قطر میں طالبان کا ہیڈ آفس

معروف مغربی جریدے ”ٹیلی گراف“نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان راہنماءاپنا سیاسی رابطہ آفس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کھولنے کے لیے پہنچ گئے ہیں اور طالبان امریکہ مذاکرات ایک ہفتے میں شروع ہونے کے واضح امکانات ہیں ،اخبا ر نے لکھا ہے کہ طالبان سنیئر راہنماﺅں کی ایک ٹیم جو قطر پہنچی ہے ان میں ملا محمد عمر کے سابق سیکرٹری سید طیب آغا ، شیر محمد عباس اور شہاب الدین ساتکزئی شامل ہیں دریں اثناءافغان امن کونسل نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ فیصلہ کن مذاکرات ایک ہفتے میں شروع ہو سکتے ہیں ، ایک بھارتی نجی ٹیلی ویژن نے یہ بھی خبر دی ہے کہ امریکی صدرکے خصوصی نمائندے مارک گراسمین قطرمیں ان طالبان لیڈروں سے مل چکے ہیں تاہم خود امریکی وزارت خارجہ سرکاری طور پر اس حوالے سے تفصیلات بتانے سے گریزاں ہے مگر اسی وزارت کی خصوصی رکن وکٹوریا نولینڈ نے اس سلسلے میں کافی اشار ے دیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی مارک گراسمین طالبان سے مل چکے ہیں ۔افغانستان میں امریکی شکست کو عیاں کرتی اسی طرح کی ایک اور خبر آج 29جنوری کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ فرانس نے اپنے ایک ہزار فوجی افغانستا ن سے جلد واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور جرمن عہدیداروں نے بھی اپنی فوج کی تعداد کم کرنے پراتفاق کر لیا ہے ۔ امریکہ طالبان جنگ کوایک دہائی سے زائد کا عرصہ بیت رہا ہے ، ان گزشتہ مہ وسال میں طالبان نے عظیم تر استقامت اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی سپر پاور اور اسکے اتحادیوں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں اور عسکری ماہرین اس بات اور نکتے پر متفق ہو چکے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف بر سر پیکار بیالیس کے قریب ممالک کی ا فواج کو سخت ترین مزاحمت اور رسوائی کا سامنا کر نا پڑرہا ہے ، اب تو نوبت بایں جا رسید کہ امریکہ طالبان کے سامنے اس درجہ اور ضرورت سے بڑھ کر لچک کا مظاہرہ کر رہاہے کہ اس نے گوانتا ناموبے میں قید بعض اہم طالبان کمانڈروں کو بھی رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اس کے لیے بس یہی شرط رکھی گئی ہے کہ طالبان سے زندگی کی بھیک مانگی گئی ہے، طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے وائٹ ہاﺅس کا بیان ملاحظہ ہوکہ” امریکہ دراصل مفاہمتی عمل کا خیر مقدم کر تا ہے تاہم افغانستان میں حقیقی امن کاعمل شروع کرنے سے پیشتر طالبان کو تشدد کا راستہ چھوڑنا ہوگا“ ، اس تشدد کا راستہ ترک کرنے میں وہ دراصل اپنے فوجیوں کی خیر مانگ رہا ہے جب کہ اس پر طالبان کی جانب سے بغیر کسی لگی لپٹی کے ٹھوس الفاظ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی قید میں امریکی فوجیوں کی رہائی گوانتا ناموبے میں مقیدطالبان کی رہائی سے مشروط ہے ،طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق آئندہ جو بھی پیش رفت ہوگی اس سے افغان عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کیا جا تا رہے گا ، قطر میں طالبان آفس کھولنے کے حوالے سے بھی طالبان کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکہ نے اگلے دو برسوں میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کی یقین دہانی کرائی ہے ، طالبان نے اس حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوجیں نکالنے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہے تو افغانستان کے بقیہ مسائل آسانی سے بات چیت کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں،ایک پاکستانی جریدے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دس سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی امریکی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کے لیے خلیجی ریاست قطر میں سیاسی امور کا دفتر کھولنے جار ہے ہیں۔ دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی عجیب مخمصے کا شکا رہیں اور وہ لمحہ بہ لمحہ تیزی سے بدلتی افغان صورتحال پر کوئی ٹھوس پالیسی اپنانے سے قاصر ہیں ، زیادہ دن نہیں گزرے کہ انہوں نے طالبان دفتر کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا مگر اب انہوں نے اچانک قلابازی لگائی ہے اور دوحہ میں طالبان دفتر کے منصوبے اور طالبان امریکہ مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا ہے، پاکستانی وزارت خارجہ کا ان مذاکرات کے حوالے سے یہی موقف رہا ہے کہ ”پاکستان افغانستان کے حوالے سے ایسی کوششوں کی حمایت کرے گا جس سے جنگ سے چھٹکارا حاصل ہو اورسیاسی مصالحت کی راہ ہموار ہو سکے “۔ جلال آباد کے ایک اخبار سے وابستہ صحافی دوست حضرت علی نے دو روز قبل راقم کو بتایا کہ افغان عوام کی نظروں میں طالبان کی آمد ایک حقیقت کا روپ دھارنے جا رہی ہے جب کہ عملا اب بھی ملک کے طول و عرض میں طالبان کے آثاربڑے ٹھوس انداز سے ہویدا ہیں اور اتحادی فورسز ، امریکی کٹھ پتلی کرزئی حکومت محض فوجی قلعوں اور دفاتر تک ہی محدود ہیں۔اس صورتحال میں علاقائی امن اور سلامتی کے حوالے سے امریکہ کے اپنے مفاداور خیر کاراز بس اسی میں چھپا ہے کہ وہ غیور افغان دھرتی کو فتح کرنے کا خواب ہمیشہ کے لیے ترک کر کے اپنی بیالیس ممالک کی سپاہ کو واپس لے جائے ورنہ جس طرح ایک دہائی سے وہ اپنے فوجیوں کے تابوت وصول کر رہا ہے اس کے بقیہ ماندہ فوجیوں کی بھی افغانستان کے غیور حریت پسندوںکے ہاتھوں خیر نہیں ، پس امریکہ کو اپنے جنگی جنون کا وطیرہ ترک کر کے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ کر اس خطہ سے فی الفور کوچ کر جانا چاہیے وگرنہ وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے کہ اس کا آخری فوجی سویت یونین کے فوجی” کریموف“ کے یہ الفاظ دہرا دے کہ” اے افغان سرزمین ! خدا کی قسم تو طالع آزماﺅں کے لیے کسی جہنم سے کم نہیں ہے“ ، اور ہاں فرق صرف اتنا سا ہوگا کہ کریموف نے اگر یہ الفاظ دریائے آمو پار کرتے وقت کہے تھے تو آج کی سپر پاور کا” لاسٹ سولجر“ طور خم یا سپین بولدک عبور کرتے وقت انہی الفاظ کو دہرا رہا ہوگا۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 36996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.