یہ تو معلوم نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کب
اور کہاں ہوئی البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ برسوں پہلے جب ملتان میں ہونے
والی ادبی تقریبات میں گاہے بگاہے شرکت کیا کرتا تھا تو دل کے تاروں کو چھو
تی اور دماغ کے پردے پر ہلچل پیدا کر تی عاصی کرنالی کی شاعری نے ان کا
گرویدہ بنا دیا تھا۔ پھرجب نوائے وقت میں قلمی سفر شروع کیا تو اپنی
تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کرنے کے لیے اردو ادب سے وابستہ جن لوگوں سے
تعلقات استوارکیے ان میں شریف صاحب کا نام سر فہرست تھا۔وقت گزرتا گیا اور
ادب سے دلچسپی بڑھتی گئی تو شعر و شاعری اور مشکل ادبی اصطلاحات کو سمجھنے
کے لیے ان سے براہ راست رابطہ بڑھ گیا۔ مقامی لا کالج اور نجی گرلز کالج
میں ہونے والی تقریبات میں بھی ان سے مستقل ملاقاتیں رہنے لگیں۔ جب اقبال
کی شاعری کو سمجھنے کا شوق ہوا تو مشکل تلمیحات اور استعاروں میں پوشیدہ
مطالب اور مفاہیم کا ادراک کرنے کے لیے عاصی کرنالی سے رہنمائی لینا شروع
کر دی۔پھریہ معمول بن گیا کہ صبح سویرے دفتر پہنچ کر فون ملا تاتوکانوں میں
رس گھولتی ان کی نرم و ملائم آوازسننے کو ملتی بیٹا جو پوچھنا ہے جلدی پوچھ
لو میں نے کالج بھی جانا ہے۔ جب مشکل الفاظ کی فہرست جیب سے نکالتا اور
الفاظ میرے منہ سے نکلتے ہی ان کی طرف سے فصاحت و بلاغت کا دریا بہنا شروع
ہو جاتااور اپنے علم و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ یہ بھی بھول جاتے کہ
انہوں نے کالج بھی جانا ہے۔ مجھے یاد نہیں کبھی میں نے فون کیا ہو اور
انہوں نے میرے سوالوں کا جواب دینے سے عذرخواہی کی ہو۔ کافی عرصہ یہ سلسلہ
برقرار رہا پھر روز گار کے مسائل میں الجھا رہنے کی وجہ سے ان سے رابطہ
عارضی طور پر منقطع ہو گیا۔حالات کے جبر کے تحت روز گار کی وجہ سے لاہور
منتقل ہونے کے بعداک دو دفعہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ
وہ گھر پر نہیں ہیں۔ جب نجی ٹی وی چینل جوائن کیا تو لکھنے پڑھنے کا کام
محدود ہو کر رہ گیا یوں ان سے رابطے کا بہانہ جاتا رہا۔
گزشتہ سال جنوری کے آخری دنوں میں حسب معمو ل رات گئے خبروں کے جھنجھٹ سے
فارغ ہو کر ملتان کے آن لائن اخبارات دیکھے تو عاصی صاحب کی وفات کی خبر
دیکھ کر ٹھٹھک گیاتھا اور زمین پاﺅں کے نیچے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔بے
اختیار جی چاہا کہ اسی وقت فون کر کے ثمر بانو ہاشمی اورپروفیسر شارق
جاویدسے تعزیت کروںمگر آدھی رات گزرجانے کی وجہ سے ایسا کرنا اچھا نہ لگا۔
اگلے دن جب آپریٹر سے شارق صاحب کا نمبر ملانے کا کہا تو آنکھوں کے سامنے
ماضی کے تمام لمحات گھوم گئے۔عاصی صاحب کے ساتھ ملتان کے مشاعروں میں ہونے
والی گپ شپ، ٹیلیفونک بات چیت اور ان کی شفقت کا ایک ایک لمحہ پردہ ذہن پر
ابھر آیا۔ان کی وفات کے بعدجب ملتان گیا توسول لائنز کالج میںپروفیسر شارق
جاوید سے شریف صاحب کے لیے فاتحہ خوانی اور اپنے مہربان استاد معروف ماہر
معاشیات پروفیسر الطاف حسین کے پاس حاضری کا پروگرام سرفہرست تھا۔ 14 فروری
کو جب دنیا یوم محبت منا رہی تھی اور میںسول لائنز کالج کے سٹاف روم میں
بیٹھا پروفیسر شارق جاوید کے سامنے عاصی صاحب کے لیے دعا کر رہا تھا تو بے
اختیار میرے لبوں پر ان کا یہ شعر آ گیا
میں محبت ہوں مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک انسان کے سینے میں میرا دل رکھ دو |