امام قاضی ابو یوسف رحمة اﷲ علیہ

سم اﷲ الرحمن الرحیم

(113ھ/ 731ءتا182ھ/ 798ئ)

(4،ربیع الاول یوم وفات کے حوالے سے خصوصی تحریر)

امام ابویوسف رحمة اﷲ علیہ کا پورانام ”ابراہیم بن یعقوب بن حبیب الانشوری الکوفی البغدادی“تھا۔انشوری کی نسبت ان کی والدہ ماجدہ کی طرف سے تھی جبکہ کوفہ میں پیدائش انکی ”کوفوی“ نسبت کی وجہ بنی اور طلب علم اور خدمت علم کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت بغدادجیسے نابغہ روزگار شہر میں گزارا جس کی وجہ سے آپ ”بغدادی“بھی کہلائے۔بچپن سے ہی علم کے شیدائی تھے خاص طور پر علم حدیث میں آپ کا شوق دیدنی ہواکرتاتھا۔ہشام بن عروہ،ابو اسحاق الشیبانی اور عطا ابن سعید جیسے نامور محدثین سے آپ نے سماع حدیث کیا۔حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ کے میدان میں بھی قاضی ابویوسف نے محمد بن عبدالرحمن ابی لیلی جو زیادہ تر ابن ابی لیلی کے نام سے زیادہ مشہورہیں ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔لیکن جب آپ نے اصول فقہ یا اسلامی قانون سازی میں امام ابو حنیفہ کی شاگردی اختیار کی تو آپ کے علمی عروج کو چارچاند لگ گئے۔امام ابوحنیفہ کے ہاں طالب علم کی حیثیت نے آپ کو آسمان علم کے بام عروج تک جا پہنچایااورکہاجاتاہے کہ آپ عالم اسلام کے سب سے بڑے مکتب فکر فقہ حنفی کے اپنی نوعیت کے اولین اور اہم ترین قانون دان فقیہ ہیں۔آپ کو اسلامی حکومت نے قاضی القضاة کا منصب عطا کیااور آپ نے آزادی سے اپنے فرائض کی انجام آوری کی ۔یہ منصب اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے آپ کی شخصیت سے ہی متعارف ہوا۔

امام ابویوسف کاخاندانی مالی پس منظر بہت غربت سے مستعار تھا،آپ بڑے ہوئے تووالدہ محترمہ نے آپ کو تیل کے ایک کارخانے میں بٹھادیاتاکہ نان شبینہ کاانتظام ہوسکے جبکہ آپ کے والد محترم آپ کو امام ابوحنیفہ کے حلقہ درس میں بٹھاآئے ۔حالات کی تنگی کے باعث آپ کا تعلیمی سلسلہ ایک بار پھرمنقطع کردیاگیااور آپ پھر بچپن کے زمانے سے ہی روزگارسے وابسطہ کردئے گئے،لیکن طبع علمی پر یہ فن کسب گراں گزرااور ایک دن بھاگ کر پھر اپنے استاد محترم کے حلقہ درس میں آن وارد ہوئے،استفسارپر حقیقت حال گوش گزار کی توجب والدہ محترمہ بیٹے کی شکایت کے لیے حاضر خدمت ہوئیں تو استاد محترم نے کمال شفقت و مہربانی سے ماہانہ وظیفہ مقررکردیااور انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیاکیونکہ امام ابوحنیفہ ایک متول تاجر تھے اور ابویوسف جیسے قابل ولائق و ذہین و فطین طالب علم کے لیے ماہانہ وظیفہ کا تقرران کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔یہ دن اور پھر استاد کی زندگی کے آخری دن تک امام ابویوسف اپنے استاد سے ہی وابسطہ رہے،یہ عرصہ کم و بیش تیس سالہ طویل رفاقت پرمشتمل ہے۔

امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعدامام ابویوسف ایک بار پھر مالی مشکلات کا شکار ہو گئے لیکن اب کی بار قدرت نے پھریاوری کی اور حکومت وقت نے قاضی القضاة کے منصب کی پیشکش کردی۔اس منصب سے جہاں معاشی مسئلہ حل ہواوہاں اس سے بڑھ کر آپ کو اپنی علمی و فنی صلاحیتوں کی آزمائش کا موقع ملا،مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے طو ل و عرض سے قسم و قسم کے مسائل کے انبوہ کثیر تھے جو آپ کی عدالت میں صبح و شام پیش کیے جاتے تھے اور آپ بڑی عرق ریزی سے ان کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے فتاوی سے فیصلے صادر کرتے تھے۔دربار میں آپ کی شان و شوکت اس قدر زیادہ تھی کہ بادشاہ وقت کی سواری جس جگہ رکتی تھی آپ کی سواری اس سے بھی آگے جاکر رکتی تھی اورآپ اپنی نشست تک حکمران وقت سے کم فاصلہ پیدل چل کر پہنچتے تھے،آج کی اصطلاح میں کہاجاسکتاہے کہ قاضی ابویوسف کا ”پروٹوکول“خلیفة المسلمین سے بھی بڑھ کر تھا۔پورے دن کی ان گوناں گوں مصروفیات کے باوجود شام کے اوقات میں درس قرآن و حدیث کااہتمام کرتے تھے اور رات گئے تہجدکی نمازبھی عمر بھر قضا نہ ہوئی تھی۔

کتاب الآثار:یہ احادیث کامجموعہ ہے جو آپ نے اپنے اساتذہ اور والد محترم سے سن کر جمع کیا۔

اختلافات ابی حنیفہ و ابی یعلی:اس کتاب میں آپ نے اپنے دونوں اساتذہ کے اختلافات کو جمع کیا۔

کتاب الرد علی السیرالاوزاعی:اس کتاب میں امام اوزاعی رحمة اﷲ علیہ سے اپنے اختلافات نقل کیے۔

کتاب الخروج:اسلام نظم معاشیات اور نظام محاصل پر اب تک کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

اصول الفقہ:اسلامی قانون سازی کی اولین کتب میں سے ہے جس کاایک حصہ اسلام کے بین الاقوامی قوانین پر مشتمل ہے۔

کتاب الخروج،دراصل امام ابویوسف کی اصل وجہ شہرت ہے۔عباسی نامور خلیفہ ہارون الرشید نے آپ سے خصوصی درخواست کی تھی کہ اسلامی قوانین محاصل وزکوة و جزیہ وخراج وعشور کے تفصیلی احکامات پر مشتمل کوئی کتاب تحریر کریں ۔امام صاحب نے اپنی کتاب میں ان معاشی مسائل پرایک تفصیلی و تحصیلی کتاب رقم انداز کی اور پھر حکومت وقت نے اسے اسلامی مملکت میں جاری و ساری بھی کردیاجس سے اس کتاب میں لکھے ہوئے قوانین پر اس وقت سے آج تک عمل جاری ہے۔خراج سے مراد زمینوں کا محصول ہے جومسلمان کاشتکار اپنی پیداوار میں سے ایک خاص حصے کے طور پر حکومت وقت کواداکرتے ہیں۔عشور سے مراددس فیصد ہے جو تاجروں اور کاشتکاروںسے بطور ٹیکس وصول کیاجاتاہے،اگر زمین کی آب یاری کے لیے ادائگی کی جاتی ہو تو عشور کی شرح پانچ فیصد ہوگی اور اگر آب یاری قدرتی ذرائع سے مفت ہوتی ہو تو عشور کی شرح دس فیصدہوگی۔اسی طرح مسلمان تاجروں سے ”ربع الاشور 2.5%“محصول لیاجائے گا،اسلامی ریاست کے غیر مسلم تاجروں سے ”نصف الاشور5%“محصول وصول کیاجائے گااورغیرمسلم ریاستوں یادارالحرب کے غیر مسلم تاجروں سے مکمل عشور10%وصول کیاجائے گا۔جبکہ جذیہ ایسا محصول ہے جواسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں سے ان کی حفاظت کے عوض وصول کیاجاتاہے کیونکہ ان سے دفاعی خدمت نہیں لی جاتی جبکہ ہر مسلمان پر قتال اسی طرح فرض ہے جیسے نمازاورروزہ فرض ہیں۔

