا۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی فارمیسی سے
لیے جانے والے نمونوں میں کوئی نقص نہیں۔ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے
لیے گذشتہ دنوں محکمہ صحت کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پرنسپل کے علاوہ علامہ
اقبال میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی سربراہی میں 18رکنی
کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی سربراہی میں قائم کمیٹی
میں تمام ای ڈی اوز کے علاوہ پی آئی سی کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر محمد اظہر،
پرنسپلSIMSپروفیسر فیصل مسعود، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پروفیسر ارشاد
حسن، پروفیسر فرزانہ چودھری ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ یونی ورسٹی آف ویٹرنری سائنسز
لاہور، پروفیسر آف فارمیسی پنجاب یونی ورسٹی پروفیسر بشیر، آئی پیا یچ کی
پروفیسر فرخندہ کوکب، ایڈیشنل سیکرٹری صحت (ٹیکنیکل) ڈاکٹر انور جنجوعہ، ڈی
جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز کے علاوہ پروفیسر منزہ قیوم، ڈی جی فرینزک
سائنس لیبارٹری، ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری مفتی عبدالسلام، پروفیسر
نوشین علامہ اقبال میڈیکل کالج، چیف کیمیکل ایگزامینر ڈاکٹر مبشر عتیق،
پروفیسر طاہر جاوید پنجاب یونی ورسٹی، شیخ اختر حسین ڈپٹی ڈائریکٹر کیبنٹ
ڈویژن اور ڈائریکٹر فارمیسی ڈی جی ہیلتھ آفس ایاز علی خان شامل ہیں۔ اس کے
علاوہ مریضوں کے لیے ہیلپ لائن 042-99200688 بھی قائم کی گئی ہے۔ محکمہ صحت
کے اجلاس میں فیصلہ کِیا گیا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میںخصوصی
کاﺅنٹر بنائے جائیں جو مریضوں کو ہدایات دیں گے اور جن مریضوں کے رابطہ
نمبرزموجود ہیں اُن کو قریبی ہسپتالوں میں متاثرہ ادویہ واپس کر کے ان کا
نعم البدل دوائیں دی جائیں ۔
گورنر، وزیرِاعلیٰ پنجاب کے بعد وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے ادویات کے
ری ایکشن کے باعث مریضوں کی ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے
وقار احمد کی سربراہی میں مشترکہ ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ اب وہ اس امر کا پتا
لگائیں گے کہ آیا یہ جعلی اور ناقص ادویہ لوکل مارکیٹ سے خریدی گئی تھیں یا
بیرونِ ملک سے درآمد ہوئی تھیں۔
قارئین!دوا کہاں سے آئی؟ اس کے تین ذرائع ہو سکتے ہیں: حکومت نے خریدی ہو
تو اس کے خرید اور فروخت کنندہ کا پتا چلایا جائے گا، ڈرگ کمپنی سے ملی ہو
گی تو لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹ سے یااین جی او سے فراہمی کی صورت میں بھی ٹیسٹ
رپورٹ کی موجودگی ضروری ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ انکوائری کے بعد ایک
بڑا سکینڈل سامنے آنے کا قوی امکان ہے۔
دلچسپ اَمر ہے کہ جن کمپنیوں کی ادویہ سے ری ایکشن ہوا انھیں لائسنس وفاقی
حکومت نے دیا تھا۔ جب کہ اس معاملہ پر محکمہ صحت پنجاب کے حکام تاحال خاموش
ہیں اور کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجاے تحقیقات کروانے کے سلسلے
میں کمیٹیوں کی تشکیل پر ہی اکتفا کِیا جا رہا ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی صرف ایک دوائی کارڈیک واسٹن سے ہلاکتوں
کی تعداد 25ہوچکی ہے۔ کارڈیوواسٹن نام کی یہ دوا جس کو بعد ازاں غیر معیاری
قرار دیا گیا، کولیسٹرول کو کم کرنے والی دوا ہے اور یہ دوائی ابھی تک تمام
میڈیکل سٹوروں پر سرِ عام فروخت ہو رہی ہے۔ دریں اثنا وزیرِ اعلیٰ پنجاب
شہباز شریف نے معاینہ کمیشن کے چیئرمین نجم سعید کی سربراہی میں ایک
اور9رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپنی رپورٹ تین دن کے اندر پیش کرے گی۔
علاوہ ازیں وزیرِ اعلیٰ نے ری ایکشن سے متاثرہ افراد کے لیے علیحدہ وارڈ
مختص کرنے کی ہدایت کی۔
افسوس تو اِس امر کا ہے کہ پنجاب حکومت جو پہلے ہی جعلی ڈاکٹروں، جعلی
ادویہ، کرپشن کا قلع قمع کرنے کی تگ ودو میں مصروفِ عمل ہے اسی کی ناک تلے
یہ سکینڈل بنتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتیں اقدامات تو بہت کرتی ہیں اور ان
اقدامات پر روپیہ بھی پانی کی طرح بہاتی ہیں لیکن ذرا سی غفلت یا دھیان
ہٹانے سے تخریبی عناصر دوبارہ برسرِپیکار ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان
عناصر و عوامل کی بیخ کنی یا سدِّ باب اربابِ اختیار کے بس کی بات نہیں۔
دِلچسپ اور قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ ایسے تمام افعال الیکشن سے کچھ عرصہ
قبل ہی ہوتے ہیں لیکن اس سے کہِیں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عوام کی
بھلائی کی خاطر غربت مکاﺅ مہم کے بجائے ”غریب مٹاﺅ“ پر عمل کِیا جارہا ہے۔
کبھی منہگائی کے بوجھ تلے، کبھی کرپشن سے، کبھی جایدادوں کی لوٹ کھسوٹ سے
تو کبھی جعلی ادویہ کے ذریعے۔ یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے کہ ایسے معاملات
آیندہ نہیں ہوں گے۔ |