امام ابویوسف نے مال ”فے “اور زکوةسمیت اسلامی ریاست میں تمام محاصل کی جملہ تفصیلات اس کتاب میں پورے دلائل کے ساتھ درج کر دی ہیں۔امام صاحب نے اس کتاب میں آزاد معیشیت کے تصورات پر بھی تفصیلی مباحث درج کی ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیل سے بتایاہے کہ مہنگائی کی روک تھام کے کیاکیاطریقے ہو سکتے ہیں اور قیمتوں کے اتارچڑھاؤ پر حکومت کس حد تک قابو پا سکتی ہے اور کہاں کہاں حکومت پابند رہے گی کہ معاشی سرگرمیوں کو کھلا چھوڑ دے اور ان پر کوئی قدغن نہ لگائے۔اس ”کتاب الخروج“کی تصنیف کواگرچہ صدیاں گزر گئی ہیں لیکن آج بھی یہ اپنے مندرجات کے اعتبار سے اسلامی معاشیات کی ایک راہنما کتاب ہے اور اسلامی ریاست سے متعلق مالیات و تجاریات وکاروباریات کی تمام تر راہنمائیاں جو قرآن و سنت سے میسر ہو سکتی ہیں اس کتاب میں بدرجہ اتم درج کر دی گئی ہیں۔اس کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ صرف ایک تصوراتی یا فلسفیانہ کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے اخذکردہ قوانین صدیوں تک اسلامی ریاستوں میں جاری و ساری رہے ہیں اور یہ ہر لحاظ سے ایک آزمودہ کتاب ہے جس کے مجوزات کے مطابق اسلامی قوانین کے ماہر فقہائے کرام قرنوں سے فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں۔

امام ابوحنیفہ نے اپنے چالیس شاگردوں پر مشتمل ایک مشاورت بنائی تھی جس میں بعض اوقات کئی کئی دنوں تک ایک مسئلہ پر گفتگوہوتی اور دلائل کا تبادلہ ہوتاتھا،امام ابویوسف اس مشاورت کے ایک اہم رکن تھے۔فقہاءکے پانچ د رجات بتائے جاتے ہیں:
۱۔مجتہدمطلق مستقل:جس کے اپنے اصول ہائے فقہ ہوں جیسے ائمہ خمسہ،امام اوزاعی،ابن حزم،داؤدظاہری وغیرہ
۲۔مجتہد مطلق منتسب:جس مجتہد کے اپنے اصول و کلیات ہوں لیکن کسی امام سے نسبت رکھتاہو جیسے امام ابویوسف،امام محمد،امام زفر،غلام الخلال وغیرہ۔
۳۔مجتہد ترجیح:کسی ایک امام کی پیروی میں رہ کر اجتہاد کرنے والے جیسے ماوردی،نووی اور امام سرخسی وغیرہ۔
۴۔مجتہد تخریج:مسائل میں اجتہاد کرنے والے جیسے الکندی،رازی اور باقلانی وغیرہ۔
۵۔مجتہدفتاوی:اپنے فقہی مسلک کے مطابق فتوی دیتے ہیں اجتہاد نہیں کرتے۔

امام ابویوسف اپنی ثقاہت علمی کے باعث ان کاشمارمجتہدمطلق منتسب کے مقام پر ہوتاہے اور بعض لوگ تو ان کومجتہدمطلق بھی گردانتے ہیں۔امام ابویوسف ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ماہ و سال اس دین کی تشریح و توضیح میں گزر گئے اور ساری عمر اس کام میں صرف ہو گئی ۔اقوام کا مستقبل پڑھے لکھے لوگوں سے وابسطہ ہوتاہے،علمی عروج قوموں کو سیاسی عروج بخشتاہے جبکہ علمی زوال قوموں کوماضی میں دفن کردیتاہے،امت مسلمہ کی تو پہچان ہی کتاب ہے پس اﷲ تعالٰی غریق رحمت کرے ان لوگوں کو جو آج تک امت مسلمہ کی علمی و تعلیمی زندگی کا باعث ہیں ،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.